خضدار اسکول بس پر خودکش حملہ: دشمن کی پراکسی جنگ کا تسلسل

بلوچستان کے ضلع خضدار میں آرمی پبلک اسکول کی بس پر خودکش حملہ، نہ صرف ایک دردناک سانحہ ہے بلکہ پاکستان کے خلاف جاری ایک گہری سازش کی علامت بھی ہے، جو دشمن عناصر کے پراکسی نیٹ ورکس کے ذریعے تعلیمی اداروں، بچوں اور قومی یکجہتی کو نشانہ بناتی ہے۔ اس واقعے میں تین معصوم طلبہ سمیت پانچ افراد شہید اور درجنوں زخمی ہوئے۔ یہ حملہ اُس وقت کیا گیا جب بچے اسکول سے واپس جا رہے تھے — وہ وقت جو ہر ماں باپ کے لیے سب سے محفوظ سمجھا جاتا ہے، لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں اب یہی لمحے غیر محفوظ ہوتے جا رہے ہیں۔

تعلیمی اداروں کو نشانہ بنانے کا مقصد: دشمن کا نفسیاتی ہتھیار

دہشتگرد تنظیمیں جب تعلیمی اداروں کو نشانہ بناتی ہیں تو ان کا مقصد صرف جسمانی نقصان نہیں ہوتا، بلکہ وہ معاشرے کی ذہنی ساخت، قومی حوصلے اور مستقبل کی صلاحیت کو تباہ کرنے کا ہدف رکھتے ہیں۔ اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں پر حملے دراصل علم، روشنی، اور ترقی پر حملے ہوتے ہیں۔ طالبان اور علیحدگی پسند تنظیموں کے حملے اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ دشمن تعلیم یافتہ پاکستان سے خائف ہے، اور وہ نسلِ نو کو خوف اور نفرت کے اندھیروں میں دھکیلنا چاہتا ہے۔

پراکسی جنگ اور بھارت کا گٹھ جوڑ: ناقابلِ تردید شواہد

پاکستانی انٹیلی جنس اداروں اور وزارتِ خارجہ نے بارہا عالمی برادری کے سامنے اس بات کے شواہد رکھے ہیں کہ بھارت، بالخصوص اس کی خفیہ ایجنسی "را"، بلوچستان میں دہشتگرد تنظیموں کو مالی، عسکری اور لاجسٹک مدد فراہم کر رہی ہے۔ "آپریشن سندور" کے تحت بھارت کی پشت پناہی سے بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں کو دوبارہ متحرک کیا جا رہا ہے۔ بھارتی میڈیا کے بعض اینکرز اور دفاعی تجزیہ نگار کھلے عام ان حملوں کی تائید کرتے ہیں، جو اس ریاستی مداخلت کو بے نقاب کرتی ہے۔

حال ہی میں افغانستان میں بھارتی قونصل خانوں سے نکلنے والے BLA اور BRA کے کمانڈرز کی افغان خفیہ ایجنسی کے ساتھ تصاویر، اور دہشتگردوں کے قبضے سے ملنے والے بھارتی ساختہ ہتھیار، اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ خضدار جیسے حملے ایک گہری بین الاقوامی سازش کا حصہ ہیں۔

اگرچہ بیرونی مداخلت ایک بڑی حقیقت ہے، لیکن ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ داخلی سطح پر ہماری ریاستی کمزوریاں، مثلاً انٹیلیجنس کوآرڈینیشن کی کمی، تعلیمی اداروں کی سیکیورٹی پر عدم توجہ، اور سست عدالتی نظام، ایسے حملوں کی راہ ہموار کرتے ہیں۔ ایسے حملے صرف فوجی ردعمل سے نہیں رُک سکتے، بلکہ ہمیں قومی بیانیے کو مضبوط بنانا ہوگا، جو تعلیم، امن، انصاف اور یکجہتی پر مبنی ہو۔
ریاست کو چاہیے کہ وہ صرف اظہارِ مذمت تک محدود نہ رہے، بلکہ ایک مربوط پالیسی کے تحت:

▪︎ تمام تعلیمی اداروں میں سیکیورٹی آڈٹ کروائے؛

▪︎ہائی رسک ایریاز میں بچوں کی اسکول آمدورفت کے لیے محفوظ راستے متعین کرے؛

▪︎دہشتگردی سے متاثرہ علاقوں میں والدین اور اساتذہ کو ذہنی امداد فراہم کرے؛

▪︎عالمی سطح پر پراکسی وار کی حقیقت اجاگر کرنے کے لیے موثر سفارت کاری اختیار کرے۔

خضدار حملے کے ممکنہ اثرات اور قومی سلامتی کا منظرنامہ

یہ حملہ بلوچستان کی موجودہ صورتِ حال کو مزید خراب کر سکتا ہے، جہاں CPEC، گوادر پورٹ اور معدنی ذخائر کی وجہ سے پہلے ہی دشمن قوتیں متحرک ہیں۔ اگر ان حملوں کو بروقت روکنے کے لیے اقدامات نہ کیے گئے تو ملک کی اقتصادی سلامتی، تعلیمی ترقی، اور عوامی اعتماد شدید متاثر ہو سکتے ہیں۔
دوسری جانب، اس حملے سے چین اور دیگر علاقائی شراکت داروں کو بھی واضح پیغام جائے گا کہ پاکستان کے اندرونی خطرات بین الاقوامی نوعیت اختیار کر چکے ہیں، اور اب ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کو بین الاقوامی سطح پر ایک ترجیحی مسئلہ تسلیم کیا جائے۔

جب کوئی بچہ اسکول یونیفارم میں کفن اوڑھ کر گھر واپس آتا ہے، تو وہ صرف ایک خاندان کا نقصان نہیں ہوتا بلکہ پوری قوم کی شکست ہوتی ہے۔ ولیم ورڈز ورتھ کے یہ الفاظ اس سانحے کی شدت کو بیان کرتے ہیں:

"The child is father of the man;
And I could wish my days to be
Bound each to each by natural piety."
(بچے انسان کا آئندہ ہے، اور میری خواہش ہے کہ میرے تمام دن فطری شفقت سے جُڑے رہیں۔)

مگر اب سوال یہ ہے: کیا ہم اپنے بچوں کو اُس شفقت، تحفظ اور ترقی کا ماحول دے رہے ہیں جس کے وہ مستحق ہیں؟ کیا ہم صرف مذمتی بیانات پر اکتفا کرتے رہیں گے یا اس خون کا حساب بھی لیں گے؟ خضدار کا حملہ ہمیں محض رلانے نہیں، جگانے کے لیے ہے۔ اب وقت ہے کہ ریاست، سول سوسائٹی، میڈیا، اور بین الاقوامی برادری مل کر اس جنگ کا سامنا کریں — یہ جنگ پاکستان کے بچوں کی بقاء، تعلیم، اور امن کی ہے۔

 

Qurat ul ain Ali Khawaja
About the Author: Qurat ul ain Ali Khawaja Read More Articles by Qurat ul ain Ali Khawaja: 43 Articles with 12600 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.