ابراہیمی معاہدہ 2020ء اور مشرق وسطیٰ کی سیاسی نقشہ گری

ایوان اقتدارسے

مشرق وسطیٰ ہمیشہ سے عالمی طاقتوں اور علاقائی ممالک کے لیے ایک حساس اور متنازعہ خطہ رہا ہے۔ اس خطے میں مذہبی، جغرافیائی اور سیاسی تنازعات نے کئی جنگوں کو جنم دیا اور امن کی کوششیں ہمیشہ ناپائیدار رہیں۔ تاہم سال 2020 ء میں ایک غیر معمولی اور چونکا دینے والا سفارتی اقدام سامنے آیا، جسے دنیا نے ”ابراہیمی معاہدہ“ کا نام دیا۔یہ معاہدہ دراصل اسرائیل اور چند عرب ممالک کے درمیان سفارتی، اقتصادی اور سیاسی تعلقات کے قیام سے متعلق ہے، جسے امریکہ کی ثالثی میں طے کیا گیا۔ اس اقدام نے مشرق وسطیٰ کی سیاسی نقشہ گری کو نہ صرف چیلنج کیا بلکہ ایک نئے سفارتی دور کی بنیاد بھی رکھی۔
ابراہیمی معاہدہ (Abraham Accords) ایک ایسا سفارتی معاہدہ ہے جو اسرائیل اور عرب ممالک کے مابین دوستی، امن اور تعاون پر مبنی ہے۔ اس معاہدے کے تحت متحدہ عرب امارات، بحرین، سوڈان اور مراکش نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کیے، اور یوں عشروں پر محیط کشیدگی میں نرمی کی ایک کوشش کی گئی۔
یہ پہلا موقع نہیں کہ کسی عرب ریاست نے اسرائیل کو تسلیم کیا ہو۔ اس سے قبل مصر 1979ء اور اردن 1994ء نے اسرائیل سے امن معاہدے کیے تھے، لیکن وہ فلسطینی ریاست کے قیام کی یقین دہانیوں کے ساتھ تھے۔ جبکہ ابراہیمی معاہدہ اسرائیل فلسطین تنازع کے حل کے بغیر کیا گیا، جو اسے متنازعہ بناتا ہے۔
15 ستمبر 2020 ء وائٹ ہاؤس واشنگٹن ڈی سی میں اسرائیل کے وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو،متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ شیخ عبداللہ بن زاید النہیان اوربحرین کے وزیر خارجہ عبداللطیف الزیانی امریکی صدر کی ثالثی اور میزبانی میں فریقین نے ابراہیمی معاہدے پر دستخط کئے۔ بعدازاں سوڈان نے اکتوبر 2020ء اور مراکش نے دسمبر 2020ء میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کر کے اس معاہدے کا حصہ بننے کا اعلان کیا۔
ابراہیمی معاہدہ ایک سیاسی و اسٹریٹجک حکمت عملی تھی جس کے کئی مقاصد تھے۔ایران کے خلاف علاقائی اتحاد کی تشکیل، کیونکہ ایران ان تمام ممالک اور اسرائیل کے لیے مشترکہ خطرہ سمجھا جاتا ہے۔ اسرائیل کی جدید ٹیکنالوجی، صحت، زراعت، اور دفاعی صنعت سے فائدہ اٹھانے کے لیے عرب ریاستیں تیار ہوئیں۔ٹرمپ انتظامیہ چاہتی تھی کہ مشرق وسطیٰ میں امریکہ کا اثر قائم رہے اور چین و روس کے اثر کو روکا جائے۔ اسرائیل اور امارات کے درمیان براہ راست پروازیں، ویزا پالیسی میں نرمی، اور تعلیمی و سائنسی معاہدے فوری طور پر سامنے آئے۔
فلسطینی قیادت نے ان معاہدات کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ فلسطینی صدر محمود عباس نے کہایہ معاہدے فلسطینی کاز سے انحراف اور عرب لیگ کی پالیسیوں کی کھلی خلاف ورزی ہیں۔فلسطینی عوام کے مطابق جب تک آزاد فلسطینی ریاست، یروشلم بطور دارالحکومت، اور حق خود ارادیت جیسے بنیادی مطالبات تسلیم نہیں کیے جاتے، اسرائیل سے تعلقات تسلیم کرنا ان کے ساتھ غداری ہے۔
ترکی، ایران، ملائیشیا نے معاہدے کو مسترد کیا۔پاکستان نے اپنے دیرینہ مؤقف کو دُہرایا۔پاکستانی قیادت نے اس موقع پر ایک مثالی، اصولی اور جرات مندانہ مؤقف اپنایا، جو عوامی جذبات اور قائداعظم محمد علی جناح کے نظریات کا عکاس تھا۔اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان نے واضح طور پر کہاپاکستان اسرائیل کو اُس وقت تک تسلیم نہیں کرے گا جب تک فلسطینی عوام کو ان کا حق خودارادیت نہیں دیا جاتا اور آزاد ریاست قائم نہیں ہوتی۔اسی تسلسل کو موجودہ حکومت نے بھی برقرار رکھا ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری سمیت موجودہ قیادت نے فلسطین کے ساتھ کھڑے رہنے، دو ریاستی حل کی حمایت اور عرب دنیا کو فلسطینیوں کا ساتھ دینے کی تلقین جاری رکھی ہے۔پاکستان نے اقوامِ متحدہ، او آئی سی، اور دیگر عالمی پلیٹ فارمز پر فلسطینی موقف کو نہ صرف اجاگر کیا بلکہ فلسطینی عوام کی انسانی، سفارتی اور اخلاقی امداد جاری رکھنے کا اعلان بھی کیا ہے۔
ابراہیمی معاہدے نے سفارتی سطح پر تبدیلی ضرور پیدا کی ہے، لیکن اس سے مشرق وسطیٰ کا دیرینہ مسئلہ، یعنی فلسطین، حل نہیں ہو سکا۔ جب تک اسرائیل اپنے قبضے ختم نہیں کرتا، فلسطینی ریاست کو تسلیم نہیں کرتا، اور یروشلم کے مسئلے پر لچک نہیں دکھاتا، اس وقت تک یہ معاہدے ظاہری امن تو لا سکتے ہیں، پائیدار امن نہیں۔
ابراہیمی معاہدہ بلاشبہ مشرق وسطیٰ کے سیاسی منظرنامے میں ایک اہم پیش رفت ہے۔ اس نے کئی دہائیوں پر محیط جمود کو توڑا، لیکن یہ امن بغیر انصاف کے حاصل کیا گیا ہے۔ اگرچہ اسرائیل اور عرب ممالک کو اقتصادی فائدے ضرور ملے ہیں، لیکن فلسطینی مسئلہ حل کیے بغیر یہ معاہدہ ادھورا اور متنازعہ ہی رہے گا۔اس موقع پر پاکستان کا کردار اور موقف قابل ستائش ہے، جو عالمی دباؤ کے باوجود فلسطین کی حمایت میں ڈٹا ہوا ہے۔ یہی وہ اصولی سفارت کاری ہے جو پاکستان کی خارجہ پالیسی کی بنیاد ہے، اور جس پر پوری قوم کو فخر ہے۔
Ghulam Murtaza Bajwa
About the Author: Ghulam Murtaza Bajwa Read More Articles by Ghulam Murtaza Bajwa: 40 Articles with 26445 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.