آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد
فرمایا: ”جبرائیل مجھے ہمسائے کے بارے میں وصیت کرتے رہے یہاں تک کہ مجھے
خیال آنے لگا کہ شاید اسے وارث بنادیا جائیگا۔ (صحیح البخاری شریف)
قرآن پاک میں ہمسائے کے حقوق کی ادائیگی پر زور دیا گیا ہے۔ ترجمہ ” اور تم
اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائو اور ماں باپ کے
ساتھ بھلائی کرو اور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں (سے) اور نزدیکی
ہمسائے اور اجنبی پڑوسی اور ہم مجلس اور مسافر (سے) اور جن کے تم مالک
ہوچکے ہو (ان سے نیکی کیا کرو) بیشک اللہ اس شخص کو پسند نہیں کرتا جو تکبر
کرنے والا (مغرور) فخر کرنے والا (خودبین) ہو۔،،
٭ ابوشریح روایت کرتے ہیں ”حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خدا کی
قسم وہ ایمان والا نہیں۔ خدا کی قسم وہ ایمان والا نہیں۔ خدا کی قسم وہ
ایمان والا نہیں، عرض کیا گیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کون؟ فرمایا
کہ جس کا ہمسایہ اس کی ایذا رسانی سے محفوظ نہیں۔ (صحیح بخاری شریف)
٭ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
نے فرمایا ” جو اللہ اور قیامت پر یقین رکھتا ہے وہ اپنے ہمسائے کو نہ
ستائے۔ جو اللہ اور قیامت پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ اپنے مہمان کو
عزت کرے۔ جو اللہ اور قیامت پر یقین رکھتا ہے اسے چاہیے کہ اچھی بات منہ سے
نکالے یا خاموش رہے۔ (صحیح البخاری)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
نے فرمایا ”جو اللہ اور قیامت پر یقین رکھتا ہے وہ اپنے ہمسائے کو نہ
ستائے۔ جو اللہ اور قیامت پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ اپنے مہمان کی
عزت کرے۔ جو اللہ اور قیامت پر یقین رکھتا ہے اسے چاہیے کہ اچھی بات منہ سے
نکالے یا خاموش رہے۔ (صحیح البخاری شریف)
٭ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ
وسلم فرمایا کرتے تھے ”اے مسلمان عورتو! تم میں سے کوئی عورت اپنی پڑوسن کی
تذلیل و تحقیر نہ کرے اگرچہ وہ بکری کے کھُر جیسی ہو۔ (صحیح البخاری) |