اکیاون فیصد کیوں ضروری! اسٹوپڈ یا جینئس کون!

"مذہبی" ہونا اللّٰہ کی نہیں ۔۔۔ انسان کی ضرورت ہے۔ کہ اللّٰہ چاہتا ہے ہم مذہبی ہوں ۔۔۔ لیکن اندھا دھند اور بنا سوچے سمجھے نہیں ۔۔۔ بلکہ خوب سوچ سمجھ کر اپنی مرضی، شکر گزاری اور محبت کے ساتھ۔
اور جو بھی ایسا کر پائے گا وہ کفر کرنے والوں کو نفرت میں بھوکا مارنے کی نہیں ۔۔۔ بلکہ ہمدردی میں ہدایت کے راستے پر لانے کی کوششوں میں جت جائے گا ۔۔۔ کہ یہی تو وہ کام ہے جو ختمِ نبوت کی برکت سے اس امت کو منتقل ہؤا ہے۔ جیسا کہ اللّٰہ فرماتا ہے کہ "تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے بھلے کے لئے نکالی گئی ہے، جو نیکی کی دعوت دیتی ہے اور برائی سے روکتی ہے". لیکن ہمارا کام صرف ایمان و اخلاق کی دعوت دینا ہے ۔۔۔ ہدایت دینا نہیں۔ کیونکہ اللّٰہ نے تو اپنے محبوب ﷺ تک سے یہ فرما دیا تھا کہ "آپ کیوں اپنی جان کو ہلکان کرتے ہیں، آپ کا کام صرف دعوت حق دینا ہے ۔۔۔ ہدایت دینا نہیں ۔۔۔ آپ کسی کو ہدایت نہیں دے سکتے ۔۔۔ بلکہ اللّٰہ ہی ہے جو جسے چاہتا ہے ہدایت سے نوازتا ہے۔
اور بے شک جس نے تعصبات، رشتوں اور فرقوں سے بالاتر ہو کر قرآن و حدیث سے یہ بات سمجھ لی ۔۔۔ اس کو کسی فلسفی اور کسی مفکر سے سمجھنے کی ضرورت نہ رہے گی ۔
ہاں اس پر اعتراض کوئی بھی کر سکتا ہے ۔۔۔ پڑھا لکھا بھی اور جاہل بھی ۔۔۔ لیکن ان دونوں کے اعتراض میں ہمیشہ ایک بنیادی فرق ضرور ہوتا ہے ۔۔۔ وہ یہ کہ جب پڑھا لکھا کسی بات پر اعتراض کرتا ہے تو اس سے بہتر بات پیش کرتا ہے یا پھر نشاندھی کرتا ہے کہ یہ فلاں قاعدے قانون یا اصول و ضابطے کے خلاف ہے ۔۔۔ جبکہ جاہل کے پاس اعتراض کی کوئی خاص وجہ ہونا ضروری نہیں ۔۔۔ اس کو بلا وجہ بھی اعتراض ہو سکتا ہے ۔
ہمارے ہاں ایک عجیب سا کلچر ہے کہ لوگ سوال کرنے پر ناراض ہو جاتے ہیں ۔
خاص طور پر ایک طبقہ تو بعض اوقات جواب دینے کی بجائے گستاخ، بد مذہب اور یہاں تک کے کافر یا مرتد ہونے کا فتویٰ بھی دے ڈالتا ہے ۔
حالانکہ سوال سراسر "لاعلمی" کی بنیاد پر کیا جاتا ہے اور لاعلمی پیاس کی طرح ہوتی ہے جو جواب دینے پر ہی بجھتی ہے ۔
شاید اس کی وجہ ہے کہ یہ لوگ ہر سوال کو اعتراض پر قیاس کرتے ہیں ۔
جبکہ اعتراض سراسر "علم" کی بنیاد پر کیا جاتا ہے ۔
اور اس کا جواب غصہ بالکل بھی نہیں بلکہ علمی دلیل ہوتی ہے ۔
پڑھے لکھے معاشروں میں سوال اور اعتراض کے اس بنیادی فرق کو ہمیشہ ملحوظِ خاطر رکھا جاتا ہے اور ناراض ہونے یا فتویٰ دینے کی بجائے لاعلمی یا علم دونوں کا علمی دلیل سے سامنا کیا جاتا ہے ۔
اس سے نہ تو معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے اور نہ طبقاتی دوری بڑھتی ہے ۔
تو پلیز سوال اور اعتراض کے اس بنیادی فرق کو سمجھیں اور دونوں کا ہی علمی دلیل کے ساتھ سامنا کرنے کا حوصلہ پیدا کریں ۔
تاکہ ہمارا معاشرہ بھی پڑھے لکھے معاشروں میں گنا جا سکے ۔
آج کل ہر پاکستانی "عاشق رسو ل" ہونے کا دعویدار اور "حرمت رسول" کو بنیاد بنا کر ہر جھوٹی سچی بات پہ بغیر تحقیق کسی کی بھی جان لینے اور اپنی دینے کے لئے ہر وقت تیار ہے۔
لیکن بد نصییبی کی انتہا ہے کہ جب اسے انہی اللّہ کے محبوب صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی کوئی بات (صحیح حدیث) پیش کی جائے تو وہ اس بات کو ماننے یا اس کی بنیاد پر اپنی اصلاح کرنے کی بجائے کہتا ہے کہ:- "استغفراللّٰہ یہ تم ہمیں کس کے ساتھ ملا رہے ہو یا پھر یہ کہ نعوذباللّٰہ ہمارا ان سے کیا موازنہ"۔۔۔!
حالانکہ یاد کریں وہ وقت کہ جب اللّہ کے محبوب صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم نے حضرت اسامہ بن زید رضی اللّہ تعالیٰ سے بھی یہ فرما دیا تھا ۔۔۔ کہ اسامہ تجھے کیسے پتہ کہ تیرے ہاتھوں قتل ہونے والے کافر نے تیری تلوار کے نیچے آنے پر کلمہ دل سے پڑھا تھا یا موت کے خوف سے؟
کیا تو نے اس کا دل چیر کر دیکھ لیا تھا؟
اگر قیامت کے روز اس نے کلمہ پڑھتے ہوئے تیرے خلاف مقدمہ کیا تو تو کیا کرے گا؟
اور پھر یہی بات اتنی بار دہرائی کہ حضرت اسامہ کے دل میں آیا کہ کاش میں آج اسلام لایا ہوتا کہ کم از کم میرا یہ "قتلِ ناحق" والا گناہ تو معاف ہو جاتا ۔۔۔!
تو ذرا سوچئے ہم کس زعم میں کسی "کلمہ گو" پر اس کے صفائی دینے کے باوجود کافر کا فتوٰی دے کر اس کے قتل کے درپے ہو جاتے ہیں؟
ہمیں کیوں ڈر نہیں لگتا کہ قیامت کے روز اس نے کلمہ پڑھتے ہوئے ہمارے خلاف مقدمہ کیا تو کیا ہو گا؟
کیا ہم نے اس کا دل چیر کر دیکھا ہوتا ہے؟
یا نعوذباللّٰہ ہم خود کو مرتبے میں حضرت اسامہ سے بھی افضل خیال کرتے ہیں جو حضرت زید بن حارثہ رضی اللّہ تعالیٰ کے بیٹے ہونے کی نسبت سے آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کے پوتے جیسے تھے ۔۔۔؟
خدارا ذرا سوچئے ۔۔۔۔!
"علماء" سے الحمدللہ آج بھی کسی کو مسئلہ نہیں ۔
مسئلہ صرف "اس" سے ہے جو عالم کی حیثیت سے خود کو رول ماڈل کے طور پر پیش کرتا ہے لیکن ۔۔۔ جس کی اپنی زندگی اللّہ کے محبوب صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم ، ان کے تربیت یافتہ خلفاء راشدین اور صحابہ کرام رضوان اللّہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی زندگیوں سے بالکل الٹ ہوتی ہے ۔
جو عزت تو قرآن و حدیث کے عالم کے طور پر کماتا ہے لیکن ساری زندگی تعلیم اپنے مسلک کے بزرگوں کی ان کتابوں سے دیتا ہے جو صریحاً قرآن و حدیث کی تعلیمات کے منافی ہوتی ہیں ۔
جو صرف اپنے مسلکی نظریات سے اختلاف رکھنے پر دوسروں کو بد مذہب ، بدعتی ، مشرک ، گستاخ رسول ، گستاخ اہلِ بیت ، گستاخ صحابہ ، گستاخ اولیاء اور کافر ، مرتد یا واجب القتل تک قرار دیتا ہے ۔
جو اپنی مسجد میں آنے والے ہر نمازی پر صرف اپنا "طریقہ نماز" مسلط کرنا چاہتا ہے اور اس کی خاطر اس کو زبانی تنبیہ سے لے کر بحث و تکرار ، بدتمیزی اور یہاں تک کے مسجد سے نکالنے سے بھی نہیں رہتا ۔
جو نمازی کو کسی اور مسلک کے مولوی کے پیچھے یا اس کی مسجد میں نماز پڑھنے سے یہ کہہ کر روکتا ہے کہ باقی کسی کے بھی پیچھے یا مسجد میں نماز ہی نہیں ہوتی ۔
جو نہ دوسرے مسلک کے عالم کو عالم ، اذان کو اذان ، نماز کو نماز ، مسجد کو مسجد ، قربانی کو قربانی سمجھتا ہے اور نہ ان کے ذبیحے کو حلال و ان کے ساتھ رشتے داری و معاملہ کرنے کو جائز ۔
یہی وجہ ہے کہ عام آدمی اس سے تھک ہار کے ، متنفر ہو کے ہر اس "انجینئر" و ڈاکٹر کی بات سُنتا اور اس کو فالو کرتا ہے جو درج بالا "جہالتوں" کو رد کر کے ہر مسلمان کو اللّہ پاک ، اس کے محبوب صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم اور قرآن و حدیث سے جوڑتا اور تعلیمات سے روشناس کرواتا ہے ۔
لہٰذا "عالم" کو عوام الناس سے گلے شکوے کرنے یا "انجینئر" و ڈاکٹر کے خلاف ساری توانائیاں خرچ کرنے کی بجائے اپنی صفوں میں زبردستی گھسے ان شرپسند "جہلا" کو پہچاننے و نکالنے کی ضرورت ہے ۔
لوگ انشاللہ پھر سے "علماء" سے جڑ جائیں گے ۔
بے شک اللّٰہ پاک قوموں کی قسمت کا فیصلہ ان کے مجموعی اعمال کی بنیاد پر کرتا ہے ۔۔۔ اگر قوم کی اکثریت اللّٰہ کے بھیجے گئے پیغمبر کے راستے پر ہو تو اسے عروج بخشتا ہے اور اگر یہی اکثریت پیغمبر کا راستہ چھوڑ بیٹھے تو ناصرف زوال دیتا ہے بلکہ اس پر ظالم حکمران بھی مسلط کر دیتا ہے ۔۔۔ جیسا کہ اس وقت ہمارے ساتھ ہو رہا ہے ۔۔۔
اگر ہم اس ذلت سے نکل کر پھر سے عزت پانا چاہتے ہیں تو ہمیں بحیثیت مجموعی رسول اللّٰہ کے راستے کو اپنانا ہی ہو گا ۔۔۔ یعنی انسانیت، خدمت، مساوات، حق اور انصاف کے راستے کو ۔۔۔ کہ جس پر چل کر آج کافر دنیا میں عروج حاصل کر چکے ہیں ۔۔۔ اور ہم ہیں کہ اس کو چھوڑ کر پستی، ذلت و رسوائی میں ڈوبے چلے جا رہے ہیں ۔۔۔ اللّٰہ پاک ہم پر رحمت فرمائے ۔۔۔ لیکن یہ اس کی سنت مبارکہ نہیں ۔۔۔ کہ جب تک قوم کی اکثریت اپنا قبلہ درست نہ کر لے ۔۔۔!
یہی ایک طریقہ ہے اللّٰہ پاک کی ناراضگی ختم کرنے کا ۔۔۔
اللّٰہ سے رحمت کی امید بھی تب رکھیں کہ جب ہماری کل تعداد کا سو فیصد نہ سہی ۔۔۔ کم از کم "اکیاون فیصد" تو رسول اللّٰہ ﷺ کے راستے پر ہو ۔۔۔ ورنہ رحمت کا نہیں ۔۔۔ عذاب کا قانون ہی حرکت میں آئے گا ۔۔۔!
آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم میں سے ہر ایک یہ مان کر رسول اللّٰہ ﷺ کے راستے کو اپنائے کہ ہم میں سے پچاس اعشاریہ نو سو ننانوے فیصد لوگ اس راستے کو اپنا چکے ہیں ۔۔۔ اور صرف ایک میری وجہ سے اکیاون فیصد کی تعداد مکمل ہونے سے رہتی ہے ۔۔۔ جس کے بعد اللّٰہ پاک کی رحمت کا ظہور ہو جائے گا انشااللّٰہ ۔
اللّٰہ کے محبوب صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کے سوا اس کائنات میں کوئی ذات نہیں کہ جس کی ہر بات مقبول اور اختلاف ممکن نہ ہو ۔
زندگی میں "شاک" صرف اسٹوپڈ لوگوں کو لگتا ہے کہ جو دوسروں کو محبت میں"سو" جبکہ نفرت میں "صفر" سے ضرب دے بیٹھتے ہیں ۔
یہ جانتے ہوئے بھی کہ سو فیصد کامل ذات (مرشدِ کامل) صرف ایک ہے ۔
جبکہ جینئس لوگ محبت یا نفرت میں صرف اس حد تک جاتے ہیں کہ واپسی ممکن ہو اور پچھتانا یا منہ چھپانا نہ پڑے ۔۔۔

 

Wasiq Peerzadah
About the Author: Wasiq Peerzadah Read More Articles by Wasiq Peerzadah: 14 Articles with 10132 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.