رب تعالیٰ سے عافیت مانگیں
(محمد یوسف میاں برکاتی, کراچی)
رب تعالیٰ سے عافیت مانگیں
محمد یوسف میاں برکاتی
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں کو میرا آداب سب سے پہلے ہم لفظ عافیت کے معنی جان لیتے ہیں عافیت کے معنی سلامتی ، بھلائی اور تحفظ وغیرہ کے ہیں عافیت ایک ایسا جامع لفظ ہے جس میں ہر قسم کی ظاہری، باطنی، دنیوی و اخروی آفات و بلیات اور مکروہات و مصائب سے پناہ، نیز دین و دنیا کی تمام بھلائیوں کی طلب و استدعا موجود ہے عافیت کے دس حصے ہیں: نو حصے خاموشی اور ایک لوگوں سے کنارہ کش رہنا! امام اوزاعی رحمتہ اللہ علیہ [صفة الصفوة(2/405)] یہ قول آپ کا مسند الفردوس کی ایک حدیث سے مطابقت پر ہے حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ " عبادت کے دس حصے ہیں جس میں نو حصے خاموشی کے ہیں اور ایک حصہ لوگوں سے دور بھاگنے کے ہیں " میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں امام احمد بن حنبل رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے حفظ قرآن کر لیا اور طلبِ حدیث میں مشغول ہوا تو خداوند کریم سے سوال کیا کہ وہ حفظ حدیث کی بھی توفیق عطا فرمائے لیکن میں یہ کہنا بھول گیا کہ کہ عافیت کے ساتھ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ میں نے حدیث حفظ تو کی مگر قید و بند کی صعوبتوں میں اس لیے جب تم خدا سے کوئی حاجت مانگو تو ساتھ کہا کرو: خیر و عافیت کے ساتھ۔ (مناقب الإمام أحمد لابن الجوزي، ٣٩) ترجمانی: طاہر اسلام عسکری۔ یہ ایک بہت ہی اہم بات ہے۔ بعض اوقات ہم جو کچھ دعاؤں میں مانگتے ہیں وہ ہر طرح سے جائز ہوتے ہوئے بھی اس میں ہمارے لیے شر چھپا ہوتا ہے جو تب ہی اپنا آپ ظاہر کرتا ہے جب وہ ہمارا نصیب بن جاتا ہے۔ اس لیے دعا میں ہمیشہ جائز چیز مانگیے۔ خوب خوب مانگیے لیکن ساتھ اللہ سے یہ دعا بھی کیا کریں کہ اگر اس میں آپ کے لیے کوئی شر چھپا ہو تو اللہ اپنے فضل و کرم سے اسے آپ کے لیے خیر و عافیت میں بدل دے۔ اس بات کو اپنی ہر دعا کا لازم حصہ بنا لیجیے۔ میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کی پوری زندگی عافیت مانگتے ہوئے گزری اور آپ اگر سیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کا مطالعہ کریں تو آپ کو حضور ﷺ کے ہر عمل میں عافیت اندیشی نمایاں نظر آئے گی آپ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم ہر وقت ہر کسی کو یہ ارشاد فرمایا کرتے تھے کہ عافیت مانگا کرو سنن ابوداؤد کی ایک حدیث میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم صبح و شام یہ دعائیں ترک نہ فرماتے تھے : اَللّٰهُمَّ اِنِّي اَسْاَلُكَ الْعَافِيَةَ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ، اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْعَفْوَ وَالْعَافِيَةَ فِي دِينِي وَدُنْيَايَ وَاَهْلِي وَمَالِي ، اَللّٰهُمَّ اسْتُرْ عَوْرَتِي یعنی اے میرے اللہ ! میں تجھ سے دنیا و آخرت میں عافیت طلب کرتا ہوں ، اے میرے اللہ ! میں تجھ سے درگزر اور اپنے دین و دنیا اور اہل و مال میں عافیت کا سوال کرتا ہوں۔ اے میرے اللہ ! میرے پردے کی حفاظت فرما۔ ( سنن ابوداؤد 5074) اسی طرح ترمذی شریف کی ایک حدیث کے مطابق حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا: اللہ کے رسول! مجھے کوئی ایسی چیز سکھائیے جسے میں اللہ رب العزت سے مانگتا رہوں، آپ نے فرمایا: ”اللہ سے عافیت مانگو“، پھر کچھ دن رک کر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا اور عرض کیا: مجھے کوئی ایسی چیز بتائیے جسے میں اللہ سے مانگتا رہوں، آپ نے فرمایا: ”اے عباس! اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا! دنیا و آخرت میں عافیت طلب کرو“۔ ( امام ترمذی 3514) اسی طرح ترمذی شریف کی ایک اور حدیث میں حضرت انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اذان اور اقامت کے درمیان مانگی جانے والی دعا لوٹائی نہیں جاتی“، (یعنی قبول ہو جاتی ہے) لوگوں نے پوچھا: اس دوران ہم کون سی دعا مانگیں، اے اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: ”دنیا اور آخرت (دونوں) میں عافیت مانگو“۔ میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ان تمام احادیث مبارکہ ، حضرت امام احمد بن حنبل علیہ الرحمہ کے قول اور امام اوزاعی علیہ الرحمہ کے قول سے یہ ثابت ہوا کہ ایک اہل ایمان مسلمان کے لیئے اس دنیاوی عارضی زندگی میں اور بروز محشر کے لیئے ایمان کے بعد سب سے زیادہ اہمیت عافیت کی ہے اور اسی لیئے یہ تلقین کی گئی کہ جتنا ہوسکے اپنے اور اپنے مال و دولت اور اہل وعیال کے لیئے عافیت مانگنا چاہئے اور اگر بغیر کسی تکلیف یا پریشانی کے ساتھ عافیت والی زندگی گزرتی ہوئی محسوس ہوتی ہے تو اس رب تعالی کا شکر ادا کریں کہ یااللہ مجھے اسی خیر و عافیت کے ساتھ زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرما ۔ میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں یہاں ہم ایک واقعہ پڑھنے کی سعادت کرتے ہیں ایک بوڑھی عورت نے اپنے آپ کو مصروف رکھنے کے لیئے ایک بلی کو خرید کر پالا بلی بہت تیز اور شرارتی تھی اور وہ اس بڑھیا کو تنگ بھی بہت کرتی تھی پھر مجبور ہوکر اس نے اس کے لیئے ایک مخصوص جگہ کا بندو بست کیا اور بلی کو وہیں پر کھانا پینا دیتی تھی بلی کو وہیں پر سونا پڑتا تھا اور وہ کہیں آنا جانا نہیں کرسکتی تھی چند روز تو اس طرح گزر گئے لیکن پھر بلی اس پابندی سے پریشان ہوگئی اور وہ موقع کی تلاش میں رہتی کہ وہ یہاں سے بھاگ جائے پھر یوں ایک دن اسے موقع ملا اور وہ چپکے سے اس گھر سے نکل گئی ۔ میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں بلی جب اس بڑھیا کے گھر سے نکلی تو برابر والے گھر کا دروازہ کھلا دیکھا اور وہیں جانا مناسب سمجھا لہذہ وہ اس گھر میں داخل ہوگئی اس گھر میں ایک اور بوڑھی عورت رہتی تھی اس نے بلی کو جیسے ہی دیکھا تو فوراً وہیں پر پڑا ہوا ڈنڈا اٹھایا اور بلی کے پیچھے دوڑی چونکہ وہ بلی ایک پالتو بلی تھی اور پچھلی بڑھیا نے اسے کبھی مارا نہیں تھا اس لیئے یہ اس کے لیئے ایک نئی بات تھی لہذہ وہ بچاری مار کھاتی رہی اور جب زخموں سے چور ہوگئی تو وہاں سے بھاگی اور واپس اپنے پرانے ٹھکانے پر جا کر بیٹھ گئی اور اللہ تعالی سے معافی مانگنے لگی کہ یااللہ مجھے معاف کردے میں یہاں عافیت سے تھی مجھے وقت پر کھانا اور وقت پر سونا مل جاتا تھا لیکن میں نے لالچ کی اور یہاں سے بھاگی میں جس حال میں بھی ہوں یہاں ٹھیک ہوں مجھے عافیت والی ہی زندگی عطا فرما ۔ میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس واقعہ سے یہ معلوم ہوا کہ اگر اللہ تعالیٰ نے آپ کو آپ کے حساب سے ایک اچھی اور عافیت والی زندگی عطا کی ہے تو اس پر صبر کرکے اس کا شکر ادا کریں اور اسی میں خوش رہنے کی کوشش کریں نہ کہ زندگی کو مزید بہتر بنانے کی کوشش میں لالچ کر بیٹھیں اور خیرو عافیت والی زندگی کو پریشانی میں مبتلا کرلیں اسی لیئے کہا گیا کہ جب بھی کسی کو پریشانی ، مصیبت اور تکلیف میں دیکھیں تو اللہ تعالیٰ سے یہ ہی دعا کریں کہ یااللہ اس شخص کو جو پریشانی ہے وہ یا تو یہ جانتا ہے یا پھر تجھے معلوم ہے لیکن مجھے اس پریشانی سے تو نے عافیت بخشی ہے تیرا کرم ہے تیرا شکر ہے اور اپنی حکمت کے پیش نظر اس پریشان شخص کو بھی اس پریشانی سے نجات دیکر عافیت والی زندگی عطا فرمادے ۔ میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اسی لیئے تاریخ اسلام میں جگہ جگہ پر ہمیں ہمارے اسلاف کی طرف سے بھی اور حضور ﷺ کی طرف سے احادیث مبارکہ میں بھی یہ تلقین کی گئی ہے کہ اپنی ہر دعا میں رب تعالیٰ سے عافیت مانگنے کی عادت بنالیجیئے بغیر عافیت مانگی ہوئی دعائیں قبول تو ہوجاتی ہیں لیکن جب وہ دعائیں قبولیت کے درجے تک پہنچتے ہوئے آپ کو محسوس ہوں گی تو یقینی طور پر آپ کو کچھ کمی سی محسوس ہوگی آپ کو لگے گا کہ کہیں نہ کہیں دعا مانگتے وقت آپ سے کوئی غلطی ہوگئی ہے کچھ رہ گیا ہے کچھ چھوٹ گیا ہے ۔ میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں عافیت سے بڑھ کر کوئی نعمت نہیں ترمذی اور ابن ماجہ کی ایک حدیث جس میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: میں نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس منبر رسول صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم پر فرماتے ہوئے سنا : میں نے پچھلے سال آج ہی کے دن رسول صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم اللہ کو فرماتے ہوئے سنا، پھر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ رُکے اور رونے لگے۔ پھر فرمایا: میں نے رسول صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم اللہ کو فرماتے ہوئے سنا: نہیں عطا کی گئی کلمۂ اخلاص کے بعد کوئی شے جو عافیت کے مثل ہو۔ پس اللہ سے عافیت کا سوال کرو بس ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ جب ہم ہر کوئی آزمائش آجائے تو ہم صبر نہیں کرتے پریشانی یا مصیبت نازل ہو جائے تو شکوہ شکایت کرنے لگتے ہیں اور اگر اللہ ہمیں صحت وتندرستی اور عافیت والی زندگی عطا کرتا ہے تو اس رب کا شکر ادا نہیں کرتے اور پھر کہتے ہیں کہ ہماری دعائیں قبول نہیں ہوتی ۔ میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں میں نے پہلے بھی لکھا ہے کہ ہمارے اسلاف کی زندگیاں آزمائشوں سے بھری ہوئی تھی لیکن صبر میں استقامت تھا پریشانیوں میں مبتلا تھیں لیکن شکوہ شکایت زباں پر نہیں رہا اور جب عافیت کے ساتھ زندگی گزرتی تو اس عافیت پر اپنے رب کا شکر ادا کرتے تھے اور رب تعالی پھر اپنے ان محبوب اور مقرب بندوں کی زباں سے نکلنے والی ہر دعا کو نہ صرف قبولیت کا درجہ عطا فرماتا بلکہ ان کی سوچ سے پہلے وہ شہہ حاضر ہوجاتی یہ ہی ہے ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی رضا میں راضی رہنے اور رب تعالی پر مکمل بھروسہ کرنے کا انعام کیونکہ جب اللہ تعالیٰ کسی سبب انشان پر کوئی پریشانی نازل فرماتا ہے اسے کسی مصیبت میں مبتلا کردیتا ہے اور وہ شخص اس پر صبر اور شکر کا دامن اپنے ہاتھ سے نہیں چھوڑتا تو اللہ تعالیٰ اس کے اس عمل کی بدولت اس کو عافیت بخش دیتا ہے ۔ میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس سلسلے میں ایک بہت معروف واقعہ یہاں تحریر کرنے کی سعادت حاصل کروں گا جس کا تعلق ہمارے خلیفہ چہارم داماد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم اور جگر گوشہ رسول صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم حضرت بی بی فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے ہے کہ ایک دفعہ حضرت بی بی فاطمتہ الزہراء رضی اللہ تعالیٰ علیہا نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے عرض کیا کہ آج میرا انار کھانے کا دل چاہ رہا ہے اس وقت حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم پریشان ہوگئے کیونکہ اس وقت آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس درہم نہیں تھے پھر ایک درہم کسی سے قرض لیا اور اس ایک درہم سے ایک انار خرید کر گھر کی طرف چل دیئے راستے میں ایک بیمار شخص نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو روکا اور عرض کیا کہ میں پانچ دن سے یہاں پر بھوکا ہوں لیکن میری طرف کوئی توجہ نہیں دے رہا ۔ میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے فرمایا کہ تو کیا چاہتا ہے تو اس نے عرض کیا کہ میرا انار کھانے کو دل کررہا ہے تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سوچا کہ میرے پاس ایک ہی انار ہے اگر اس کو دےدیا تو حضرت فاطمتہ الزہراء رضی اللہ تعالیٰ عنہا محروم رہ جائیں گی اور اگر اس کو نہ دیا تو قرآن کی خلاف ورزی ہوگی کہ اللہ تعالیٰ نے سورہ الضہی کی آیت 10 میں ارشاد فرمایا کہ وَ اَمَّا السَّآىٕلَ فَلَا تَنْهَرْ 10 اورکسی بھی صورت مانگنے والے کو نہ جھڑکو۔ اور حضور ﷺ کا فرمان بھی آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یاد آگیا کہ اگر سائل گھوڑے پر سوار ہوکر بھی آئے تو اسے واپس نہ بھیجو لہذہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انار کو توڑ کر اس بیمار شخص کو کھلایا جیسے ہی وہ انار کھا چکا تو اسے اپنی طبیعت ٹھیک محسوس ہونے لگی اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم گھر کی طرف چل دیئے جب دروازے پر پہنچے تو بڑے شرمسار ہوکر گھر میں داخل ہوئے لیکن حضرت فاطمتہ الزہراء رضی اللہ تعالیٰ عنہا آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیکھ کر گلے لگ گئیں اور فرمایا انار کھا کر جیسے ہی اس بیمار شخص کی طبیعت ٹھیک ہوگئی ویسے ہی میرے رب تعالیٰ نے مجھے بھی ٹھیک کردیا اور اس بیمار شخص نے جیسے ہی انار کھایا میرا دل بھی انار کی چاہت سے بھر گیا حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم یہ بات سن کر خوش ہوگئے ۔ میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اچھی حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم اور بی بی فاطمتہ الزہراء باتوں میں مصروف تھے کہ دروازے پر دستک ہوئی حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے پوچھا کون ہے ؟ تو آواز آئی کہ میں ہوں سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ دروازہ کھولا تو حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ میں ایک تھال تھا جس کو رومال سے ڈھانپا گیا تھا حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وہ تھال ان کے پاس رکھا تو حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے فرمایا کہ یہ کہاں سے لائے ہو ؟ تو فرمایا کہ یہ تھال اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضور ﷺ کے پاس آیا تھا اور انہوں نے یہ تھال آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لیئے بھجوایا ہے حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے جب رومال ہٹایا تو اس میں 9 انار تھے تو حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے فرمایا کہ یہ میرے لیئے نہیں ہیں اگر یہ میرے لیئے ہوتے تو 10 ہوتے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایک نیکی کرنے والے کو دس نیکیوں کا بدلہ ملتا ہے یہ سن کر حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسکرائے اور اپنی آستین سے ایک انار نکال کر حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کو دیا اور عرض کیا کہ میں تو آپ کو آزما رہا تھا ۔ میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس سچے اور حقیقی واقعہ سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ سخت پریشانی اور تکلیف میں بھی اللہ تعالیٰ کے احکامات کی پیروی کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ کس طرح عافیت کی زندگی بطور انعام بطور نعمت عطا فرماتا ہے اور ان کی خواہش کی تکمیل وہاں سے پوری کرتا ہے جہاں سے انہیں گمان بھی نہ ہو اسی لیئے کہا گیا کہ اللہ تعالیٰ پریشانی اور تکلیف میں صبر کرنے والوں کو کبھی خالی نہیں چھوڑتا انہیں ان کے اس صبر اور شکر کے عیوض عافیت جیسی بڑی نعمت سے نوازدیتا ہے اور اسی لیئے آزمائش ہو یا پریشانی تکلیف ہو یا مصیبت اللہ تعالیٰ صرف اپنے خاص برگزیدہ اور مقرب بندوں کو ہی ان میں مبتلا فرماتا ہے تاکہ جب وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پہنچے تو ان کے درجات بلند ہوں گناہوں سے ایسے پاک ہوں جیسے ابھی ماں کے پیٹ سے دنیا میں آئے ہوں اور اللہ تعالی ان سے راضی ہو۔ میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اسی لیئے کہتے ہیں کہ ہمیں تاریخ اسلام کا مطالعہ کرتے رہنا چاہئے کیونکہ ہمارے انبیاء کرام ہمارے صحابہ کرام ہمارے تابعی بزرگان دین ہمارے اولیاء کرام اور ہمارے بزرگان دین کی زندگیاں ہمارے لیئے مشعل راہ ہیں اور یہ ہمارے علماء اور فقہاء کا ہم پر احسان عظیم ہے کہ انہوں نے ایسے واقعات اپنی تحریروں کے ذریعے لکھ کر ہمارے لیئے اور ہماری قیامت تک آنے والی نسلوں کے لیئے ایک قیمتی خزانے کی طرح ہمارے لیئے رکھی ہوئی ہیں بس شرط یہ ہے کہ ہم ان خزانوں سے قیمتی اور زندگی کو صحیح راستے پر لیجانے والے موتیوں کا اپنے لیئے انتخاب کریں اور انہیں اپنی عملی زندگی میں اپنانے کی کوشش کریں تاکہ ہم بھی آزمائش اور پریشانی میں صبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے عافیت والی دنیا و آخرت کی زندگی بطور نعمت حاصل کر سکیں ۔ میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اگر ہمیں دنیاوی عارضی زندگی میں کامیابی اور دعائوں میں عافیت کی قبولیت درکار ہے تو اس کا واحد راستہ اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنا اور اس کے حبیب کریمﷺ کی سیرت پر عمل کرنے سے ہے کیونکہ ایک کامیاب اور اللہ تعالی کو راضی کرنے اور راضی رکھنے کے تمام تر طریقے ہمیں حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کی احادیث مبارکہ سے مل جاتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے زندگی کے ہر ہر قدم کی رہنمائی ہم یعنی اپنے امت کو عملی طور پر کرکے بتائی اور اس کے لیئے ہمیں احادیث مبارکہ کا مطالعہ کرنا ہوگا جس طرح ہم دنیاوی کامیابی کے حصول کے لیئے کیا کیا کرنے کو تیار رہتے ہیں لیکن حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کے بتائے ہوئے راستے ہمیں نہ صرف دنیا کی زندگی بلکہ آخرت کی زندگی کے لیئے بھی کامیابی کی ضمانت ہیں اور حضور ﷺ کی کئی احادیث مبارکہ میں بار بار ہمیں تلقین کی گئی ہے کہ اللہ رب العزت سے اپنی دعاؤں میں عافیت مانگیں اور اس کی عادت بنالیں عافیت ہے تو سب کچھ ہے ورنہ کچھ بھی نہیں اللہ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں دنیا و آخرت میں صحت وتندرستی اور عافیت والی زندگی عطا فرمائے مجھے سچ لکھنے ہم سب کو پڑھنے سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین آمین بجاالنبی الکریم صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم مجھے دعاؤں میں خاص طور پر یاد رکھئے گا ۔ |
|