دشت ترقی اور امید کی حقیقی تصویر


گذشتہ دنوں ایک معتبر انگریزی اخبار میں ''ہزاراں رحیم داد'' نامی ایک خاتون نے کراچی میں بیٹھ کر جنوبی بلوچستان کے ضلع تربت کی ایک تحصیل ''دشت“جو کہ ایرانی سرحد کے قریب اور گوادر کے شمال میں واقع ہے۔میں تعلیم کے حوالے سے ''In Balochistan's Dasht, staying in school is an act of rebellion in itself'' کے عنوان سے ایک آرٹیکل تحریر کیا، جو علاقے کے احوال کی درست منظر کشی نہیں کرتا۔اس مضمون میں خود ساختہ کرداروں کے ذریعے ایک کہانی تخلیق کی گئی، جس میں اس ترقی پزیر ''دشت'' کو انتہائی پسماندہ علاقے کے طور پر پیش کیا گیا، جہاں زندگی کی کوئی سہولت میسر نہیں۔ حیرت اس بات پر ہے کہ اتنے معتبر اخبار نے بھی تحقیق کے بغیر اس تحریر کو شائع کیا۔جبکہ حقائق اس کے برعکس ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ بلوچستان کے پسماندہ علاقوں کو چیلنجزکا سامنا ہے،لیکن مشکلات کو اجاگر کرنااور ریاستی ترقیاتی کاوشوں کو نظر انداز کرنا گمراہ کن ہے۔ پیش خدمت ہے ''دشت'' کی ایک متوازن اور حقیقی تصویر۔دشت میں اس وقت 90 اسکولز طلباء و طالبات کو تعلیم فراہم کر رہے ہیں۔جنہیں ضلعی انتظامیہ ہر ممکنہ سہولیات فراہم کرنے لیے کوشاں ہے،علاوہ ازیں حال ہی میں گورنمنٹ گرلز ہائر سیکنڈری اسکول کنچتی میں چار دیواری اور نئے کلاس رومز، پیرانی لمب میں طلبہ کے لیے دو نئے کلاس رومز کی تعمیر، کڈان ہائی اسکول میں سولر سسٹم کی تنصیب، گورنمنٹ بوائز اسکول کپکپار میں کھیلوں کے گراؤنڈ اور کلاس رومز کی تعمیر، اسکول کی تزئین و آرائش، طلبہ میں اسکول بیگز، کتابوں کی تقسیم، نقد انعامات، حکومت بلوچستان کی طرف سے سپیشل ایجوکیشن پیکج، اوربلنگور گرلز ہائی اسکول بس کے لیے ماہانہ 150 لیٹر فری ڈیزل کی فراہمی جیسے اقدامات شامل ہیں۔اس وقت دشت میں 3 رول ہیلتھ سینٹرز (RHC) اور 6 بنیادی صحت مراکز (BHU) عوام کو معیاری اور بروقت طبی سہولیات فراہم کر رہے ہیں۔ ان کے ساتھ ساتھ دشت کے دوردراز علاقوں،جن میں کڈان، بلنگور، کنتے دار، اچانک، دریچکو، کپکپار، کوچہ، باغدار، شولی، گوہرگ باغ، سورک، سبدان اور پنوڈی شامل ہیں،ان علاقوں میں ہر ماہ دو سے تین فری میڈیکل کیمپس کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ جس سے اہل علاقہ کی ایک بڑی تعداد مستفید ہوتی ہے۔ گذشتہ ایک سال میں 25 فری میڈیکل کیمپس منعقد کیے گئے جن میں پانچ ہزار سے زائد مریضوں کو طبی سہولیات، ٹیسٹ اور ادویات فراہم کی گئیں، جبکہ ان میڈیکل کیمپس میں خواتین کے مخصوص امراض کے لیے وقتاً فوقتاً گائناکالوجسٹ کی خدمات فراہم کی جاتی ہیں۔لکھاری نے اپنی تحریر میں دشت کو ایک زرعی پسماندہ علاقہ بنا کر پیش کیا، مگر اس کے برعکس دشت جنوبی بلوچستان میں اپنی زراعت اور سرسبز لہلہاتے کھیتوں سے پہچانا جاتا ہے۔ ''گرین پاکستان انیشیٹو'' پروگرام کے تحت,50000 ایکڑ زمین کو قابلِ کاشت بنایاجا چکا ہے۔ نومبر 2023 تا جولائی 2024 کے دوران، مقامی افراد کو آسان اقساط پر 123 سولر ٹیوب ویل فراہم کیے گئے، جن کی بدولت 2,460 ایکڑ بنجر زمین پر پہلی بار کامیاب کاشت کاری ممکن ہوئی۔ جنوری تا مارچ تربوز اور اپریل تا اگست کپاس کی بہترین فصل سے مقامی کسانوں نے بھرپور منافع حاصل کیا۔ صرف اس منصوبے سے 150 خاندان براہ راست مستفید ہو رہے ہیں اور فی کسان سالانہ 1.5 ملین روپے تک منافع حاصل کر رہا ہے۔ یہ منصوبہ دشت میں زرعی ترقی، روزگار اور دیہی خوشحالی کی ایک کامیاب مثال بن چکا ہے۔دریائے دشت پر تعمیر شدہ میرانی ڈیم اس علاقے کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں۔ اس ڈیم کا شمار بلوچستان کے دوسرے بڑے ڈیم میں ہوتا ہے۔ یہ ڈیم نہ صرف پینے کے صاف پانی کی فراہمی کو ممکن بناتا ہے بلکہ زراعت اور مقامی معیشت کو بھی قوت بخشتا ہے۔کھیتوں میں ہریالی اور کسانوں کے چہروں پر امید کی روشنی نظر آنے لگی۔ میرانی ڈیم صرف آبی ذخیرہ نہیں بلکہ ترقی، خوشحالی اور خود انحصاری کی علامت ہے۔ اس کی مجموعی پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت 302,000 ایکڑ فٹ ہے، جبکہ لائیو اسٹوریج 52,000 ایکڑ فٹ اور اوسط سالانہ ریلیز 114,000 ایکڑ فٹ ہے۔دشت میں کھیلوں کی سرگرمیوں کو بھی فروغ دیا جا رہا ہے۔ کھیل نہ صرف جسمانی صحت بلکہ ذہنی اور معاشرتی فلاح کے لیے بھی اہم ہیں۔ 27 ستمبر تا 25 اکتوبر 2024 ''دشت پریمیئر لیگ'' کا انعقاد کیا گیا، جس میں 18 ٹیموں نے حصہ لیا اور نوجوانوں کو مثبت سرگرمیوں کی طرف راغب کیا گیا۔اور مقامی کھلاڑیوں میں کھیلوں کے سامان کی تقسیم کیا گیا اورکھیل کے میدانوں کے گراؤنڈز کی تعمیر و مرمت بھی کی گئی۔ضلعی انتظامیہ کی جانب سے عوام کے مسائل کے فوری حل کے لیے کھلی کچہریاں اور ہر پندرہ دن بعد باقاعدہ جرگے منعقد کیے جاتے ہیں، جن میں کمیونٹی کے مسائل کو نہ صرف کو زیر بحث لایا جاتا ہے بلکہ چھوٹے مسائل پہ بروقت ایکشن بھی لیا جاتا ہے۔ضلعی انتظامیہ کی طرف سے دشت میں عوام کے سہولت کے لیے موجود دونوں نادرا آفس کی تزہین وآرائش اور مزید بہتری پر کام جاری ہے۔اس کے علاوہ ضرورت مند خاندانوں اور بیواؤں میں راشن کی تقسیم، خواتین میں خود انحصاری کے لیے 90 بیواؤں میں سلائی مشینیں، معذور افراد کو بیساکھیاں اور وہیل چیئرز کی فراہمی، ''مدر چائلڈ میلہ'' کا انعقاد،جس میں ماؤں اور بچوں کی صحت سے متعلق آگاہی فراہم کی جاتی ہے،جیسے اقدامات شامل ہیں۔ان کے علاوہ خواتین میں بغیر سلائی کے بلوچی لباس کی تقسیم اور بیواؤں کو مالی امداد فراہم کی گئی۔ بلوچی دستکاری کے فروغ کے لیے بلنگور اور کسان میں دو دستکاری مراکز کا قیام بھی زیر تعمیر ہے۔بالنی گور گاؤں کے مکینوں کو پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے لیے واٹر سپلائی اسکیم پر تیزی سے کام جاری ہے، جو مقامی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے تیار کی جا رہی ہے۔اس کے ساتھ ساتھ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ہر پوسٹ پر ایک خدمت مرکز قائم ہے، جہاں مریضوں کو بروقت طبی امداد، مسافروں کے لیے کھانے پینے اور قیام، حادثات کے زخمیوں کو ابتدائی طبی امداد، گاڑیوں کو فنی خرابی کی صورت میں امداد، راہگیروں کے لیے ٹھنڈے پانی اور سایہ دار جگہیں، ہنگامی رابطے کے لیے لینڈ لائن اور مواصلاتی سہولیات مہیا کی جاتی ہیں۔یہ ہے دشت کی اصل تصویر۔۔ 
نسیم الحق زاہدی
About the Author: نسیم الحق زاہدی Read More Articles by نسیم الحق زاہدی: 236 Articles with 209864 views Alhamdulillah, I have been writing continuously for 28 years. Hundreds of my columns and articles have been published in national newspapers, magazine.. View More