سیاسی عدم برداشت اور تشدد کا کلچر: ریاستی بقا کے لیے لمحۂ فکریہ

سیاسی عدم برداشت اور تشدد کا کلچر: ریاستی بقا کے لیے لمحۂ فکریہ
پاکستان ایک ایسے دوراہے پر آن کھڑا ہوا ہے جہاں ریاست کی سالمیت، جمہوری تسلسل اور معاشرتی ہم آہنگی تینوں یکساں طور پر خطرے میں نظر آ رہے ہیں۔ موجودہ سیاسی منظر نامہ محض اختلاف رائے کی حدود سے نکل کر باقاعدہ نفرت، ذاتی دشمنی، ادارہ شکنی اور پرتشدد رجحانات کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ وہ معاشرہ جو کبھی رواداری، مکالمہ، اور اعتدال پسندی کا دعوے دار تھا، آج ایک ایسی کیفیت میں مبتلا ہو چکا ہے جہاں اختلاف جرم، تنقید غداری، اور خاموشی بزدلی تصور کی جاتی ہے۔
جب سیاست میں اصولوں اور نظریات کی جگہ شخصیات اور تعصبات لے لیں، جب سیاسی جماعتیں اصلاحات کی بجائے انتقام کے ایجنڈے پر کام کریں، اور جب عوامی خدمت کا جذبہ صرف اقتدار کے حصول تک محدود ہو جائے، تو ایسے ماحول میں ریاستی ادارے بھی غیر جانب دار نہیں رہ پاتے۔ سچ یہ ہے کہ ہم نے اپنے اجتماعی رویوں سے ایک ایسا معاشرہ تشکیل دے دیا ہے جو نہ صرف اندر سے کھوکھلا ہوتا جا رہا ہے بلکہ بین الاقوامی سطح پر اپنی وقعت بھی کھو چکا ہے۔
بین الاقوامی دنیا میں آج کسی ملک کی عزت اور وقار کا انحصار صرف اس کی فوجی یا معاشی طاقت پر نہیں بلکہ اس کی سیاسی پختگی، قانون کی بالادستی، اور جمہوری روایات کے تسلسل پر ہے۔ جب کسی ملک میں منتخب نمائندے خود پارلیمان کا احترام نہ کریں، جب عدالتیں ہر روز سیاسی مقدمات کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہوں، جب میڈیا حقائق کی بجائے ریٹنگ کی غلامی کرے، اور جب عوام اپنے بنیادی مسائل کے بجائے سیاسی تماشوں میں الجھے ہوں، تو وہ ملک بین الاقوامی برادری میں تنہا ہو جاتا ہے۔ پاکستان کے ساتھ بھی یہی کچھ ہو رہا ہے۔ کبھی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر سوالات اٹھتے ہیں، کبھی عدالتی فیصلوں پر بین الاقوامی تنقید ہوتی ہے، اور کبھی سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے مالیاتی ادارے شرائط سخت کرتے ہیں۔ یہ سب کچھ اتفاقاً نہیں ہو رہا، بلکہ یہ اسی سیاسی بگاڑ کا نتیجہ ہے جسے ہم برسوں سے مسلسل نظرانداز کرتے آئے ہیں۔
اندرونی سطح پر حالات مزید دگرگوں ہیں۔ سیاست اب قومی خدمت نہیں بلکہ ذاتی مفاد اور طاقت کے حصول کا ذریعہ بن چکی ہے۔ گلی محلوں تک سیاسی تقسیم اس حد تک جا پہنچی ہے کہ خاندان، دوست، اور محلے دار ایک دوسرے سے کٹ چکے ہیں۔ نوجوان نسل، جو کسی بھی قوم کا سب سے قیمتی اثاثہ ہوتی ہے، وہ اب یا تو مایوسی اور لاتعلقی کا شکار ہے یا شدت پسندی اور جذباتی اندھی کا۔ سیاسی رہنماؤں کے لب و لہجے نے ایک ایسا ماحول پیدا کر دیا ہے جہاں دلیل کو کمزوری، اور گالی کو قیادت سمجھا جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر بڑھتی ہوئی بدتہذیبی، جعلی خبروں کی یلغار، اور مخالفین کو نیچا دکھانے کی ہوڑ نے سیاسی شعور کو زہر آلود کر دیا ہے۔
اس ساری صورتحال میں سب سے بڑا نقصان اخلاقی اقدار اور ادارہ جاتی ساکھ کو ہوا ہے۔ وہ ادارے جو کسی بھی ریاست کے ستون ہوا کرتے ہیں، آج خود الزامات، دباؤ اور بے یقینی کی فضا میں کام کر رہے ہیں۔ عدلیہ، افواج، پارلیمنٹ، اور انتظامیہ — سب کو سیاسی کشمکش کا حصہ بنا دیا گیا ہے۔ جب ادارے متنازعہ ہو جائیں اور قانون صرف مخصوص طبقات کے لیے ہو، تو پھر انصاف کا تصور صرف کتابوں تک محدود رہ جاتا ہے۔ ایسے حالات میں صرف سیاسی نقصان نہیں ہوتا، بلکہ ریاستی وجود کمزور ہوتا ہے۔
یہ المیہ ایک دن یا ایک حکومت کی پیداوار نہیں بلکہ برسوں پر محیط اجتماعی غفلت، ادارہ جاتی کمزوری، اور غیر جمہوری مزاج کا نتیجہ ہے۔ ہر حکومت نے اپنی باری پر آئین کی من مانی تشریحات کیں، ہر اپوزیشن نے ریاستی اداروں کو مشکوک بنایا، اور ہر سیاسی جماعت نے اقتدار کے لیے اصولوں کی قربانی دی۔ جب ہر عمل کا جواب ردعمل میں دیا جائے گا، تو نہ سیاسی ماحول بہتر ہو گا اور نہ جمہوری نظام مستحکم۔ نتیجہ وہی ہو گا جو آج ہمارے سامنے ہے: بکھرا ہوا سیاسی نظام، مایوس عوام، غیر یقینی معیشت، اور عالمی تنہائی۔
ان حالات کا اگر سنجیدگی سے جائزہ لیا جائے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ وقت اب بھی باقی ہے۔ مگر اس وقت کا درست استعمال تبھی ممکن ہے جب ہم سیاسی مصلحتوں سے بلند ہو کر قومی مفاد کو اولیت دیں۔ ضروری ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں ایک وسیع البنیاد قومی مکالمہ شروع کریں جس میں نہ صرف انتخابی اصلاحات، بلکہ عدالتی آزادی، میڈیا کے کردار، اور تعلیمی نصاب میں برداشت اور مکالمے کی شمولیت جیسے بنیادی معاملات پر اتفاق رائے پیدا کیا جائے۔ سیاستدانوں کو یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ ملک صرف اقتدار کے زور پر نہیں، بلکہ اتفاق، عدل، اور قانون کی عمل داری سے چلتا ہے۔
میڈیا کو بھی اپنا کردار ازسر نو طے کرنا ہو گا۔ اسے سنسنی، تعصب اور ریٹنگ کی دوڑ سے نکل کر عوامی شعور کی تربیت میں حصہ لینا ہو گا۔ عدلیہ کو مکمل آزادی کے ساتھ غیر جانبدار فیصلے کرنا ہوں گے، اور ریاستی اداروں کو اپنے آئینی دائرے میں رہ کر کام کرنا ہو گا تاکہ ادارہ جاتی توازن بحال ہو۔ سب سے بڑھ کر، تعلیمی اداروں میں ایسی نسل تیار کی جائے جو جذبات کی بجائے عقل، اور نفرت کی بجائے شعور کو اپنائے۔
اگر ہم نے اب بھی ہوش کے ناخن نہ لیے اور حالات کو معمول سمجھتے ہوئے ان کی سنگینی کو نظرانداز کیا، تو آنے والے سالوں میں ہم صرف ایک تقسیم شدہ، بدحال اور بے سمت قوم کے طور پر باقی رہ جائیں گے۔ پاکستان کی بقا، ترقی اور استحکام اسی وقت ممکن ہے جب سیاست کو عبادت، اختلاف کو رحمت، اور مکالمے کو طاقت سمجھا جائے۔ بصورت دیگر تاریخ ہمیں صرف ایک موقع ضائع کرنے والی قوم کے طور پر یاد رکھے گی۔

 

Zia Ullah Khan
About the Author: Zia Ullah Khan Read More Articles by Zia Ullah Khan: 55 Articles with 57684 views https://www.facebook.com/ziaeqalam1
[email protected]
www.twitter.com/ziaeqalam
www.instagram.com/ziaeqalam
ziaeqalam.blogspot.com
.. View More