فلسطینیوں کاقرآن سے قابل رشک تعلق
(Dr Zahoor Ahmed Danish, karachi)
فلسطینیوں کاقرآن سے قابل رشک تعلق تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (دوٹھلہ نکیال آزادکشمیر) میں ریسرچ سے تعلق رکھتاہوں ۔میراپروفیشن بھی اور میرا شوق بھی ریسرچ ہے ۔چنانچہ اس کے لیے میں عالمی تناظر چیزوں کا جائزہ بھی لیتاہوں ۔میں نے فلسطین کے سوشل میڈیاپر فوٹوز اور ویڈیوز دیکھی تو میں نے شدت سے محسوس کیا کہ اس ستم اس بربریت اور بے بسی جو جہاں ہے وہ اپنے جملوں کی ہرکڑی کو اپنے کریم رب سے جُوڑ رہاہے اور قرآن مجید اس خوبصورت اور عشق بھرے انداز میں پڑھ رہاہے کہ سُن کر بے چین روح کو چین مل جائے کہ افسوس صد افسوس ظہورادانش وقت بھی ہے آزادی بھی ہے پرسکون ماحول بھی ہے لیکن قرآن سے صرف رسمی ساتعلق رہ گیا۔خیر بات طویل ہوجائے گی ۔میں آپ کو فلسطینیوں کا قران سے تعلق و رشتہ بتاتاہوں آپ بھی پڑھیے اور ذرا اس عشق و جنون کو محسوس کیجئے ۔ فلسطینیوں کے لیے قرآن صرف ایک کتاب نہیں،یہ ان کی امید ہے، ان کا ہتھیار ہے، ان کی پناہ ہے۔جب فلسطینی ماں اپنے بچے کو گود میں لے کرسورۃ یٰسین کی تلاوت کرتی ہے،تو وہ صرف برکت نہیں مانگتی،وہ اس بچے کے دل میں ثبات اور صبر بو رہی ہوتی ہے۔ فلسطینیوں کا عشق قرآن : فلسطینیوں کے گھروں کی دیواروں پر گولیوں کے نشان ہوتے ہیں،مگر اندر قرآن کی آیات لکھی جاتی ہیں۔فلسطینی نوجوان جب شہید ہوتا ہے،تو اس کی جیب سے کبھی قرآن کی چھوٹی کاپی نکلتی ہے،کبھی سورۃ الفتح کی آیات کا کاغذ۔فلسطینی قیدی جب جیل میں ہوتا ہے،تو دیواروں پر کیلوں سے سورۃ الفاتحہ لکھتا ہےتاکہ وہ اور اس کے ساتھی رات کی تنہائی میں قرآن یاد کر سکیں۔ قرآن نے انہیں سکھایا:وَلَا تَهِنُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَنتُمُ الْأَعْلَوْنَ غم نہ کرو، کمزور نہ بنو، تم ہی غالب رہو گے اگر تم مؤمن ہو۔)سورۃ آل عمران: 139( یہ آیت فلسطینیوں کا روز کا سہارا ہے،جب وہ ملبے سے اپنے بچوں کو نکالتے ہیں،جب وہ شہداء کے جنازے اٹھاتے ہیں۔ فلسطینی جیسی بھی قابل رحم حالت سے گزررہے ہیں لیکن وہ اعصاب کے بہت مضبوط ہیں ان کا اپنے کریم رب سے بہت گہراتعلق ہے ۔بلکہ یوں کہہ لیں کہ وہ اپنے پیارے اللہ پاک سے گڑگڑاکرعرض کرتے ہیں ۔ رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا: اے ہمارے رب! ہم پر صبر انڈیل دے اور ہمارے قدم جما دے۔(سورۃ البقرہ: 250) یہ دعا صرف زبانی نہیں،یہ ان کی نس نس میں رچی ہوئی ہے۔ان کے کردار سے بھی ظاہر ہوتی ہے ۔ فلسطینوں کی روحانی طاقت : وہ جانتے ہیں کہ بندوقیں ختم ہو سکتی ہیں،پتھر چھن سکتے ہیں،خوراک روکی جا سکتی ہے،مگر قرآن وہ طاقت ہے جو نہ جلا سکتے ہیں، نہ روک سکتے ہیں۔ قابل رشک منظر: قارئین :تصور کریں ایک فلسطینی بچہ جو ملبے پر بیٹھا ہے،شاید اس کا اسکول گر چکا ہے،اس کے ہاتھ میں ایک شہید قرآن کے اوراق ہیں اور وہ سر جھکا کر تلاوت کر رہا ہے…دنیا کی کوئی طاقت اس کے ایمان کو شکست نہیں دے سکتی۔یہ منظر اس کا لاریب کتاب سے تعلق اور محبت کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ فلسطینوں کے گھروں میں قرآن کی رونقیں : فلسطینیوں کے لیے قرآن تلاوت کی خوبصورتی سے بڑھ کر ہے —یہ ایک عادت نہیں، ایک عہد ہے۔وہ اپنے گھروں میں اذیت کے سائے میں بھی سورۃ یٰسین کی محفل سجاتے ہیں۔ان کی مائیں سجدوں میں سورۃ البقرہ پڑھتی ہیں تاکہ اُن کے بچے محفوظ رہیں۔ان کے نوجوان سورۃ الفتح اور سورۃ الصف کے ساتھ عزم بڑھاتے ہیں کہ یہ جنگ صرف زمین کی نہیں، ایمان کی ہے۔ روحانی ہتھیار: دشمن ان کے گھروں کو مٹا سکتا ہے،مگر ان کے دلوں سے سورۃ الاخلاص نہیں مٹا سکتا۔وہ ان کی بستیوں کو جلا سکتا ہے، مگر ان کے سینوں میں محفوظ قرآن کو نہیں جلا سکتا۔وہ ان کی زبانیں روک سکتا ہے،مگر جب وہ قیدی بنتے ہیں،تب بھی ان کی دعائیں سورۃ الفاتحہ میں لپٹی ہوئی اللہ کے عرش تک پہنچتی ہیں۔"فلسطین کا بچہ جب کہتا ہے الحمدللہ،تو وہ ایک عام جملہ نہیں،وہ ایک اعلانِ وفا ہوتا ہے، ایک اعلانِ امید ہوتا ہے!" فلسطینی مسلم امہ کے لیے قابل تقلید: قرآن کو اپنی الماریوں سے نکالو،اور اسے فلسطینیوں کی طرح دل میں رکھو۔قرآن کی تلاوت کرو،مگر فلسطینیوں کی طرح اس پر عمل کرنے کا حوصلہ بھی پیدا کرو۔قرآن سے محبت صرف الفاظ کی نہیں،جذبے اور عمل کی محبت بناؤ۔"فلسطینیوں نے ہمیں سکھایا کہ قرآن کاغذ پر محفوظ نہیں ہوتا،قرآن دلوں میں زندہ ہوتا ہے! قارئین : ایک ایسی سرزمین جو بمباری کی گھن گرج میں بھی قرآن کی آیات کی صدائیں سناتی ہے،جہاں ویران گلیوں میں بھی بچوں کی زبانوں پر سورۃ الرحمن کے موتی جھڑتے ہیں،اور جہاں قرآن حفظ کرنا صرف ایک دینی فریضہ نہیں،بلکہ اپنی شناخت، اپنی غیرت اور اپنے رب سے عہد کی تجدید ہے۔ قرآن کا حافظ بننا دینی فخر فلسطینی والدین کے لیے یہ فخر کی بات ہوتی ہے کہ ان کا بچہ قرآن کا حافظ بنے۔یہاں حفظِ قرآن صرف روحانی ترقی نہیں،"وہ ہمیں قید کر سکتے ہیں، ہمارے گھروں کو گرا سکتے ہیں،مگر ہمارے بچوں کے سینوں سے قرآن نہیں نکال سکتے!"فلسطین میں لوگ کہتے ہیں:"قرآن کا حافظ وہی بچہ ہے،جس کے خون میں شہداء کی خوشبو بسی ہے۔"اس لیے وہاں حفظِ قرآن کا عمل صرف عبادت نہیں،بلکہ اپنی شہیدوں کی قربانیوں سے جڑنے کا ایک جذبہ ہے۔ قارئین : کیا آپ تصور کر سکتے ہیں؟جب اسکول بمباری میں تباہ ہو چکا ہوتا ہے،جب بجلی نہیں ہوتی،جب بچے میزوں اور کرسیوں کے بجائے زمین پر بیٹھ کر مشق کرتے ہیں…پھر بھی حفظ کا عمل رکتا نہیں!کیونکہ وہاں یہ یقین زندہ ہے:"جو بچہ قرآن یاد کر لے،اسے کوئی دشمن غلام نہیں بنا سکتا۔" فلسطینی ماں اپنے بچے کے سر پر ہاتھ رکھ کر دعا کرتی ہے:"اے اللہ! اگر میرے بچے کی قسمت میں شہادت لکھی ہے،تو اسے حافظِ قرآن بنا کر اپنے حضور بلا لینا۔یہ محبت صرف دنیاوی کامیابی کی نہیں، یہ محبت ہے جنت کی ضمانت سے جڑنے کی۔فلسطینی بچے جب قرآن حفظ کرتے ہیں،تو وہ صرف آیات یاد نہیں کرتے، وہ ہر آیت کو اپنے خون میں لکھتے ہیں۔فلسطینی گھروں میں روشنی نہ بھی ہو،قرآن کی روشنی سے گھر جگمگاتا رہتا ہے۔ فلسطینی قوم کے لیے حافظِ قرآن ہونا،اس بات کا اعلان ہے کہ"ہماری نسلیں ختم ہو سکتی ہیں،مگر اللہ کا کلام ہمارے دلوں میں زندہ رہے گا!" فلسطینی معاشرے میں قرآن حفظ کی سوچ لوگ اپنے بچوں کو قرآن کے ساتھ اس لیے جوڑتے ہیں۔کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ بچہ جب حافظ بنے گا،وہ صرف ایک طالب علم نہیں،وہ ایک چلتا پھرتا قلعہ بن جائے گا،جسے دشمن کی گولیاں تو چھید سکتی ہیں،مگر اس کی روح کو شکست نہیں دے سکتیں۔حفظِ قرآن وہاں صرف ثواب کا راستہ نہیں،وہ حریت کا راستہ ہے۔ پیارے قارئین : میں تو اللہ پاک سے دعاکرتاہوں ۔اے پیارے اللہ !!اے فسطینیوں کے رب !ہم غافلوں کے رب !فلسطینیوں کی طرح ہمیں بھی قرآن کی محبت عطا فرما،ہمارے گھروں میں حفظِ قرآن کی آوازیں گونجتی رہیں،اور ہمارے بچے بھی قرآن کے سچے محافظ بن سکیں۔آمین ۔ آپ کو میری یہ قلم دوست کوشش اچھی لگے تو میری مغفرت کی دعاضرور کردیجئے گا۔
|