نور مقدم کا قتل پاکستان میں صنفی بنیاد پر تشدد کا ایک
ہائی پروفائل کیس ہے جس نے قوم کے ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ 20 جولائی
2021 کو 27 سالہ نور مقدم، جو سابق سفارت کار شوکت علی مقدم کی بیٹی تھیں،
کو اسلام آباد کے پوش علاقے میں قتل کیا گیا۔ اس کیس نے #JusticeForNoor کے
ہیش ٹیگ کے ساتھ سوشل میڈیا اور عوامی احتجاج کو جنم دیا، جو خواتین کے
تحفظ کے لیے اصلاحات کا مطالبہ کرتا ہے۔ 20 مئی 2025 کو سپریم کورٹ نے ملزم
ظاہر جعفر کی سزائے موت کو برقرار رکھا، جو اس کیس میں ایک اہم پیش رفت ہے۔
یہ مضمون نور مقدم کیس کے پس منظر، سپریم کورٹ کے تازہ فیصلے، اور اس کے
پاکستان کے عدالتی نظام اور معاشرے پر اثرات کا جائزہ لیتا ہے۔
نور مقدم کیس کا پس منظر
نور مقدم، جو 23 اکتوبر 1993 کو پیدا ہوئیں، کو 20 جولائی 2021 کو اسلام
آباد کے سیکٹر ایف-7/4 میں ظاہر جعفر کے گھر پر قتل کیا گیا۔ ظاہر، ایک
پاکستانی-امریکی شہری اور ایک بااثر کاروباری خاندان کا فرد، نے نور کو دو
دن تک یرغمال رکھا، تشدد کیا، عصمت دری کی، اور پھر چھری سے سر قلم کر دیا۔
نور کے والد شوکت مقدم، جو پاکستان کے سابق سفارت کار ہیں، نے ظاہر کے خلاف
پاکستانی تعزیرات کے سیکشن 302 کے تحت ایف آئی آر درج کی۔ فروری 2022 میں
اسلام آباد کی سیشن کورٹ نے ظاہر کو سزائے موت سنائی، جبکہ اس کے دو
ملازمین کو 10 سال قید کی سزا دی گئی۔ مارچ 2023 میں اسلام آباد ہائی کورٹ
نے سزائے موت کو برقرار رکھا اور عصمت دری کی سزا کو دوسری سزائے موت میں
تبدیل کیا۔ اس کیس نے پاکستان میں خواتین کے خلاف تشدد پر بحث کو جنم دیا۔
سپریم کورٹ میں تازہ پیش رفت
20 مئی 2025 کو سپریم کورٹ نے ظاہر جعفر کی اپیل کی سماعت کی اور اس کی
سزائے موت کو قتل کے الزام میں برقرار رکھا۔ تاہم، عصمت دری کے الزام میں
سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کر دیا گیا، اور اغوا کی سزا کو 10 سال سے
کم کر کے ایک سال کر دیا گیا۔ ظاہر کے وکیل، بیرسٹر سلمان صفدر نے دلیل دی
کہ ان کے موکل کی ذہنی صحت کا جائزہ نہیں لیا گیا، لیکن عدالت نے اسے مسترد
کر دیا، کیونکہ پولیس کے مطابق ظاہر کا ڈی این اے اور فنگر پرنٹس جرم سے
مماثل تھے۔ نور کے والد شوکت مقدم نے فیصلے کا خیرمقدم کیا اور کہا کہ یہ
"پاکستان کی تمام بیٹیوں کے لیے" ایک مقدمہ ہے۔ سوشل میڈیا پر
#JusticeForNoor کے ہیش ٹیگ کے ساتھ فیصلے کی حمایت کی گئی، لیکن کچھ
صارفین نے عدالتی تاخیر پر تنقید کی۔
کیس اور حالیہ فیصلے کی اہمیت
نور مقدم کا کیس پاکستان میں صنفی بنیاد پر تشدد کے نظاماتی مسائل کو اجاگر
کرتا ہے۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (HRCP) کے مطابق، 2020 میں کم از کم
430 "عزت" کے نام پر قتل کے واقعات رپورٹ ہوئے، جن میں 363 خواتین شامل
تھیں۔ نور کا کیس، جو ایک سفارت کار کی بیٹی کے طور پر ہائی پروفائل تھا،
نے خواتین کے تحفظ کے لیے عوامی مطالبات کو تقویت دی۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ
بااثر خاندانوں کے لیے جوابدہی کو یقینی بنانے کی علامت ہے، جو پاکستان کے
عدالتی نظام میں ایک اہم پیش رفت ہے۔ تاہم، کچھ ناقدین نے تین سال سے زائد
کی عدالتی تاخیر اور دیگر ملزموں کی بریت پر تنقید کی۔ یہ فیصلہ
#JusticeForNoor تحریک کو مضبوط کرتا ہے، جو خواتین کے خلاف تشدد کے خاتمے
کے لیے ایک پلیٹ فارم بن چکا ہے۔
پاکستان کے لیے اثرات
سپریم کورٹ کا فیصلہ پاکستان کے عدالتی نظام میں اعتماد کو بحال کرنے میں
مدد دے سکتا ہے، خاص طور پر ایسی صورتوں میں جہاں بااثر افراد ملوث ہوں۔ یہ
فیصلہ ظاہر کرتا ہے کہ قانون سب کے لیے برابر ہے، چاہے ملزم کا تعلق کسی
بھی طبقے سے ہو۔ تاہم، کیس کی طوالت نے عدالتی عمل کی سست روی پر سوالات
اٹھائے ہیں، جیسا کہ نور کے والد نے اکتوبر 2024 میں تاخیر پر تنقید کی
تھی۔ یہ فیصلہ خواتین کے حقوق کے لیے جاری تحریک کو تقویت دیتا ہے اور صنفی
بنیاد پر تشدد کے خلاف قانون سازی کے مطالبات کو بڑھاتا ہے۔ پاکستان میں،
جہاں عالمی اقتصادی فورم کے 2021 کے جینڈر گیپ انڈیکس میں ملک 156 میں سے
153ویں نمبر پر ہے، اس فیصلے سے اصلاحات کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔ عوام
کو امید ہے کہ یہ کیس دیگر متاثرین کے لیے انصاف کی راہ ہموار کرے گا۔
نور مقدم کیس کا سپریم کورٹ کا فیصلہ پاکستان کے عدالتی نظام اور خواتین کے
تحفظ کے لیے ایک اہم سنگ میل ہے۔ ظاہر جعفر کی سزائے موت کا برقرار رہنا اس
بات کی علامت ہے کہ بااثر افراد بھی قانون سے بالاتر نہیں ہیں۔ نور کا کیس
پاکستان میں صنفی بنیاد پر تشدد کے خلاف ایک بڑی تحریک کا محرک بنا، جس نے
معاشرتی رویوں اور قانونی نظام میں اصلاحات کی ضرورت کو اجاگر کیا۔
پاکستانی عوام کو چاہیے کہ وہ اس فیصلے کو خواتین کے تحفظ اور انصاف کے لیے
ایک نئے عزم کے طور پر دیکھیں۔ نور مقدم کی یاد ہر اس خاتون کے لیے ایک
علامت ہے جو تشدد کا شکار ہوئی، اور یہ کیس مستقبل میں انصاف کے لیے جدوجہد
کو مضبوط کرتا ہے
|