محترم صحافی صاحب،
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترم صحافی صاحب، امید ہے آپ خیریت سے ہوں گے۔
آپ کی سپورٹس ڈائریکٹریٹ، خصوصاً سوئمنگ پول سے متعلق رپورٹس پر میری نظر ہے۔ مجھے حیرت ہے کہ یا تو آپ حقیقتِ حال سے مکمل لاعلم ہیں، یا دانستہ طور پر کچھ پہلوؤں کو نظر انداز کر رہے ہیں۔ یا پھر ممکن ہے کہ آپ ان عناصر سے واقف ہوں جنہوں نے برسوں اس ادارے کو مالی طور پر نقصان پہنچایا۔
میں ایک معمولی ملازم ہوں، اور روزانہ آپ کو اس ادارے میں آتے جاتے دیکھتا ہوں۔ میرے پاس بہت سی معلومات ہیں، لیکن میں ان میں سے صرف چند حقائق آپ کے ساتھ شیئر کر رہا ہوں، صرف اس نیت سے کہ اگر آپ انصاف پسند ہیں تو سچ کو سامنے لائیں۔
آپ آج کل سوئمنگ پول سے متعلق بہت کچھ لکھ رہے ہیں۔ کیا کبھی آپ نے اس بات کی تحقیق کی کہ ماضی میں اس سوئمنگ پول کو کس طرح نقصان پہنچایا گیا؟ کھلاڑیوں کی بات ضرور کیجیے، لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ ان کھلاڑیوں کو تربیت دینے والے کون تھے؟ بیشتر تربیت دہندگان کے پاس سیٹی بجانے کے سوا کوئی صلاحیت نہیں تھی۔ ایک لائف گارڈ ایسے بھی تعینات ہوئے جو خود علاج کے محتاج تھے۔ جنہوں نے یہ تعیناتیاں کیں، وہ آج اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں، لیکن انجام سب کو بھگتنا ہے۔
سوئمنگ پول کا مالی نظام ماضی میں کیسا تھا، یہ بھی قابل غور ہے۔ دو سال قبل یہاں روزانہ کی بنیاد پر محض 20 سے 30 لاکھ روپے تک آمدنی ہوتی تھی۔ اس وقت ڈیلی ویجز پر ملازمین تعینات کیے جاتے تھے، جبکہ مستقل ملازمین کو اضافی ادائیگی دی جاتی تھی۔
اب یہاں ایک ایسا اہلکار تعینات ہے جو نہایت ایماندار ہے، اور کسی کو ناجائز فائدہ اٹھانے نہیں دیتا، یہی اس کی خوبی ہے۔ ماضی میں ایک اور اہلکار ہفتہ میں چھ کلو دودھ لاتا تھا جو پول کے فنڈ سے آتا تھا، چائے اور مہمان نوازی اس بجٹ سے ہوتی تھی۔ بعض اوقات مشہور شنواری کڑاہی سے کھانا منگوایا جاتا تھا، جو صرف مخصوص افراد کے لیے ہوتا تھا۔
یہاں پر باقاعدہ ایسا سسٹم رہا کہ بعض اہلکار اپنے دوستوں کو پیسے لیے بغیر نہانے کی اجازت دے دیتے تھے۔ خود میں بھی اس نظام کا حصہ رہا ہوں، اور بعض اوقات تین سو روپے کی بجائے سو روپے لے کر جیب میں ڈال لیتے تھے۔ اُس وقت کمرشل ازم کا رجحان نہیں تھا، لیکن اب صورتحال مختلف ہے۔
گیٹ پر تعینات بعض اہلکار اپنے جاننے والوں کو فون کر کے کہتے کہ ان کا خیال رکھا جائے، اور اندر موجود عملہ ان کی خدمت کرتا۔ یہ بھی سچ ہے کہ بعض افسران، صحافی، اور دیگر اثر و رسوخ والے افراد اپنے بچوں، رشتہ داروں یا مہمانوں کو چٹ لکھ کر مفت داخلہ دلواتے تھے۔
ایک وقت ایسا بھی آیا کہ یہاں پر ایک ریٹائرڈ اہلکار مخصوص قسم کی نکریں کرایے پر دیا کرتا تھا، اور باہر سے نیکر لانے کی اجازت نہیں تھی، تاکہ اندرونی کاروبار متاثر نہ ہو۔ اس نظام میں بڑے لوگوں کا حصہ ہوتا تھا۔
جن صحافیوں نے یہاں نہایا نہیں، وہ الگ بات ہے، لیکن کئی صحافی بھی اپنے جاننے والوں کو لے کر آتے رہے اور رعایت طلب کرتے رہے۔ کئی بار وہ افراد پہلے ہی گیٹ پر پیسے دے چکے ہوتے تھے، لیکن اندر آ کر رعایت کا تقاضا کرتے تھے۔
محترم، سوئمنگ پول کی بھی ایک دنیا ہے، اور اس میں کئی کردار اور کہانیاں چھپی ہیں۔ ایک وقت تھا کہ آمدنی صرف چند لاکھ روپے تھی، لیکن پچھلے سال پہلی بار ایک کروڑ روپے کی آمدن ہوئی۔ اب یہ الگ بات ہے کہ یہ رقم کہاں خرچ ہوئی۔
اب جبکہ بہت سے لوگوں کا فائدہ ختم ہو چکا ہے، وہ سوئمنگ پول کے خلاف مہم میں سرگرم نظر آتے ہیں۔
میں جانتا ہوں کہ شاید آپ یہ خط من و عن شائع نہ کریں، لیکن امید ہے کہ آپ حقائق کی چھان بین ضرور کریں گے۔ میری نیت تنقید نہیں بلکہ اصلاح ہے۔
اللہ ہمیں سچ اور حق پر قائم رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ والسلام
ایک عام ملازم (نام ظاہر نہ کیا جائے) |