منفی سوچ
(Dilpazir Ahmed, Rawalpindi)
ہماری روزمرہ زندگی میں بہت سی ناکامیاں اور رشتوں کی شکست و ریخت ایسی ہوتی ہیں، جن کا ذمہ دار کوئی اور نہیں، خود ہم ہوتے ہیں۔ ہماری "ضد"، "انا پرستی" اور "منفی سوچ" وہ خاموش دشمن ہیں، جو ہمارے عزائم، خواب اور صلاحیتوں کو بے دردی سے نگل جاتے ہیں۔ یہ بات صرف اخلاقی نصیحت نہیں، بلکہ تاریخ اور حالیہ زندگی کی حقیقت بھی ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ حقیقی زندگی میں یہ عوامل کیسے انسان کو بربادی کی طرف لے جاتے ہیں۔ ضد — فیصلہ کن تباہی کا پہلا قدم ضد وہ رویہ ہے جو انسان کو حقائق سے آنکھیں بند کرنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ چاہے سب کچھ تباہ ہو جائے، مگر ضدی انسان اپنی بات سے پیچھے نہیں ہٹتا۔ مثال پاکستانی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان شاہد آفریدی کے کئی ادوار میں ضد نے ٹیم کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ ورلڈ کپ 2011 کے بعد اُنہوں نے کھلاڑیوں کے ساتھ ضد کی بنیاد پر اختلافات بڑھائے، خود فیصلے کیے، اور ٹیم کی باہمی ہم آہنگی ختم کر دی۔ نتیجتاً وہ نہ صرف کپتانی سے محروم ہوئے بلکہ ٹیم کے اندرونی تنازعات کا شکار ہو گئے۔ انا پرستی — خودفریبی کی بلند دیوار انا پرستی وہ بیماری ہے جس میں انسان اپنے آپ کو سب سے برتر سمجھتا ہے اور دوسروں کی رائے کو اپنے وقار کے خلاف مانتا ہے۔ مثال پاکستانی سیاستدان چوہدری شجاعت حسین کی مثال لیجیے۔ اُن کی جماعت مسلم لیگ (ق) نے 2008 کے بعد مسلم لیگ (ن) کے ساتھ اتحاد کے کئی مواقع گنوائے، محض اس لیے کہ قیادت پر سمجھوتہ ان کی انا کو گوارا نہ تھا۔ نتیجتاً پارٹی تنزلی کا شکار ہوئی اور آج صرف علامتی حیثیت رکھتی ہے۔
قابل غور "انا وہ پردہ ہے جو سچائی کو چھپا دیتا ہے۔" "جھکنے والے پہاڑ بھی عبور کر لیتے ہیں، اَڑنے والے راستے کھو بیٹھتے ہیں۔" منفی سوچ — کامیابی کی راہ کا کانٹا منفی سوچ وہ نظریہ ہے جو ہر موقع میں خطرہ دیکھتا ہے، ہر امید میں ناکامی اور ہر تبدیلی میں بگاڑ۔ مثال مشہور بھارتی مصنفہ ارُندھتی رائے نے 1990 کی دہائی میں جب ناول "The God of Small Things" پر کام شروع کیا تو اُنہیں ہر طرف سے یہ کہا گیا کہ لوگ ایسے منفرد اسلوب کو نہیں سمجھیں گے۔ اُنہیں بارہا مایوسی کی خبریں سنائی گئیں۔ مگر اُنہوں نے منفی سوچ کو پسِ پشت ڈال کر تخلیقی سفر جاری رکھا، اور نتیجتاً اُنہیں بُکر پرائز ملا۔ دوسری طرف، پاکستان میں بے شمار باصلاحیت نوجوان صرف اس لیے میدان سے باہر ہو گئے کہ اُنہیں بچپن سے ہی یہ سکھایا گیا کہ "یہ نظام تمہیں کچھ نہیں دے گا"۔
قابل غور "مایوس انسان وہ ہوتا ہے جس نے ہارنے سے پہلے کوشش چھوڑ دی ہو۔" "مثبت سوچ نہ صرف راستہ دکھاتی ہے بلکہ منزل کا دروازہ بھی کھولتی ہے۔"
خود احتسابی کا عمل شروع کریں ہر روز خود سے پوچھیں، کیا میرے فیصلے میں ضد یا انا شامل ہے؟ کیا میں صرف منفی پہلو سوچ کر پیچھے ہٹ رہا ہوں؟ مشورے کو دل سے سنیں قائداعظم محمد علی جناح جیسا عظیم لیڈر بھی اپنی کابینہ سے مشورہ لیتا تھا، تو ہم کیوں نہ سیکھیں؟ معافی کو عظمت سمجھیں برطانیہ کی ملکہ الزبتھ دوم نے اپنی ایک تقریر میں شہزادی ڈیانا کے معاملے پر عوام سے معذرت کی، حالانکہ وہ دنیا کی سب سے طاقتور خاتون تھیں۔ یہ معافی نہیں، بلکہ حکمت اور عاجزی کی مثال تھی۔ مثبت لوگوں سے تعلق رکھیں نیلسن منڈیلا، جنہوں نے تنقید، مایوسی اور مخالفت کے ماحول میں بھی مثبت سوچ کو نہیں چھوڑا۔ قابل غور ضد، انا اور منفی سوچ انسان کو صرف اندر سے کھوکھلا نہیں کرتیں، بلکہ اُس کی صلاحیتوں، خوابوں، اور رشتوں کو بھی دیمک کی طرح چاٹ جاتی ہیں۔ کامیابی اُس شخص کی ہم سفر بنتی ہے جو اپنی ضد کو دلیل سے بدلتا ہے، انا کو عاجزی سے توڑتا ہے، اور مایوسی کو امید سے بدل دیتا ہے۔ قرآن کا فرمان ہے "اللہ تکبر کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا" نبی کریم ﷺ نے فرمایا "مایوسی کفر ہے، اور عاجزی عظمت کی نشانی" آئیے — ہم خود سے یہ عہد کریں کہ ضد، انا اور منفی سوچ کو پیچھے چھوڑ کر عقل، عاجزی اور مثبت طرزِ آفکر کے ساتھ زندگی گزاریں
|
|