وہ کچے مکان، وہ سچے دل
(Fazal khaliq khan, Mingora Swat)
ماضی کی پرانی یادیں، جب لوگ سچے تھے اور سب پرائے پڑوسی ایک دوسرے کے رشتے دار سمجھ جاتے تھے! |
|
|
فضل خالق خان (مینگورہ سوات) کبھی زمانہ تھا جب دیواریں کچی ہوتی تھیں، مگر دل پکے۔ دروازے کم اور دلوں کے در کھلے ہوتے تھے۔ لوگ کم وسائل میں بھی دل کھول کر جیتے تھے۔ محلے کے ہر گھر کا دروازہ ہر ایک کے لیے کھلا ہوتا تھا، اور ہر دل میں محبت، خلوص اور اپنائیت کا چراغ روشن رہتا تھا۔ نہ اونچ نیچ کا فرق، نہ غرورِ دولت کا زہر، نہ کسی کے لباس یا چہرے سے انسانیت کا درجہ ناپا جاتا تھا۔ یاد ہے مجھے وہ دن، جب ہر بچہ کسی بھی گھر میں داخل ہوکر پانی مانگ سکتا تھا، اور جواب میں صرف پانی نہیں، ایک پیار بھرا ہاتھ اور مسکراہٹ بھی ملتی تھی۔ محلے کی ہر عورت، ہر بچہ کی ماں جیسی ہوتی تھی، کبھی ماسی، کبھی خالہ، کبھی مامی۔ اور مرد حضرات! وہ بھی صرف رشتے کے بندھن سے نہیں، دل کے تعلق سے چاچا، ماما، یا بابا ہوا کرتے تھے۔ کسی کے ہاں کوئی خوشی ہوتی تو پورا محلہ سج جاتا۔ کسی پر غم آتا تو ہر آنکھ اشکبار ہوتی۔ لوگ غریب امیر کا فرق نہیں کرتے تھے، بلکہ غم اور خوشی بانٹنے کو اصل دولت مانتے تھے۔ سادگی میں وہ شان تھی کہ آج کے دکھاوے سے کہیں بہتر لگتی تھی۔ مگر وقت نے کروٹ بدلی۔ اب مکان پکے ہو گئے، دروازے بھی مضبوط ہو گئے، مگر دلوں پر تالے لگ گئے۔ گلیوں میں خاموشی ہے، گھروں میں اجنبیت، اور دلوں میں خود غرضی کا بسیرا ہے۔ اب کوئی کسی کے دروازے پر بغیر اطلاع نہیں آتا، اور اگر آ بھی جائے تو استقبال مسکراہٹ سے نہیں، شک سے ہوتا ہے۔ رشتے موجود ہیں، مگر وہ جذبات اور اپنائیت ناپید ہو چکی ہے۔ ہم ایک ہی محلے میں رہتے ہوئے ایک دوسرے کو نہیں جانتے۔ بچوں کو یہ سکھایا جاتا ہے کہ کسی اجنبی سے بات نہ کریں، جبکہ ماضی میں "اجنبی" لفظ ہی محلے کی لغت میں نہ تھا۔ وقت بدل گیا ہے یا ہم بدل گئے ہیں؟ کیا یہ ترقی ہے کہ ہم ٹھنڈے کمروں میں بند ہو کر سوشل میڈیا پر "محبت" کے فلسفے بانٹتے ہیں، مگر پاس بیٹھے انسان کی تکلیف کو نہیں سمجھ پاتے؟ کیا یہ سہولت ہے کہ ہم دروازے بند رکھتے ہیں اور دلوں کو بھی؟ آئیے سوچیں، کیا ہم اپنے بچوں کو وہی خوشبو، وہی اپنائیت دے سکتے ہیں جو ہمارے بچپن میں تھی؟ کیا ہم دلوں کے دروازے دوبارہ کھول سکتے ہیں؟ محبت آج بھی زندہ ہے، خلوص آج بھی سانس لیتا ہے، بس ضرورت ہے ایک قدم بڑھانے کی، ایک مسکراہٹ دینے کی، اور ایک دل کو چھو لینے کی۔ کاش ہم پھر سے وہی کچے مکانوں والے سچے لوگ بن جائیں۔ |
|