پاکستان میں ریسکیو 1122 کا قیام یقیناً ایک انقلابی قدم
تھا۔ ایک ایسا ادارہ جس نے اپنے ابتدائی دنوں میں جانیں بچا کر عوام کا
اعتماد جیتا، اور بین الاقوامی سطح پر بھی خود کو ایک ماڈل ایمرجنسی سروس
کے طور پر پیش کیا۔ مگر آج، بائیس سال گزرنے کے بعد، یہی ادارہ زوال کی اس
نہج پر کھڑا ہے جہاں اس کی ساکھ اور افادیت سوالیہ نشان بن چکی ہے — اور اس
زوال کی بنیادی وجہ ہے: ایک شخص کی بائیس سالہ ناقابلِ احتساب حکمرانی۔
ڈاکٹر رضوان نصیر، جو اس ادارے کے بانی ضرور ہیں، مگر اب ادارے کے اندر ہر
خرابی کی جڑ بن چکے ہیں۔ ریسکیو سروس جیسے حساس اور عوامی خدمت کے ادارے
میں جب ایک ہی فرد اتنے طویل عرصے تک بلا رکاوٹ سربراہی کرتا ہے تو ادارے
کی نمو رک جاتی ہے، کارکردگی جمود کا شکار ہو جاتی ہے اور ایک شخصی آمریت
جنم لیتی ہے۔ دنیا بھر میں ہیومن ریسورس مینجمنٹ کے اصولوں کے مطابق ہر
کلیدی عہدے پر دو سے تین سال سے زیادہ ایک فرد کو برقرار رکھنا ادارے کی
کارکردگی اور شفافیت کے خلاف سمجھا جاتا ہے — خصوصاً پبلک سروسز میں جہاں
فیصلہ سازی براہِ راست انسانی جانوں سے جڑی ہو۔
عالمی سطح پر ایمرجنسی میڈیکل سروسز کے لیے اسٹینڈرڈ یہ ہے کہ ایک
ایمبولینس میں کم از کم دو تربیت یافتہ ایمرجنسی میڈیکل ٹیکنیشنز (EMTs)
تعینات ہوں۔ امریکی نیشنل اسٹینڈرڈ، NHS UK گائیڈلائنز، اور World Health
Organization (WHO) کی پالیسیز کے مطابق دو EMTs کا ہونا نہ صرف مریض کی
جان بچانے میں بنیادی شرط ہے بلکہ یہ سروس کو محفوظ اور مؤثر بناتا ہے۔ مگر
پنجاب میں شاید ہی کوئی ایسی ایمبولینس ہو جس پر یہ معیار پورا کیا گیا ہو۔
ایک EMT تن تنہا شدید زخمی مریض کو سنبھالتا ہے، ابتدائی طبی امداد دیتا
ہے، اسٹریچر سنبھالتا ہے اور دورانِ سفر فرسٹ ایڈ بھی فراہم کرتا ہے۔ یہ
انسانی صلاحیتوں سے ماورا مطالبہ ہے۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ رضوان نصیر کی سربراہی میں اس ادارے نے اپنی اصلیت اور
مقصد کھو دیا ہے۔ اس کی جگہ ایک "پرفارمنس تھیٹر" نے لے لی ہے جہاں لاہور
کی اکیڈمی میں ایمرجنسی کی ڈرامائی ویڈیوز تیار کر کے سوشل میڈیا پر ایک
حیرت انگیز کارکردگی کا تاثر دیا جاتا ہے، مگر فیلڈ میں ریسکیورز نہ سٹاف
ہیں، نہ سہولیات، نہ تحفظ۔
یہی نہیں، ریسکیورز کے لیے نوکری کا کوئی سروس سٹرکچر موجود نہیں۔ بائیس
سال گزرنے کے باوجود ان کا نہ پروموشن کا نظام وضع کیا گیا، نہ سروس رولز
کا تعین ہوا۔ ان کی نوکری کسی سرکاری تحفظ کے دائرے میں نہیں آتی — نہ سروس
گارنٹی ہے، نہ پنشن، نہ ہی کوئی مستقل حیثیت۔ حالانکہ دیگر تمام سرکاری
اداروں جیسے پولیس، صحت، تعلیم میں سروس رولز، پروموشن چین، اور ٹائم سکیل
سسٹمز باقاعدہ نافذ العمل ہیں۔ ریسکیو اہلکاروں کو صرف ایک ٹائم سکیل، وہ
بھی دس سال بعد، دیا گیا — اور اس پر بھی ادارہ احسان جتاتا ہے۔
ڈاکٹر رضوان نصیر خود 22ویں گریڈ تک پہنچ چکے ہیں، اور اپنے قریبی وفادار
افسران کو بھی نوازا جا رہا ہے، مگر وہ ریسکیور جو پچھلے بائیس سالوں سے
اسی ادارے کی بنیاد اور ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں، آج بھی اسی سکیل میں کام
کر رہے ہیں جس میں وہ بھرتی ہوئے تھے۔
اس سے بڑھ کر ظلم یہ ہے کہ جو ریسکیور اپنی جوانی اور طاقت اس محکمہ کو
دیتے ہیں، جب وہ پینتالیس سے پچاس سال کی عمر کو پہنچتے ہیں اور فیلڈ ورک
کے قابل نہیں رہتے، تو انہیں جبری ریٹائرڈ کر دیا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں —
خواہ وہ پولیس ہو یا فوج — اسٹیٹ ان افسران کو compensatory ڈیپارٹمنٹس میں
تعینات کرتی ہے، جیسے ایڈمنسٹریشن، ٹریننگ یا دیگر غیر آپریشنل یونٹس۔ مگر
ریسکیو 1122 میں رضوان نصیر نے ایسی کوئی پالیسی نہ بننے دی اور نہ بننے دی
جا رہی ہے۔ یہ سراسر انسانی وسائل کے اصولوں، انصاف اور قانون کے منافی
طرزِ عمل ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ یہ ادارہ اب عوامی خدمت کے لیے نہیں بلکہ ذاتی نمائش، سوشل
میڈیا امیج بلڈنگ، اور وفادار افسروں کو نوازنے کا ذریعہ بن چکا ہے۔ اس
ادارے کی اصل روح — یعنی فوری مدد، پیشہ ورانہ مہارت، اور انسانی جانوں کا
تحفظ — کہیں دفن ہو چکی ہے۔
یہی وقت ہے کہ اگر حکومت واقعی سنجیدہ ہے تو سب سے پہلے ریسکیو 1122 کے
اندر ریفارمز کا آغاز کیا جائے۔ رضوان نصیر جیسے "ناقابلِ احتساب بادشاہوں"
کو فوری طور پر عہدے سے ہٹایا جائے، ریسکیورز کو دیگر محکموں کی طرح سروس
گارنٹی دی جائے، انٹرنیشنل اسٹینڈرڈز کے مطابق اسٹاف بھرتی کیا جائے، اور
انکے کیریئر، ترقی اور تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے جامع سروس رولز بنائے
جائیں۔
ایک ادارہ جو انسانی جانوں سے جڑا ہو، اسے شخصی وفاداریوں، سوشل میڈیا شو
بازیوں، یا طویل المیعاد آمریتوں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔
|