یوم مزدور، مشقت کا معاوضہ اور غلیظ معاشرے کی منافقت

غربت ایسی ظالم شے ہے کہ یہ بچپن کی معصومیت، جوانی کی شوخی اور بڑھاپے کا آرام چھین لیتی ہے.

آج بھی دنیا کے ایک بہت بڑے حصے میں، محنت اور مشقت کا بڑے برے طریقے سے استحصال ہو رہا ہے. ہمارا ملک انہی ممالک میں سے ایک ہے. مزدور ہوں، کسان ہوں، کاریگر ہوں یا ملازم، انہیں ان کی محنت اور مشقت کا وہ صلہ نہیں مل رہا جس کے وہ حقدار ہیں. سرمایہ دار کے لیے اپنے سرمائے کو بڑھانے کے لیے، خریداروں کے لیے مختلف آفرز اور سیلز لانا، اُنہیں قرعہ اندازیوں کے ذریعے حج و عمرے پر بھیجنے سمیت کئی قیمتی انعامات سے نوازنا، سالانہ مذہبی اجتماعات کروانا، اپنے کاروبار کی تشہیر اور مارکیٹنگ میں اندھا دھند سرمایہ لگانا، آسان ہے لیکن اپنے کاریگروں، ملازموں یا مزدوروں کو ان کی محنت اور مشقت کے مطابق تنخواہ یا معاوضہ دینا، مشکل ہے.

اگر آپ اپنے اردگرد دیکھیں تو کتنے ایسے ادارے یا سرمایہ دار، کاروباری لوگ ہیں جو اپنے ملازموں، کاریگروں یا مزدوروں کو، حکومت کی طرف سے مقرر کردہ کم از کم، معاوضہ ادا، کر رہے ہیں؟اگر ایسے ادارے یا لوگ آٹے میں نمک کے برابر ہیں تو یہ ریاست کی ناکامی نہیں تو اور کیا ہے؟ معاوضے سے دُگنی، محنت اور مشقت لینا، غلامی کی ایک بدترین شکل ہے اور ناکام رہاست کا حوالہ ہے، ثبوت ہے.غلامی انسان کے شایانِ شان نہیں ہے.

یہ معاشرہ اس قدر غلیظ ہے کہ ایک پسا ہوا گروہ اگر اپنے حقوق کے لئے خود سڑکوں پر نکلے تو اس پر گولیاں برساتا ہے، اس فائرنگ کے نتیجے میں اگر اس گروہ میں سے چند ایک موت کے گھاٹ اتر جائیں اور معاملہ عدالت میں چلا جائے تو نہ صرف اس گروہ کو اپنا مؤقف عدالت میں رکھنے سے روکا جاتا ہے بلکہ اسی گروہ کے چند قائدین کو یا متحرک لوگوں کو ہی سزائے موت بھی دے دی جاتی ہے. اور پھر یہ منافق معاشرہ ہر سال، اسی دن چھٹی کر کے گھر بیٹھ کر اظہار یکجہتی کرتا ہے اور وہی پسا ہوا طبقہ، اپنے عالمی دن سے بےخبر ہو کے، شام کی روٹی کے لیے چلچلاتی دھوپ میں اور ٹھٹھرتی سردی میں مزدوری کرنے نکل پڑتا ہے. وہ اگر سارا دن چلچلاتی دھوپ میں مزدوری کرتا ہے یا مزدوری کا انتظار کرتا ہے تو، وہ آج بھی کرے گا. وہ اگر صبح سے شام شدید گرمی میں کوئلے کی کان میں جہاں سانس لینا بھی مشکل ہے، گھستا ہے، تو وہ آج بھی کسی کان میں گھسے گا، وہ اگر کسی کے گٹر میں اتر کر، جہاں سانس لینا بھی موت ہے، اپنا رزق کماتا ہے، تو وہ آج بھی کسی گٹر میں اترے گا.

عالمی دن تو معمولی دن ہے، میں نے تو عید کے دن بھی شہر کے چوک میں مزدور کو، مزدوری کے انتظار میں بیٹھا دیکھا ہے. لوگ عید کے دن کئی اداروں میں ملازمتیں کرنے والے اُن لوگوں سے اظہارِ ہمدردی کرتے ہیں جو ڈیوٹی کی وجہ سے گھر نہیں جا پاتے. بات یہ ہے کہ انہیں اتنا اطمینان تو ہوتا ہے کہ عید سے پہلے ملنے والی تنخواہ سے عید کے خرچ کے طور پر پیسے اپنے ماں باپ یا بیوی بچوں کی طرف گھر بھیج دیے ہیں اور مہینے کے آخر میں پھر تنخواہ مل جائے گی. مزدور تو عید کے دن بھی آنکھوں میں خوف، انتظار، اندیشہ اور امید ہی لیے شہر کے چوک میں چلچلاتی دھوپ میں بیٹھا ادھر ادھر دیکھتا رہتا ہے.

آپ جانتے ہیں، ایک مزدور کے لیے سب سے بڑا خوشی کا دن کون سا ہوتا ہے؟ جس دن مزدور شام کو اپنے بچوں کے لیے کچھ کھانے کو، لے کر جاتا ہے، وہی عید کا دن ہوتا ہے، وہی عالمی دن ہوتا ہے. آپ سوچیں جس دن وہ خالی ہاتھ ہوتا ہے، اُس کے لیے گھر کی طرف بڑھتا ہوا اُس کا ہر قدم کتنا مشکل اور بھاری ہوتا ہو گا؟ جب وہ خالی ہاتھ اپنے کچے پرانے گھر کے بوسیدہ دروازے پر پہنچ کر دستک دیتا ہو گا تو سارا دن امید کے آسرے انتظار میں بیٹھے بچے جب دستک سن کر دروازے کی طرف بھاگتے ہوں گے لیکن باپ کو خالی دیکھ کر کیسے مرجھا جاتے ہوں گے؟ آج کے دن، مزدور اور محنت کش باپ اور بھوک سے بلکتے معصوم بچوں کی رات کا تصور کریں جب وہ فاقہ اوڑھ کر اپنی ٹوٹی پھوٹی چارپائیوں پر لیٹے ہوئے چھت کو گھورتے ہوں گے. کیا سوچتے ہوں گے؟ کیسے کیسے خیالات آتے ہوں گے؟

ایک محنت کش اور مزدور اپنے گھر والوں کے ساتھ، ایک وقت کا کھانا کھانے کے بعد سوچتا ہے کہ نہ جانے، دوبارہ کھانا میسر آنے تک، فاقہ کتنا طویل ہو گا؟ اُس کے لیے سخت سے سخت محنت اور مشقت طلب کام مشکل نہیں ہے، اس کے لیے چلچلاتی دھوپ مسئلہ نہیں ہے، ٹھٹھرتی سردی میں کام کرنا بھی مشکل نہیں ہے، اپنے مالک کی توہین آمیز ڈانٹ اور حتی کہ سزا اور تشدد بھی اُس کے لیے مسئلہ نہیں ہے.

اُس کے لیے، سارا دن شہر کے چوک میں کام ملنے کا انتظار کرنا مشکل ہے. سورج ڈوب جانے کے بعد،اُسے تو خالی ہاتھ، فاقہ گھر لے جا کر بیوی بچوں کا سامنا کرنا، توڑ کے رکھ دیتا ہے لیکن اگلی صبح وہ پھر اپنے بکھرے ہوئے کو سمیٹتا ہے، خود کو دوبارہ جوڑتا ہے، اپنے ماں باپ کے لیے، اپنے بیوی بچوں کے لیے، اپنے بچوں کے سر پر ہاتھ رکھتا ہے، سوالیہ نظروں سے دیکھتی ہوئی بیوی کو امید اور حوصلے کا اشارہ کرتا ہے، اپنے اوزار لیتا ہے اور گھر سے نکل کر شہر کے کسی چوراہے میں پہنچ جاتا ہے.

بیٹھ جاتے ہیں مزدور، اپنی غربت لے کر
انتظار، چوراہوں کو چوپال بنا دیتا ہے

غریبی سکھائے ہن چا گُر زندگی دے

زمام کار اگر مزدور کے ہاتھوں میں ہو پھر کیا

طریق کوہکن میں بھی وہی حیلے ہیں پرویزی
اقبال

زردار توقع رکھتا ہے نادار کی گاڑھی محبت پر

مزدور یہاں بھی دیوانے، ذیشان یہاں بھی اندھے ہیں
ساغر صدیقی

اٹھو مری دنیا کے غریبوں کو جگا دو

کاخ امرا کے در و دیوار ہلا دو

گرماؤ غلاموں کا لہو سوز یقیں سے

کنجشک فرومایہ کو شاہیں سے لڑا دو

سلطانی جمہور کا آتا ہے زمانہ

جو نقش کہن تم کو نظر آئے مٹا دو

جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی

اس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دو
اقبال

مکر کی چالوں سے بازی لے گیا سرمایہ دار

انتہائے سادگی سے کھا گیا مزدور مات
 

Malik Zeeshan Abbas
About the Author: Malik Zeeshan Abbas Read More Articles by Malik Zeeshan Abbas: 5 Articles with 1969 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.