جمہوریت ،انسانی حقوق ،شخصی
آزادی ،قانونی بالادستی نجانے فریب ِمغرب نے تہذیب کے نام پر دنیا کو کیسے
کیسے لوٹا ہے۔ اسے جنگ میں جھونکا ہے،خون خرابہ اور قتل وغارت گری کی ہے
اور ان تمام اصولوں کی دھجیاں اڑائی ہیں۔ امریکہ خود کو دنیا میں انسانی
حقوق کا ٹھیکہ دار سمجھتا ہے مگر دور دیسوں میں بحالی امن کے نام پر خون کی
ندیاں بہائی گئیں اور خود یہی امریکہ اپنے شہریوں کے ساتھ جس تعصب کا
برتائو کرتا ہے وہ مثالی ہے۔ ستمبر 2001میں نیویارک میں ہونے والی دہشتگردی
کے ڈرامے کے بعد جس طرح امریکی مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا وہ بذات خود
ایک بڑاجرم ہے وہ بھی اس ملک میں جس کی ترقی میں وہ برابر شامل رہے، جہاں
وہ نسل ہا نسل سے آباد ہیں اور خود کو مکمل امریکی کہتے ہیں لیکن امریکی ان
کو اس حق کا اہل ہی نہیں سمجھ رہے۔ 9/11کا واقعہ جدید دنیا کی تاریخ کا وہ
تاریک ترین باب ہے جس میں خود توتین سے پانچ ہزار جانیں گئیں اگرچہ یہ بھی
ایک بہت بڑی تعداد تھی لیکن ان جانوں کا بدلہ لینے کیلئے اس تعداد سے کئی
گنا زیادہ مسلمانوں کو گاجر مولی کی طر ح کاٹ دیا گیا اور جا رہا ہے۔ خود
امریکی مسلمان مشکوک بنا دیئے گئے اور وہ مسلسل پولیس ، ایف بی آئی اورسی
آئی اے کی نظروں میں ہیں ان کی نجی زندگی نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔ شخصی
آزادی کے علمبردار ملک میں ان سے یہ حق چھین لیا گیا ہے، یہ آ زادی نہ گھر
میں ہے نہ راستے میں نہ دفتر اور نہ سکول کالج میں، اب کچھ امریکیوں کو بھی
شاید احساس ہونے لگا ہے کہ وہ اپنے مسلمان شہریوں کا اعتماد کھوتے جارہے
ہیں اور اسی لیے اب ان کا پریس کبھی کبھی اس موضوع پر بولتا ہوا دکھائی دے
رہا ہے لیکن یہودیوں کے زیرِ اثر میڈیا اور پریس کا بھی ایک بڑا حصہ ابھی
حیلے بہانے سے اور کھلم کھلا دونوں طرح سے اس تعصب کو ابھارنے میں مصروف
ہیں۔ خود حکومتی حلقوں اور سینٹ میں بھی یہ لابی سرگرمِ عمل ہے۔ The
Christian Science Monitorکے سروے کے مطابق اڑتیس فیصد امریکیوں نے اس رائے
کا اظہار کیا کہ دوسرے کسی بھی مذہب کی نسبت اسلام بد امنی کا زیادہ حامی
ہے جبکہ پنتالیس فیصد لوگوں نے اس خیال کی مخالفت کی۔ اس زیادہ تناسب کے
باوجود نیویارک پولیس مسلسل مسلمانوں کو دہشت گرد سمجھ کر نظرمیں رکھے ہوئے
ہے۔ ایک ریپبلکن سینیٹر لنڈسے گراہم کے مطابق مسلمانوں کو تعصب اور الزامات
کا سامنا ہے کیونکہ یہ حقیقی امریکی نہیں اور اس نے صاف اور واضح وجہ بتاتے
ہوئے کہا کہ کیونکہ یہ مسلمان ہیں اور اسی مسلمان ہونے ہی کی وجہ سے ان کو
ہر مقدمے میں بآسانی ملوث کر دیا جاتا ہے۔ 9/11کے بعد تو ان مسلمانوں کو
قربانی کا بکرا سمجھ لیا گیا ہے ۔ تھامس پیریز شہری حقوق کیلئے اسسٹنٹ
اٹارنی جنرل ہے اس نے کہا کہ 9/11کے بعد ان کے محکمے کے پاس ایسے کیسز آئے
کہ مساجد کو بند کرنے کی کوشش کی گئی،دفاتر اور جائے کار پر مسلمانوں کو
اپنا لباس پہننے پر اور عبادت کے نظام الاوقات پر توہین اور تعصب کا سامنا
کرنا پڑا ۔ یہا ں تک کہ بچوں کو سکول گرائونڈ میں غنڈہ گردی کا نشانہ بنایا
گیا ۔ اس کے یہ اعداد و شمار اور اعترافات اکیس اکتوبر کے ای پیپر
Religionمیں شائع ہوئے اور امریکی مسلمان وکیل فرحانہ خیرا کے مطابق اس
تعصب میں پچھلے ماہ سے اضافہ ہوا ہے۔ اضافے کی وجہ پر غور کیا جائے تو صاف
نظر آتا ہے کہ امریکی حکومت اور عوام تیزی سے پھیلتے ہوئے اسلام سے خوفزدہ
ہیں اور اسی لیے ہر طریقہ آزما رہے ہیں لیکن وہ اپنے مقاصد میں کامیابی
حاصل نہیں کر پا رہے۔ دراصل وہی تعصب جو امریکہ پوری دنیا کے مسلمانوں کے
خلاف رکھتا ہے اس میں امریکی اور غیر امریکی کی تخصیص نہیں وہ اسلام کے
پھیلائو سے خائف ہے اور یہی خوف اس کی تشویش میں مسلسل اضافے کا باعث ہے ۔
سلام المرایتی نے لاس اینجلس ٹائمز میں مسلمانوں کے خلاف تعصب اور ان کی
مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کا رویہ ان
فاصلوں کو بڑھا رہا ہے۔ اس نے ایف بی آئی کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیا جس کے
مطابق امریکی مسلمان ساتویں صدی کا اسلام اور طرز بودوباش امریکہ میں لانا
چاہتے ہیں، رپورٹ میں اسے تہذیبی جہاد کا نام دیا گیا ہے۔ سلام المرایتی جو
کہ خود بیس سال تک قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ منسلک رہا ہے اور
مسلم پبلک افیئرز کا صدر بھی ہے کے مطابق اس طرح کی رپورٹیں امریکی
مسلمانوں اور دیگر امریکیوں کے درمیان خلیج کو بڑھا رہی ہیں جبکہ اصل کام
رپورٹ مرتب کرنا نہیں بلکہ اس خلیج کو پاٹناہے ۔مسلمان اس معاملے میں مکمل
طور پر تعاون کر رہے ہیں اور انہی کی مدد سے القائدہ کے دہشت گردی کے چالیس
منصوبے نا کام بنائے گئے ۔ اوپر دیئے گئے تمام حوالے خود امریکی میڈیا سے
لیے گئے ہیں اور بغیر کسی مبالغہ آمیزی کے من و عن بیان کئے گئے ہیں ۔ یہ
بظاہر صرف چند ایک جھلکیاں ہیں ورنہ چھوٹے موٹے واقعات اس سے کہیں زیادہ ہی
ہیں ۔ نمازو روزے کی پابندی سے لے کر لباس تک کو شدت پسندی کا نام دیا
جارہا ہے ۔ بروکلین یونیورسٹی میں طلبا ئ کو صرف اس لیے نگرانی میں رکھا
جارہا ہے اور انہیں دہشت گرد قرار دیا جارہا ہے کہ انہوں نے یونیورسٹی میں
دو کمرے، ایک لڑکوں اور ایک لڑکیوں کی نماز کیلئے مختص کیے ہیں جہا ں بقول
ان طلبائ کے یہ نماز پڑھتے ہیں اور آرام کرتے ہیں ۔ جبکہ نیویارک پولیس کے
مطابق یہ طلبائ خاموش کھڑے یا بیٹھے رہتے ہیں اور پھر سر زمین پر ٹیکنے کی
پر اسرار حرکات کرتے ہیں ۔ دراصل یہ بھی توہین کا ایک انداز ہے ورنہ کیا
نیویارک پولیس کی جہالت کا یہ عالم ہے کہ وہ نماز کے بارے میں نہیں جانتے۔
یہ تو کچھ حقائق ہیں جو امریکہ میں وقوع پزیر ہو رہے ہیں لیکن سوال یہ ہے
کہ مسلمان حکومتیں کتنی سنجیدگی سے ان مسائل کو حل کرنے کی کوشش کر رہی ہیں
امریکہ سے کس حد تک مطالبہ کیا جارہا ہے کہ وہ اپنے مسلمان شہریوں کے حقوق
کا خیال کرے یا اسے امریکہ کا اندرونی معاملہ سمجھ کر چھوڑ دیا جا رہا ہے۔
جبکہ یہ وہی امریکہ ہے جو مسلمان حکومتوں کے خلاف کاروائیاں کرنے کیلئے صرف
اس بات کو جو از بناتا ہے کہ یہ مسلمان حکومت اپنے مسلمان شہریوں کے حقوق
پورے نہیں کر رہی۔ کسی بھی مسلمان ملک میں کسی غیر مسلم کے ساتھ بالکل ذاتی
وجوہات کی بنا پر ہونے والے کسی جھگڑے کو بین الاقوامی طور پر اچھالتا ہے
اور اس طرح کے واقعات کو خود بڑے زور و شور سے ہوا دیتا ہے تاکہ حالات کو
اس حد تک خراب کیا جائے کہ ملکی حالات کا بہانہ بنا کر کسی اور ملک کے عوام
کی مددکرنے کیلئے خود میدان میں کود پڑے اور اپنی ہوس ملک گیری کی تسکین
کرتا رہے۔
دکھ اور افسوس کی بات یہ ہے کہ مسلمان حکومتیں اور کہیں کہیں مسلمان عوام
ڈالروں کے عوض بڑی آسانی سے امریکہ کو یہ سہولت فراہم کرتے رہتے ہیں یہ اور
بات ہے کہ امریکہ اپنا کام نکال کر ان حکمرانوں کو گولی یا سولی کی خوراک
بنا دیتے ہیں لیکن امریکی تابعداری کے بدلے میں چند سال اور دولت اکٹھی
کرنے کیلئے مل جاتے ہیں اور پھر وہ یہ دولت اپنے آنے والی سات نسلوں کے
حوالے کر جاتے ہیں۔ درحقیقت مسلمان امریکی ہوں یا غیر امریکی ،امریکہ کے
نزدیک وہ دہشت گرد ہیں اور ایسا اس لیے ہے کہ اس کے سامنے اکڑ کر کھڑا ہونے
والا کوئی مسلمان ملک نہیں ہے اور اسی لیے وہ آسانی سے اپنا کام کیے جا رہا
ہے۔ اسی امریکہ کا لباس ہم انتہائی فخر سے پہنتے ہیں جو مسلمانوں کو ان کے
لباس کی وجہ سے دہشت گرد قرار دیتا ہے اور انہی کے دیکھا دیکھی ہم خود بھی
اپنے لباس کو تضحیک کا نشانہ بنا کر اسے جہالت کی نشانی سمجھتے ہیں۔ وہ
ہماری عبادت کو شدت پسندی کہتے ہیں اور ہمارے صاحبانِ علم خاموشی سے سنتے
ہیں علمی بنیاد پر کوئی ٹھوس اور مستند جواب سننے میں نہیں آتا۔ وہ جہاد کو
جرم بتاتے ہیں اور کوئی انہیں یہ بتانے والا نہیں کہ جہاد ظالم سے جنگ اور
امن کی بحالی کو کہتے ہیں بلکہ ہمارے حکمرانوں نے کیایہ کہ بجائے اس کے کہ
جہادکے اصل معنی سمجھائے جائیں اپنی کتابوں سے لفظ جہاد مٹانا شروع کر دیا۔
جب امریکہ سے باہر کے مسلمانوں کے خوف کا یہ عالم ہوگا تو امریکی مسلمان تو
مصیبت میں پڑے ہی رہیں گے۔ وہ تو بھلا ہو خود ان امریکیوں اور یورپیوں کا
جو اسلام کوتجسُس کے مارے پڑھتے ہیں اور متاثر ہو کر اسلام قبول کر رہے ہیں
اور اسلام کی اسی افاقیت نے غیر مسلموں کے اوسان خطا کیے ہوئے ہیں۔ لیکن
بدقسمتی سے نہ تو مسلمان حکمران اور نہ بزعم خود مسلمان علمائ امریکہ کو
جواب دے رہے ہیں۔ ہمیں اپنے رویوں میں مکمل تبدیلی لانی ہوگی، اپنے دین کی
حفاظت کرنی ہوگی اور امریکہ سمیت سب کو بتانا ہوگا کہ اسلام صرف ساتویں صدی
کیلئے نہیں تھا بلکہ قیامت تک کیلئے ہے اور یہ بھی کہ یہ کسی بھی مذہب سے
زیادہ پر امن مذہب ہے اس کے پیروکار اپنے نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
کی طرح نرم خو اور باعث رحمت ہیں لیکن اپنے خلاف معاندانہ رویوں کا جواب
دینا جانتے بھی ہیں اور اس کی ہمت بھی رکھتے ہیں۔ |