بسم اللہ الرحمن الرحیم
صحیح کیا ہے اور غلط کیا؟اچھا کیا ہے اور برا کیا؟ سوال یہ ہے کہ انسان اس
کا فیصلہ کیسے کرے ؟کیا جسے میں اپنی سمجھ کے مطابق ٹھیک سمجھتی ہوں وہ
صحیح ہے؟کیا وہ جو میرے ارد گرد اکثریت کر رہی ہے وہ درست ہے؟کیا غلط وہ ہے
جسے میں برا جانتی ہوں؟ کیا صحیح اور غلط کی پہچان کایہ پیمانہ ٹھیک ہے؟کیا
اسی کسوٹی پر درست اور غلط کی پرکھ کی جا سکتی ہے؟ اگر ایسا ہے تو پھر تو
کئی کام بیک وقت درست اور غلط ہو سکتے ہیں کیونکہ ایک کام مجھے ٹھیک لگتا
ہے جبکہ آپ کو غلط،میرا دل کہتا ہے اسے کر لو کوئی حرج نہیں،آپ کا دماغ
کہتا ہے نہیں یہ ٹھیک نہیں ہو رہا؟کیا بیک وقت ایک چیز ٹھیک اور غلط دونوں
ہو سکتی ہے؟
غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ ایسا نہیں ہے۔جھوٹ غلط ہی ہے چاہے بولنے والا
اسے صحیح سمجھے، چوری جرم ہی ہے چاہے چور کتنے ہی دلائل رکھتا ہو،دھوکہ
دینا نازیبا فعل ہے خواہ دھوکے باز کوکتنا ہی فائدہ ہ کیوں نہ ہو۔ برہنگی
انسان کو زیب نہیں دیتی چاہے سب ایسا کیوں نہ کرنے لگیں ۔نتیجہ یہ نکلا کہ
صحیح اور غلط کے فیصلے کا پیمانہ میرا یا آپ کا دل اور دماغ نہیں ہے بلکہ
وہ کوئی اور کسوٹی ہے جو ہمیں ٹھیک اور غلط کا فرق بتاتی ہے۔
معاملہ کوئی بھی ہو،دنیا کی عارضی زندگی ہو یا آخرت کی دائمی زندگی،غلط اور
صحیح کی پہچان کے لیے انسان کا علم،سمجھ،عقل اور شعور کافی نہیں کیونکہ ہر
انسان دوسرے سے مختلف عقل اور سمجھ رکھتا ہے۔اس کے لیے ہمیں عالمی صداقت
(universal truth) یا الہامی رہنمائی ( divine guidance)کی طرف رجوع کرنا
ہو گا۔ وہ عالمی صداقت یا الہامی رہنمائی صرف اور صرف اس ہستی کی طرف سے مل
سکتی ہے جو پوری کائنات کی خالق ہو اور اس کے ذرے ذرے سے واقف بھی،جس کا
علم کامل ہو اور جس کی نظر باریک۔ وہ مالک ہی ہمارے لیے وہ پیمانہ مقرر
کرسکتا ہے جو ہمیں صحیح اور غلط کا فرق بتاتا ہے،جو فرقان حمید کی شکل میں
رہتی دنیا کی رہنمائی کے لیے کافی و شافی قرار دیاگیا۔اللہ کی آخری کتاب
”قرآن مجید“ جس کے عجائبات نہ ختم ہونے والے ہیں۔
میں جب کسی مسلمان کو اس پیمانے کے برعکس کوئی کام کرتے اور اس کے صحیح
ہونے پر اصرار کرتے دیکھتی ہوں تو میری حیرانگی کی انتہا نہیں رہتی۔اس کا
مطلب یہ نہیں کہ مسلمان سے غلطی نہیں ہو سکتی یا وہ غلط نہیں کر سکتا۔
بالکل کر سکتا ہے مگر وہ غلط کے ٹھیک ہونے پر اصرار نہیں کر سکتا،وہ غلط
کرتے ہوئے تاویل کر کے اسے اپنے لیے جائز نہیں قرار دیتا،وہ غلطی کرتا ہے
تو احساس جرم بھی رکھتا ہے،وہ عالمی صداقت کے خلاف چلتا ہے تو بے چین ہوتا
ہے،وہ الہامی رہنمائی سے منہ موڑتا ہے تو ندامت محسوس کرتا ہے ۔وہ ڈنکے کی
چوٹ پر غلط کام نہیں کرتا،وہ خرابی کر کے اسے اصلاح کا نام نہیں دیتا،وہ
برائی کر کے تکبر نہیں کرتا،وہ اپنی من مانیوں کو اللہ کی مرضی کا لبادہ
نہیں اوڑھاتا،وہ کھلی نافرمانیوں کا مرتکب ہو کر اپنے پیدا کرنے والے سے
باغی نہیں ہوتا۔وہ خطا کرتا ہے تو سرتاپا شرمندہ ہوتا ہے،پشیمانی کا احساس
اسے استغفار کی طرف راغب کرتا ہے ۔ وہ اپنی غلطی پر توبہ کرتا ہے، اللہ سے
بخشش کی التجا کرتا ہے اور آئندہ کے لیے اپنے آپ کو ٹھیک رکھنے کا عزم کرتا
ہے۔
آیئے اپنی زندگیوں پر غور کریں اورجہاں جہاں ہم غلط فہمیوں میں مبتلا ہو کر
صحیح کو غلط اور غلط کو صحیح سمجھ رہے ہیں اس کا جائزہ اللہ کی طرف سے
بھیجی گئی الہامی رہنمائی کی روشنی میں لیں اور صرف صحیح کو صحیح اور صرف
غلط کو غلط سمجھیں۔
اَللَّھُمَّ اَرِنَا الحَقَّ حَقًا وَارزُقنَا اتِّبَاعَہُ وَاَرِنَا
البَاطِلَ بَاطِلاً وَارزُقنَااجتِنَابَہُ ٭
”اے اللہ! مجھے حق کو حق دکھا اور اس کی پیرو ی کی توفیق عطا فرما اور باطل
کو باطل دکھا اور اس سے بچنے کی توفیق عطا فرما۔“ آمین یا رب العالمین
٭ دعا کی سند کمزور ہے البتہ معنی کے اعتبار سے صحیح ہے۔ |