پاکستان میں زیادتی کے بڑھتے ہوئے واقعات: ایک لمحۂ فکریہ
(Muhammad Siddiqui, Hyderabad)
تعارف: پاکستان میں جنسی زیادتی کے واقعات میں مسلسل اضافہ ایک نہایت تشویشناک اور افسوسناک حقیقت بنتی جا رہی ہے۔ اگرچہ قوانین میں اصلاحات کی گئی ہیں اور آگاہی مہمات بھی چلائی گئی ہیں، لیکن اس کے باوجود خواتین اور بچوں پر جنسی تشدد کے واقعات بڑھتے جا رہے ہیں۔ یہ اضافہ نہ صرف واقعات کی تعداد میں اضافہ ہے بلکہ ہمارے سماجی، قانونی اور ثقافتی نظام کی خامیوں کی عکاسی بھی کرتا ہے۔ اعداد و شمار: خوفناک حقیقت: سال 2023 میں سسٹین ایبل سوشیو ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن (SSDO) کے مطابق پاکستان میں 7,000 سے زائد زیادتی کے کیسز رپورٹ ہوئے، جن میں سے 90 فیصد سے زیادہ پنجاب میں سامنے آئے۔ دیگر رپورٹس کے مطابق، ہر دو گھنٹے میں ایک خاتون اور ہر چار گھنٹے میں ایک بچہ جنسی زیادتی کا شکار ہوتا ہے۔ لیکن یہ اعداد و شمار بھی اصل حقیقت کا مکمل عکس نہیں، کیونکہ بہت سے کیسز رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔ کیوں بڑھ رہے ہیں زیادتی کے واقعات؟ 1. کمزور قانون نافذ کرنے والا نظام اور عدالتی ناکامی: اگرچہ قوانین جیسے کہ "اینٹی ریپ ایکٹ 2021" نافذ کیے گئے ہیں، لیکن ان پر عملدرآمد انتہائی ناقص ہے۔ پولیس کی تفتیش سست اور ناقص ہوتی ہے، شواہد ضائع کر دیے جاتے ہیں، اور مقدمات سالوں تک لٹکے رہتے ہیں۔ کئی علاقوں میں زیادتی کے کیسز میں سزا کی شرح 10 فیصد سے بھی کم ہے، جو مجرموں کو مزید بے خوف بناتی ہے۔ 2. سماجی بدنامی اور ثقافتی رکاوٹیں: زیادتی کا شکار ہونے والی خواتین اکثر معاشرتی بدنامی کے ڈر سے خاموش رہتی ہیں۔ انہیں "بے عزت" یا "غیرت کے خلاف" سمجھا جاتا ہے، اور اکثر خاندان اور برادری کی طرف سے ہی دباؤ ڈالا جاتا ہے کہ معاملے کو دبا دیا جائے۔ کچھ علاقوں میں جرگے متاثرہ خاتون کی شادی مجرم سے کروا دیتے ہیں، جو انصاف کے منہ پر طمانچہ ہے۔ 3. معاشی ناہمواری اور سماجی مایوسی: بڑھتی ہوئی غربت، بیروزگاری اور تعلیمی کمی نوجوانوں میں مایوسی پیدا کر رہی ہے۔ اس مایوسی اور پدرسری سوچ کے امتزاج سے جنسی جرائم میں اضافہ ہو رہا ہے۔ دیہی اور شہری علاقوں میں فرق مٹنے سے روایتی سماجی حفاظت بھی کمزور ہو گئی ہے۔ 4. رپورٹ نہ کرنا اور پولیس کی لاپرواہی: بہت سے کیسز پولیس کے پاس درج ہی نہیں ہوتے، یا متاثرہ افراد کو ایف آئی آر درج کرانے سے روکا جاتا ہے۔ طبی معائنے کے باوجود بھی بعض اوقات مقدمہ درج نہیں کیا جاتا، جس سے متاثرہ افراد مزید بددل ہو جاتے ہیں۔ 5. انٹرنیٹ اور میڈیا کا منفی اثر: سوشل میڈیا، فحش مواد، اور آن لائن ہراسانی نے نوجوانوں میں جنسی رویوں کو متاثر کیا ہے۔ مناسب جنسی تعلیم کی غیر موجودگی میں انٹرنیٹ کا غلط استعمال جنسی جرائم کو بڑھا رہا ہے۔ متاثرین پر اثرات: زیادتی کے متاثرین جسمانی اور ذہنی طور پر شدید متاثر ہوتے ہیں۔ انہیں ڈپریشن، ذہنی دباؤ اور معاشرتی تنہائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کچھ کیسز میں متاثرہ لڑکیاں خودکشی کر لیتی ہیں یا انہیں غیرت کے نام پر قتل کر دیا جاتا ہے۔ ان جرائم کے نتائج صرف متاثرہ افراد تک محدود نہیں رہتے بلکہ پورے معاشرے پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ حل: اس بحران سے نکلنے کی راہ: 1. قانونی اصلاحات اور عملدرآمد: موجودہ قوانین پر سختی سے عمل کروایا جائے۔ زیادتی کے مقدمات کے لیے خصوصی عدالتیں قائم کی جائیں۔ پولیس اور فارنزک اداروں کی صلاحیت میں بہتری لائی جائے۔ 2. پولیس کی تربیت اور نگرانی: پولیس اہلکاروں کو متاثرین سے ہمدردی کے ساتھ پیش آنے کی تربیت دی جائے۔ پولیس کارکردگی کی نگرانی کے لیے آزاد ادارے قائم کیے جائیں۔ 3. آگاہی اور تعلیم: جنسی تعلیم کو نصاب میں شامل کیا جائے۔ میڈیا اور سماجی مہمات کے ذریعے جنسی ہراسانی، رضامندی اور خواتین کے حقوق پر آگاہی دی جائے۔ 4. متاثرین کے لیے مددگار نظام: متاثرہ افراد کے لیے شیلٹر ہومز، قانونی امداد، اور کونسلنگ مراکز قائم کیے جائیں۔ 5. سماجی تبدیلی کے لیے کمیونٹی کا کردار: علما، اساتذہ، اور سول سوسائٹی کو جنسی جرائم کے خلاف شعور اجاگر کرنے میں شامل کیا جائے۔ خواتین کو تعلیم، روزگار، اور سیاست میں آگے لایا جائے۔ نتیجہ: پاکستان میں زیادتی کے بڑھتے ہوئے واقعات صرف جرائم نہیں بلکہ نظام، ثقافت، اور اداروں کی کمزوری کی علامت ہیں۔ اس مسئلے کا حل صرف سخت قوانین میں نہیں بلکہ ان پر مؤثر عملدرآمد، معاشرتی ذہنیت میں تبدیلی، اور متاثرین کے ساتھ ہمدردی اور انصاف پر مبنی رویے سے ممکن ہے۔ جب تک مجرم کو سزا نہیں اور متاثرہ فرد کو انصاف نہیں ملتا، تب تک یہ ظلم جاری رہے گا۔ |
|