مرید! حضور آج مزدور کا عالمی دن ہے ۔
مرشد! ہاں مزدور کے حق کو کھانے والے مزدور کا عالمی دن منا رہے ہیں ۔مزدور
کے خواب مارے جاتے ہیں.
مرید! حضور مزدور کے خواب....!
مرشد!ہاں پتر کبھی غور ہی نہیں کیا ہم نے ورنہ
گرمیوں کی دوپہر میں کئی داستانیں سر اٹھائے سامنے کھڑی ہوں گئیں۔ گرمیوں
کی دھوپ میں کس طرح ایک مزدور کام کرتا ہے ،کئی خوابوں کو تعبیر کرنے کی
جستجو کرتا ہے ،اپنے اردگرد دیکھیں کہ
سورج آسمان پر آگ برسا رہا ہوتا ہے اور شہر کے ایک کونے میں ایک نحیف و
نزار سا مزدور، خستہ کپڑوں میں اینٹیں ڈھونے میں مصروف ہوتا ہے۔ اُس کے
ہاتھ چھالوں سے بھرے ہوئے ہوتے ہیں، مگر آنکھوں میں عجیب سی چمک رکھتا ہے۔
پاس سے گزرتے ایک نوجوان نے حیرت سے پوچھا، "بابا، اتنی مشقت کے بعد بھی
مسکرا کیوں رہے ہو؟"
مزدور نے پسینہ پونچھتے ہوئے کہا، "بیٹا! آج مزدوری ملی ہے، کل عید ہے اور
میں اپنے بچوں کے لیے نئے کپڑے اور مٹھائی لے کر جاؤں گا۔"
نوجوان تھوڑی دیر خاموش رہا، پھر آہستہ سے بولا، "بابا، آپ کی یہ مسکراہٹ
ہی اصل دولت ہے۔"
مزدور ہنس پڑا، "ہم مزدور لوگ خوابوں کی مزدوری کرتے ہیں، اور جب خواب سچ
ہونے لگیں تو تھکن محسوس نہیں ہوتی۔"
شاید یہی مزدور کی عظمت ہے—جس کے کندھے بوجھ اٹھاتے ہیں، مگر دل امید سے
لبریز ہوتا ہے۔
مرید! اللّٰہ اکبر
|