کسی کو جانے بنا اس کے بارے میں جج کرنا مناسب نہیں

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں کو میرا آداب
آج کے آرٹیکل کے موضوع کو پڑھ کر یقینی طور پر آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ کیسا موضوع ہے ؟ لیکن یہ صرف موضوع نہیں بلکہ ہمارے آج کے معاشرے میں ہونے والی کئی خرابیوں اور کئی غلط فہمیوں کی وجہ بھی ہے کیونکہ ہمارے یہاں اکثر و بیشتر ایسی صورتحال کا سامنا ہمیں کرنا پڑتا ہے جب لوگ بات کیا کررہے ہوتے ہیں اور ہم ان کے بارے میں کیا سوچ لیتے ہیں کئی لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جنہیں دیکھ کر بغیر ان کے بارے میں کچھ جانے ان کے بارے میں عجیب و غریب مفروضے قائم کرنا شروع کردیتے ہیں یا ہمیں کسی حالت میں کسی مجبوری میں دیکھ کر لوگ ہمارے بارے میں کوئی نہ کوئی رائے قائم کرلیتے ہیں یہ سب کسی طرح سے مناسب نہیں بلکہ انتہائی نامناسب ہے ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں لیکن دیکھا یہ ہی گیا ہے کہ ایسی سوچ رکھنے اور پیدا کرنے والے خود ہی شرمندہ ہوتے ہیں جب انہیں حقیقت کا علم ہوتا جیسے ایک صاحب جن کا نام ارشد تھا اپنے بیٹے کے ساتھ ٹرین کے سفر میں تھے ان کے سامنے ایک شادی شدہ جوڑا بیٹھا تھا جب ٹرین اپنی مخصوص رفتار کے ساتھ رواں دواں تھی تو ارشد صاحب کا بیٹا کھڑا ہوکر کھڑکی کی طرف دیکھنے لگا اور زور زور سے چلانے لگا کہ پاپا دیکھو سارے درخت اور ساری چیزیں ہماری گاڑی سے پیچھے کی طرف جارہی ہیں تو اس کے پاپا نے مسکراتے ہوئے کہا کہ بیٹا ہاں ایسا ہی ہے اس بچے کی اس حرکت پر وہ شادی شدہ جوڑا ہنسنے لگا ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں تھوڑی دیر ہوئی تو وہ بچہ پھر کھڑا ہوا اور چلانے لگا کہ پاپا دیکھو اوپر سارے بادل ہمارے ساتھ ساتھ چل رہے ہیں تو راشد صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا ہاں بیٹا ایسا ہی ہے تو اس شادی شدہ جوڑے نے مذاق اڑانے کے انداز میں کہا کہ جناب آپ اس بچے کو کسی اچھے ڈاکٹر کے پاس کیوں نہیں لیکر جاتے تو ارشد صاحب نے بڑے اطمینان کے ساتھ جواب دیا کہ میں اپنے بیٹے کو ابھی ہسپتال سے ڈسچارج کرواکر ہی لارہا ہوں کیوں کہ میرا بیٹا پیدائشی طور پر نابینا تھا اور اب ایک آپریشن کے بعد اس کے آنکھوں کی روشنی واپس آگئی ہے اور ابھی یہ سب کچھ زندگی میں پہلی بار دیکھ رہا ہے یہ سن کر وہ دونوں شرمندہ ہوگئے اور دل میں سوچنے لگے کہ ہم تو اس بچے کو پاگل سمجھ رہے تھے یعنی کچھ جانے بنا صرف اس کی حرکات کو دیکھ کر یہ جج کرلیا کہ یہ پاگل ہے جبکہ ایسا نہیں تھا اسی وجہ سے کہتے ہیں کہ کسی کے بارے میں بنا جانے اس کو جج نہیں کرنا چاہیے ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ہم سوچے سمجھے بغیر کسی کے بھی بارے میں کوئی رائے قائم کرلیتے ہیں جو کہ ایک غیر اخلاقی بات ہے لیکن یہ ہماری زندگی کا ایک معمول بن چکا ہے ہم کسی کو اس کے کپڑوں سے تو کسی کو اس کے رہن سہن سے تو کسی کو اس کی باتوں سے جج کرنا شروع کردیتے ہیں جب پہلی بار کسی سے ملنا ہوا تو ہم ابھی صرف سلام کرکے مصافہ کرتے ہیں اور دل ہی دل میں اس کے بارے میں بہت کچھ سوچنے لگ جاتے ہیں اور وہیں فیصلہ کرنے لگتے ہیں کہ یہ شخص کیسا لگتا ہے اور اس کی سوچ تو ایسی ہوگی وغیرہ وغیرہ تو آپ خود ہی بتائیں کیا یہ رویہ صحیح ہے ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں میں نے اپنی زندگی میں کئی لوگ ایسے بھی دیکھے ہیں جو انپڑھ اور جاہل ہوتے ہیں لیکن ان کی صحبت اچھے اور پڑھے لکھے لوگوں کے ساتھ ہوتی ہے جس کی وجہ سے ان سے بات چیت کرتے ہوئے محسوس تک نہ ہوگا کہ یہ شخص کوئی انپڑھ شخص ہے اور اسی طرح کچھ ایسے پڑھے لکھے لوگوں سے بھی واسطہ پڑا ہے جو بظاہر بہت پڑھے لکھے اور اعلی تعلیم یافتہ ہوتے ہیں لیکن ادب اور اخلاق ان کے قریب سے بھی نہیں گزری ہوئی ہوتی مگر ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم کسی بھی انپڑھ انسان کو دیکھ کر اس کے بارے اپنی رائے قائم کرنے میں دیر نہیں لگاتے اور کسی اعلی تعلیم یافتہ انسان کو دیکھ کر اس کے بارے میں بھی عجیب و غریب رائے قائم کرلیتے ہیں ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جیسے میں ایک جگہ سے گزر رہا تھا تو میں نے دیکھا کہ کافی لوگ جمع ہیں اور چیخنے چلانے کی آواز آرہی ہے میں نے قریب جاکر دیکھا تو معلوم ہوا کہ ایک گاڑی والے کی ایک موٹر سائیکل والے سے ٹکر ہوگئی اور موٹر سائیکل سلپ ہوگئی گاڑی چلانے والا ایک نوجوان تھا جبکہ موٹر سائیکل چلانے والا ایک بزرگ نوجوان کا کہنا تھا کہ غلطی بڑے صاحب کی ہے جبکہ اس بوڑھے شخص کا کہنا تھا کہ غلطی نوجوان کی ہے اب لوگ بغیر تحقیق کئے نوجوان کو بگڑے ہوئے باپ کی بگڑی ہوئی اولاد سمجھ کر پکڑلیتے ہیں اب بتائیں کہ کیا ایک بزرگ شخصیت ہونے کی وجہ سے ان سے غلطی نہیں ہوسکتی؟ کیا نوجوان کا نوجوان ہونا ہی غلطی تھا ؟ اس کو کہتے ہیں ججمنٹل یعنی بغیر تحقیق کے کسی کو مجرم کا اور کسی کو مظلوم کا سرٹیفیکیٹ جاری کر دینا ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں کولمبیا کے ایک ڈاکٹر مسٹر مارکم کا کہنا ہے کہ اس قسم کے لوگ جو ججمنٹل کا شکار ہوتے ہیں حقیقت جانے بنا منفی قیاس آرائی کرتے ہیں دنیا کو اپنے ذاتی تعصب کی نظر سے دیکھتے ہیں ہمدردی کا دکھاوا کرتے ہیں لیکن کسی کو اچھا نہیں سمجھتے ہر شخص انہیں اپنے خلاف دکھائی دیتا ہے یعنی حریف نظر آتا ہے اور وہ طبیعت کے اعتبار سے ناخوش رہتے ہیں یعنی اگر کہیں کچھ لوگ آپس میں باتیں کرتے ہوئے نظر آئیں گے تو یہ سوچ لیتے ہیں کہ وہ لوگ اس کے بارے میں بات کررہے ہیں یہ اس کی اپنی سوچ ہوتی ہے ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اگر ہم اس معاملے کو مذہبی اعتبار سے دیکھیں تو یہ بدگمانی کہلائے گی جس کی شریعت میں بڑی سختی کے ساتھ ممانعت کی گئی ہے کسی کی بارے میں اپنے ذہن میں غلط سوچ پیدا کرنے کو بدگمانی کہتے ہیں اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید سورہ الحجرات کی آیت 12 کے ایک حصہ میں ارشاد فرمایا کہ "اے ایمان والوں بہت گمان سے بچو بیشک کوئی گمان گناہ ہوجاتا ہے مطلب یہ کہ کوئی انسان کسی کے بارے میں سوچے سمجھے بغیر بدگمانی کرے تو یہ اس کے لئے گناہ کا سبب ہوگا صحیح البخاری اور صحیح مسلم کے مطابق حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ " زیادہ بدگمانی سے بچو کہ بدگمانی میں کی جانے والی بات سب سے جھوٹی ہوتی ہے "

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں آپ لوگوں نے احساس کمتری کی بیماری کے بارے میں تو سنا ہی ہوگا لیکن یہاں مسئلہ احساس بڑھتری کا ہے کیونکہ یہ کیفیات احساس بڑھتری والوں کے ساتھ ہوتی ہیں احساس بڑھتری یعنی دوسروں کو اپنے سے کمتر سمجھنا اپنے سے حقیر سمجھنا جن لوگوں کو یہ مسئلہ درپیش ہوتا ہے وہ لوگ ہی دوسروں کے بارے میں جانے بغیر اپنی رائے قائم کرلیتے ہیں جیسے دو نوجوان ایک ہی کالج میں پڑھتے تھے ایک کا نام دانش تھا جو ایک غریب انسان کا بیٹا تھا اس کا باپ ایک مزدور تھا لیکن دانش پڑھائی میں اچھا تھا جبکہ دوسرے کا نام مبشر تھا جو ایک بڑے بزنس مین کا بیٹا تھا اور پڑھائی اس کے لئے صرف ایک ضد سے زیادہ نہ تھی ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں مبشر ہمیشہ دانش سے کہتا کہ تم ایک غریب لڑکے ہو اس لئے تمہارا مستقبل وہ ہی ہے جو تمہارے بڑوں کا رہا ہے تم کبھی بھی کسی بڑے عہدے پر نہیں پہنچ سکتے جبکہ دانش خاموشی کے ساتھ مسکراتے ہوئے وہاں سے چلا جاتا وقت گزرتا گیا اور کالج کی پڑھائی مکمل ہونے کے بعد دونوں کی راہیں الگ الگ ہوگئیں اور دونوں اپنے اپنے راستوں پر رواں دواں ہوگئے کبھی نہ رکنے والا وقت اپنی مخصوص رفتار سے گزر رہا تھا اور یوں کم و بیش دس سال کا عرصہ بیت گیا پھر ایک دن یوں ہی مبشر اپنی خوبصورت بیوی کے ساتھ شاپنگ کرکے باہر کی طرف آرہا تھا جبکہ دو عدد گارڈز بھی موجود تھے اور جب وہ باہر پارکنگ میں کھڑی اپنی گاڑی کی طرف جا ہی رہا تھا کہ اچانک اس کی نظر سامنے کھڑے ایک نوجوان پر پڑی جو کوئی اور نہیں بلکہ اس کے ساتھ کالج میں پڑھنے والا دانش تھا جو انتہائی سادہ کپڑوں اور جوتوں کے ساتھ کھڑا تھا تب مبشر نے اسے اشارا کیا اور یوں دانش اس کے قریب آیا اور وہ مبشر کو دیکھ کر بہت خوش ہوا لیکن جب مبشر نے اس کا سادہ سا لباس دیکھا تو طنزیہ لہجے میں اپنی بیوی سے تعارف کرواتے ہوئے کہا کہ یہ میرے ساتھ کالج میں پڑھتا تھا ایک غریب آدمی کا بیٹا اور میری طرح کے مستقبل کا خواب دیکھ رہا تھا پھر اس نے دانش سے کہا کہ دیکھو میں ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں اپنے والد کے بلبوتے پر شاندار پیکج ہر کام کررہا ہوں اور مجھے معلوم تھا کہ تم اپنی غربت کی وجہ سے کبھی آگے نہیں بڑھ پائو گے وہ مسلسل دانش کی بیعزتی کرتا رہا اور دانش کی ایک بھی بات نہ سنی پھر اچانک ایک ملٹری کی گاڑی وہاں آکر رکی اور دو فوجی اس میں سے اتر کر دانش کے قریب آئے پہلے سیلیوٹ کیا اور کہا کہ سر ٹریفک زیادہ تھا اس لئے دیر ہوگئی تو دانش نے کہا کوئی بات نہیں چلو پھر وہ گاڑی میں بیٹھا اور وہاں سے روانہ ہوگیا جبکہ مبشر کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئی اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ یہ سب کیا تھا پھر وہاں پر کھڑے پولیس والے سے پوچھا یہ کون تھا ؟ تو اس نے بتایا کہ یہ سرکاری ادارے میں ایک بہت بڑے عہدے پر فائز ہیں یہ سن کر مبشر کا سر اپنی بیوی کے سامنے شرمندگی کی وجہ سے جھک سا گیا اور وہ خاموشی کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ کر روانہ ہوگیا سارے راستے اسے اپنی غلطی کا احساس ہوتا رہا وہ سوچتا رہا کہ وہ آج جو کچھ ہے اپنے باپ کی وجہ سے ہے جبکہ دانش نے اپنی محنت اور قابلیت سے وہ مقام پالیا جو وہ چاہتا تھا وہ ہمیشہ دانش کو ایک غریب انسان سمجھ کر جج کرتا رہا لیکن اس کی ججمنٹ غلط تھی وہ ہمیشہ اس کے لباس کو دیکھ کر اسے جج کرتا رہا لیکن اس کی ججمنٹ غلط تھی اس نے کبھی بھی اپنی کسی بھی بات کا کسی بھی وقت دانش کو جواب دیتے نہیں دیکھا بلکہ مسکراتے ہوئے دیکھا اور یہ ہمیشہ اس بات کو اس کی کمزوری اور بزدلی سمجھتا رہا جبکہ یہ اس کی کامیابی کا ایک پوشیدہ راز تھا جو مبشر کو آج سمجھ آیا اسے اس مقام پر دیکھ کر آج وہ اپنے آپ کو دنیا کا کمزور ترین انسان سمجھ رہا تھا ایک ہارا ہوا انسان جس کے پاس سب کچھ ہے لیکن کچھ بھی نہیں ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں یہ ہے احساس بڑھتری کی بیماری جس میں ہم ہر انسان کو اپنے سے کم تر سمجھ کر اس کو جانے پہچانے بنا اس کے متعلق رائے قائم کرلیتے ہیں اور وہ بھی منفی نوعیت کی جو بالکل بھی مناسب نہیں اور شریعت کی رو سے اسے ہی بدگمانی کہتے ہیں ہمارے معاشرے میں کسی شخص یا اس کی کسی بات کے بارے میں جانے پہچانے بغیر کوئی رائے قائم کرلینے کے دو طریقے بہت زیادہ دیکھے گئے ہیں ایک ٹیکنکلی اور دوسرا پریکٹیکلی اب آئیے ہم دیکھتے ہیں کہ یہ کیسے ہوتا ہے ایک کلاس میں ایک ٹیچر میتھ کی کلاس لے رہی تھی اور انہوں نے ایک بچے کو کھڑا کیا جس کا نام علی تھا انہوں نے علی سے پوچھا کہ اگر میں تمہیں دو عدد امرود دوں اور تھوڑی دیر بعد پھر دو امرود دوں تو آپ کے پاس کتنے امرود ہو جائیں گے تو علی نے جواب میں کہا کہ پانچ اس کے اس جواب تمام بچوں کے ساتھ ٹیچر بھی پریشان ہوگئی لہذہ انہوں نے دوبارہ پوچھا تو علی نے پھر یہ ہی جواب دیا کہ پانچ ٹیچر نے سوچا شاید امرود علی کو پسند نہ ہو اس لئے وہ غلط جواب دے رہا ہے ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ٹیچر نے سوال کے انداز کو بدلتے ہوئے پوچھا کہ یہ بتائو اگر میں تمہیں دو عدد کیلے دوں اور تھوڑی دیر بعد پھر دو کیلے دوں تو تمہارے پاس کتنے کیلے ہو جائیں گے تو علی نے جواب دیا کہ چار یہ جواب سن کر ٹیچر نے دوبارہ امرود والا سوال کیا تو علی نے دوبارہ اس کے جواب میں پانچ کہا اب آئیے میں بتاتا ہوں کہ اصل کہانی کیا ہے اصل میں اگر ہم اس معاملہ کو ٹیکنیکلی دیکھیں تو ٹیچر کو ظاہری طور پر جو نظر آرہا تھا اس پر ان کی رائے بنی کیونکہ انہیں جو نظر آرہا ہے وہ اس پر اپنی رائے قائم کررہی ہے اس کے حساب سے دو اور دو امرود چار ہوتے ہیں لہذہ وہ یہ بات ٹیکنیکلی کہ رہی تھی جبکہ علی اپنی جگہ صحیح تھا کیونکہ وہ پریکٹیکلی جواب دے رہا تھا یعنی بقول ٹیچر دو امرود پہلے اور دو بعد میں دینے تھے لیکن علی کے بیگ میں پہلے ہی ایک امرود موجود ہے جس کی حقیقیت کا علم صرف اس کو ہی ہے اور اسی وجہ سے وہ امرود کی تعداد پانچ بتارہا تھا لہذہ وہ صحیح تھا بغیر کچھ سمجھے اور جانے ٹیچر نے علی کے بارے میں رائے قائم کرلی کہ امرود علی کو پسند نہیں اس لئے وہ غلط جواب دے رہا ہے جبکہ حقیقت کچھ اور تھی ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں دوسروں کے بارے میں بنا جانے جج کرنے کے بارے میں واقعات اور مشاہدات کتابوں میں بھرے پڑے ہیں اور ہمارے ارد گرد اور ساتھ رہنے والے لوگوں کی بھی ایک کثیر تعداد اس بیماری میں مبتلا نظر آتی ہے اسی لئے شریعت مطہرہ نے دوسروں سے حسن ظن رکھنے کی تاکید کی ہے بغیر کسی وجہ اور بغیر کسی کے بارے جانے بنا کسی کے خلاف غلط رائے قائم کرنا سخت منع ہے اور بروز محشر اس کی جواب دہی بھی ہوگی لہذہ کسی کے بارے میں جانے بغیر بھی اچھا گمان رکھنا چاہیے اور اچھے گمان کا اجر بھی ملے گا اور فائدہ بھی ہوگا ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ہر ایک کے لئے اچھا سوچیں اچھا گمان رکھیں چاہے اس کو ہم جانتے ہوں یا نہیں جانتے ہماری ججمنٹ سب کے لئے مثبت رکھیں بدگمانی کے عذاب سے اپنے آپ کو ہمیشہ دور رکھیں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اس بیماری سے دور رکھے اور دوسروں کے لئے ہمیں اچھا گمان رکھنے اور اچھی سوچ پیدا کرنے کی توفیق عطا فرمائے مجھے ہمیشہ سچ لکھنے اور ہم سب کو پڑھنے سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین آمین بجاالنبی الکریم صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم ۔
 

محمد یوسف میاں برکاتی
About the Author: محمد یوسف میاں برکاتی Read More Articles by محمد یوسف میاں برکاتی: 179 Articles with 161424 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.