ڈیجیٹل چین ، ایک نئی صدی کی جانب سفر

حقائق کے تناظر میں چین نے ڈیجیٹلائزیشن کے وژن کے تحت دنیا کی دوسری سب سے بڑی ڈیجیٹل معیشت تعمیر کی ہے اور مصنوعی ذہانت، بلاک چین، اور اسمارٹ مینوفیکچرنگ جیسے شعبوں میں عالمی قیادت کے مقام تک پہنچ چکا ہے۔ تیزی سے پھیلتے ہوئی ڈیجیٹل بنیادی ڈھانچے اور فروغ پزیر ڈیٹا ماحولیات کی بدولت، چین کی ڈیجیٹل معیشت ترقی کا ایک طاقتور انجن بن چکی ہے۔اس حوالے سے ابھی حال ہی میں منعقدہ 08ویں ڈیجیٹل چائنا سمٹ میں جاری کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق، 2024 میں چین کا کل ڈیٹا آؤٹ پٹ 25 فیصد بڑھ کر 41.06 زیٹا بائٹس تک پہنچ گیا، جو کہ 13 لاکھ سے زائد ہائی ڈیفینیشن فلموں کے برابر ہے۔

ڈیجیٹل صنعتوں کا حصہ اب چین کے جی ڈی پی کا تقریباً 10 فیصد ہے، جبکہ ملک کی کمپیوٹنگ پاور 280 ایف فلوپس تک پہنچ چکی ہے۔ چین میں 4.25 ملین سے زائد فائیو جی بیس اسٹیشنز موجود ہیں، جو عالمی تعداد کا 60 فیصد ہیں۔

لیکن یہ ڈیجیٹل انقلاب صرف فیکٹریوں اور فائبر آپٹکس تک محدود نہیں۔ یہ روایتی مینوفیکچرنگ شعبوں کو بھی بدل رہا ہے۔ چین میں تیس ہزار سے زائد اسمارٹ فیکٹریز موجود ہیں، جہاں جدید سہولیات نے پیداواری کارکردگی میں 22 فیصد سے زیادہ اضافہ کیا ہے۔ چین کی "لائٹ ہاؤس فیکٹریز" اب دنیا کی کل تعداد کا 40 فیصد ہیں۔

اسی طرح یہ ڈیجیٹل تبدیلی صرف شہری ٹیک ہبز تک محدود نہیں، بلکہ کھیتوں اور فارموں تک پہنچ چکی ہے۔ چین کی معروف زرعی کمپنیوں نے بدلتے وقت کے تقاضوں کی روشنی میں ڈیجیٹل تبدیلی کو اپنایا ہے۔ اس ضمن میں کمپنیوں نے اپنے عملے بالخصوص مینیجرز کے لیے ڈیجیٹل ٹریننگ پروگرام بھی ترتیب دیے ہیں ، جس سے یہ حقیقی احساس بیدار ہوا کہ روایتی صنعتوں کو بھی ڈیجیٹل ہونا چاہیے۔

اس سوچ نے ایسے جدید ڈیجیٹل رویوں کو پروان چڑھایا ہے، جو ڈیری، جانوروں کی فارمنگ، کولڈ چین لاجسٹکس اور پروسیسنگ میں جدید کاری لا رہے ہیں ، مثلاً ایک اہم ایجاد ڈیجیٹل فیڈ فارمولہ سسٹم ہے، جس نے جانوروں کی فیڈ کو مزید متناسب اور بہتر انتظام کو یقینی بنانے میں نمایاں مدد فراہم کی ہے۔ نئے ڈیجیٹل سلوشنز کے ذریعے اناج کی بچت میں بھی نمایاں مدد مل رہی ہے ۔ کمپنیوں کا بگ ڈیٹا بریڈنگ سسٹم بھی ایک اہم کامیابی ہے، جس نے کم خوراک استعمال کرنے والے، تیزی سے بڑھنے والے جانوروں کی نسلیں تیار کی ہیں۔

کہا جا سکتا ہے کہ اس وقت روایتی ادارے چین کی زرعی ڈیجیٹلائزیشن میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں، صنعت کے ماہرین اس رائے سے متفق ہیں کہ اس نئی لہر میں مستقبل مصنوعی ذہانت کو اپنانے اور ترقی میں مضمر ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ چین کے پاس صنعتی ایپلی کیشنز، وسیع ڈیٹا وسائل اور مضبوط تحقیق و ترقی کی صلاحیتیں موجود ہیں، جو مصنوعی ذہانت کی ترقی کے لیے سازگار ہیں۔ صرف 2024 میں، چین نے جنریٹو مصنوعی ذہانت سے متعلق عالمی پیٹنٹس کا 60 فیصد حصہ حاصل کیا۔

چین کے 14ویں پنج سالہ منصوبہ اور 2035 کے وژن میں اے آئی انڈسٹری کا فروغ شامل کیا گیا ہے، تاکہ اس شعبے کو مفید، محفوظ اور منصفانہ سمت میں آگے بڑھایا جا سکے۔ انٹرنیشنل ڈیٹا کارپوریشن کے مطابق، چین کی اے آئی مارکیٹ آنے والے سالوں میں نمایاں ترقی دیکھے گی۔

چینی حکام کو بھی اس حققیت کا بخوبی ادراک ہے کہ ڈیجیٹل چین کی ترقی کو تیز کرنے کے لیے مصنوعی ذہانت کے مواقع کو غنیمت جاننا ضروری ہے۔یہی وجہ ہے کہ چینی پالیسی سازوں نے ڈیٹا مارکیٹ پر مبنی اصلاحات اور اے آئی پلس اقدامات کو آگے بڑھانے کا عزم ظاہر کیا ہے۔

وسیع تناظر میں ڈیجیٹل چین کا سفر صرف ٹیکنالوجی کی ترقی نہیں، بلکہ معاشرے، ثقافت اور معیشت کے ہر شعبے میں ایک انقلاب ہے۔ یہ تبدیلی نہ صرف چین کو ایک نئی صدی کی طرف لے جا رہی ہے، بلکہ پوری دنیا کے لیے ایک مثال قائم کر رہی ہے۔
 

Shahid Afraz Khan
About the Author: Shahid Afraz Khan Read More Articles by Shahid Afraz Khan: 1480 Articles with 773845 views Working as a Broadcast Journalist with China Media Group , Beijing .. View More