ائمہٴ حرمین کے نام: اپنے اندر
امّت کا درد پیدا کریں، آپ کی اِس خاموشی کے بارے میں پوچھا جائے گا
ڈاکٹرصلاح الدين سلطان
ترجمة : اشتیاق عالم فلاحی
اے حرم کے ائمّہٴ کرام اللہ تعالیٰ نے آپ کو امّت کے دلوں میں اونچا مقام
عطا کیا ہے اور اس امّت کے دو عظیم ترین منبروں پر آپ کو جلوہ افروز کیا ہے۔
اِس جمعہ، مَیں نے کل مسجدِ حرام کا خطبہ سُنا اور مسجدِ نبوی کے بھی بہت
سے خطبات میں نے سُنے۔ میں آپ سے ایک بات کہنا چاہتا ہوں: میں اللہ ربّ
العظیم، عرشِ کریم کے مالک کے واسطے سے آپ سے گزارش کرتا ہوں کہ آپ اپنے
اندر امّت کا درد پیدا کریں۔ اس ہفتہ ہمارے سامنے دو بڑے، عظیم واقعات پیش
آئے۔ 1027 قیدی رہا ہوئے، ، صہیونیوں کو شکست ہوئی، غزہٴ ہاشم کے حماس﴿حرکة
المقاومة الاسلامی﴾ کے ہاتھوں حاصل ہونے والی اس کامیابی پر امّت کے ہر
مومنِ صادق کا دل خوشی سے لبریز ہوا۔ اور جس عظیم واقعہ نے پوری امّت کو
خوشی عطا کی، آپ نے اس کا تذکرہ بھی نہیں کیا۔ اور قذّافی مارا گیا، جس نے
سّنت کا انکار کیا تھا، جس نے داعیوں کو قتل کیا تھا، اس انقلاب میں کام
آنی والی پچاس ہزار جانیں جس کی گردن پر ہیں۔ وہ قذافی کیفرِ کردار کو
پہونچا جو خادم الحرمین کو گالی دیتا تھا، وہ قذافی جس کی موت انقلابیوں
اور پامرد مجاہدین کے ہاتھوں ہوئی، کیا یہ واقعہ اس لائق نہ تھا کہ اس
سلسلہ میں آپ ایک لفظ بولتے۔ رہی بات، قیدیوں کی، اقصیٰ اور فلسطین کی تو
اس کا تعلق تیسرے حرم اور قبلہٴ اوّل سے ہے۔ بادشاہ کے لئے آپ جس طرح دعاء
کرتے ہیں کیا اسی طرح یہ آپ کی دعاء کے مستحق نہیں ہیں۔ بادشاہ کے لئے دعاء
کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، گوکہ اس مسئلہ میں فقہی اختلاف ہے لیکن اس امر
میں کبھی بھی اختلاف نہیں رہا کہ مسجدِ اقصی کی رہائی واجب ہے، فلسطین کے
مسلمانوں کے خون کی حرمت، اور ہر مسلم کی حرمت اللہ تعالیٰ کے نزدیک کعبہ
کی حرمت سے بڑھ کر ہے جیسا کہ –صحیح میں ہے- کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلّم نے
کعبة اللہ عز وجل کے سامنے کھڑے ہو کر کہا " تو کس قدر عظیم ہے، تو کس قدر
محترم ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے نزدیک مومن کی حرمت اس سے بھی بڑھ کر ہے".
کیا آپ کے یمنی فرزند، بھائی اور یہاں کی عزّت و ناموس اس کی مستحق نہیں
ہیں کہ آپ مسجدِ حرام میں، جمعہ کے خطبہ میں ایک ایسے وقت ان کا تذکرہ کریں
جب کہ حجّاج دنیا کے دور دراز گوشے سے بیت اللہ الحرام کی طرف آرہے ہیں؟!
کیا آپ کے یمنی بھا ئی جو کہ خلیج ہی کا ایک حصّہ ہیں حق نہیں رکھتے، کیا
یہ اس بات کے مستحق نہیں کہ ان کےجہاد اور ان کی فضیلت کا آپ تذکرہ کریں؟!
کیا پامرد خاتون، توکّل کرمان، جو مہینوں سے اپنے گھر نہیں گھُسی ، جو
میدان میں ہے، یمن کے انقلاب کے میدان میں ہے، اور جس نے امن کا نوبل انعام
حاصل کیا ہے کیا اُس کا بھی حق نہیں ہے؟ کیا وہ آپ کی طرف سے عزّت و تکریم
کے دو بول کی بھی مستحق نہیں ہے؟!
کیا یہ امّت اس کی مستحق نہیں ہے کہ اسے آپ کی توجّہ، آپ کی سرپرستی، اور
آپ کی دعائیں ملیں؟!
اے ائمّہء کرام ہمیں اللہ کے سامنے پیش ہونا ہے، الَّذِينَ يُبَلِّغُونَ
رِسَالَاتِ اللَّـهِ وَيَخْشَوْنَهُ وَلَا يَخْشَوْنَ أَحَدًا إِلَّا
اللَّـهَ ﴿سورة الاحزاب﴿39 ﴾ ﴿جو اللہ کے پیغامات پہنچاتے ہیں اور اُسی سے
ڈرتے ہیں اور ایک خدا کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے،﴾، إِنَّمَا يَخْشَى
اللَّـهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ ﴿سورة فاطر من الآیة 28﴾ حقیقت یہ ہے
کہ اللہ کے بندوں میں سے صرف علم رکھنے والے لوگ ہی اُس سے ڈرتے ہیں۔ ہماری
چاہتے ہے کہ دنیا کا ہر مسلم خطبہٴ حرمین کا انتظار کرے کہ امامِ حرم کیا
فرماتے ہیں؟ ائمّہٴ حرمین کیا فرماتے ہیں؟ آپ کے سامنے امام الحرمین
الشریفین امام جویني کا اسوہ رہنا چاہئے۔ انہوں نے اپنی کتاب "غياث الأمم
في التياث الظلم" میں لکھا کہ کسی حاکم کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ اللہ کی
راہ میں جنگ کئےبغیر ایک سال گزار دے۔ انہوں نے کہا کہ اگر وہ فوج کے پیچھے
فوج روانہ کرنے کی طاقت رکھتا ہو تو اس کے لئے ایسا کرنا ضروری ہے۔ امّت کی
لٹی ہوئی سرزمین فلسطین، زمین کے مختلف علاقوں میں ظلم کی چکّی میں پستے
ہوئے فرزندانِ ملّت کے سلسلہ میں امّت کے ائمّہ، قائدین، اور سربراہان کی
کیا ذمہ داری ہوتی ہے؟ آپ کا شکریہ کہ آپ نے صومال کے حق میں دعاء کی، لیکن
یہ لوگ صرف دعاء کے منتظر نہیں ہیں۔ اگر خلیج کے بعض مالداروں کی زکاة کا
ایک حصّہ ان فاقہ زدوں اور کمزوروں تک پہونچ جائے توان کی ضرویات پوری ہو
جائیں اور وہ مالداروں کی سنگ دلی کا شکوہ نہ کریں۔
اے ائمّہٴ حرمین، اے میرے دینی بھائیوں، اے ہمارے شیوخ، اے ہمارے علماء، آپ
اس حقیقت کو یاد رکھیں کہ آپ کو اللہ کے سامنے کھڑا ہونا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ
فرماتا ہے سَتُكْتَبُ شَهَادَتُهُمْ وَيُسْأَلُونَ ﴿سورة الزخرف من الآیة
19﴾ ﴿اِن کی گواہی لکھ لی جائے گی اور انہیں اس کی جوابدہی کرنی ہو گی﴾۔
اللہ کے سامنے آپ کی اس خاموشی کی، امّت کے بہت سے مسائل کی، امّت کے زخموں
کی، امّت کے بہائے گئے خون کی، امّت کی عزّت و ناموس کی، اور امّت کے قدس
کی باز پرس ہوگی۔ ہم آپ کے منتظر ہیں کہ اللہ عز و جل کی خاطر آپ ان بڑے
معاملات میں اپنی بات کہیں۔
میں اللہ سے دست بدعا ہوں کہ وہ ہمیں اور آپ کوتقویٰ،رشد و ہدایت اور راہِ
صواب کی توفیق عطا فرمائے، ہمیں اس بات کی توفیق دے کہ ہم ظالم سطان کے
سامنے کلمہٴ حق کا اظہار کریں، اور ہم صرف اللہ کی رضا کی خاطر کلمہٴ حق
کہیں۔
ہم یہ نہیں چاہتے کہ ہماری اس گفتگو سے سعودیہ میں کوئی غیر طبعی صورتِ حال
پیدا ہو، یہ حرمین کی سرزمین ہے اور ہم اللہ سے دعاء کرتے ہیں کہ اس سرزمین
کوظاہری اورباطنی فتنوں سے محفوظ رکھے ۔ لیکن ہم یہ ضرور چاہتے ہیں کہ آپ
امّت کی قیادت اُس منزل کی طرف کریں جو اللہ کی پسندیدہ ہے، یعنی یہ امّت
شہادت دینے والی بنے، اپنے خول میں بند رہنے والی نہ بنے، یہ ایک ایسی امّت
بنے جس کا اپنا کلمہ ہو، یہ دنیا کی مختلف امّتوں کی صف میں ان کی ذیلی
امّت نہ بنے ۔۔۔ اللہ کے سامنے آپ سب مسئول ہوں گے، اس ذمہ داری کے مقام کو
آپ پہچانیں۔ اللہ تعالیٰ سے میری دعا ہے کہ وہ آپ کو اپنی پسند اور رضا کے
حصول کی توفیق دے۔ |