ایک مسلمان نوجوان، جو بلند حوصلے، مضبوط اقدار اور گہری جرأت سے آراستہ ہو اور جس کی رہنمائی خوفِ خدا کرے، ہمیشہ تبدیلی کی ایک مؤثر قوت رہا ہے۔ نبی اکرم ﷺ کے محبوب صحابہؓ (رضی اللہ عنہم) سے لے کر جدید مزاحمتی رہنماؤں تک، جو ظلم و ستم کے خلاف ڈٹے رہے، مسلم نوجوان ہمیشہ قربانی اور احیا کے محور میں رہے ہیں۔
آج مسلم نوجوان ہمت اور اتحاد کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔ غزہ سے لے کر استنبول، قاہرہ، کوالالمپور اور کراچی کی یونیورسٹیوں تک وہ احتجاج کر رہے ہیں، اسرائیل سے وابستہ برانڈز کا بائیکاٹ کر رہے ہیں اور آن لائن آواز اٹھا رہے ہیں۔ ترکی میں طلبہ ریلیوں میں شامل ہو رہے ہیں، پاکستان میں وہ بائیکاٹ کی قیادت کر رہے ہیں۔ فرانس سے جنوبی افریقہ تک متعدد ممالک میں نوجوان مسلمان احتجاج، فن اور ڈیجیٹل مہمات کے ذریعے اپنی آواز بلند کر رہے ہیں۔ وہ نہ صرف غم سے متحد ہیں بلکہ اپنے عقیدے اور تاریخ سے تشکیل پانے والے انصاف پر مضبوط یقین سے بھی متحد ہیں۔
مسلم دنیا میں نوجوان نہ صرف بڑی تعداد رکھتے ہیں بلکہ بہادری سے کیے گئے اقدامات کے ذریعے بھی اٹھ کھڑے ہو رہے ہیں، جنہیں ہر جگہ دیکھا جا سکتا ہے۔ دسمبر 2017 میں 16 سالہ فلسطینی لڑکی احد تمیمی اس وقت دنیا بھر میں معروف ہوئیں جب وہ مقبوضہ مغربی کنارے میں اپنے گھر کے باہر اسرائیلی فوجیوں کے سامنے ڈٹ گئیں۔ ان کی خاموش مزاحمت کی ویڈیو ریکارڈ ہوئی اور وسیع پیمانے پر شیئر ہوئی۔ بعد ازاں انہیں آٹھ ماہ کے لیے قید کر دیا گیا، مگر ان کی مزاحمت نے لاکھوں افراد کو متاثر کیا اور ثابت کیا کہ کم عمر آوازیں بھی اقتدار کے نظاموں کو ہلا سکتی ہیں۔
بھارت میں طالب علم رہنما اور کارکن آفرین فاطمہ کو مسلم مخالف پالیسیوں کے خلاف آواز اٹھانے پر سخت نتائج کا سامنا کرنا پڑا، جب جون 2022 میں حکومت نے ان کے خاندان کا گھر مسمار کر دیا۔ انہوں نے خاموش رہنے سے انکار کیا اور ہندوستانی مسلمانوں کے لیے وقار اور لچک کی علامت بن گئیں۔ اسی طرح، بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں نوجوان سیاست دان وحید پارہ کو نومبر 2020 میں—ضلع کونسل کے انتخابات جیتنے کے ایک ہی دن بعد—انسدادِ دہشت گردی کے سخت قوانین کے تحت گرفتار کیا گیا۔ ان کا کیس بتاتا ہے کہ مقبوضہ مسلم علاقوں میں پرامن سیاسی شرکت کو بھی جرم سمجھا جاتا ہے۔
مارچ 2025 میں امریکی امیگریشن حکام نے ٹفٹس یونیورسٹی کی مسلم ترک پی ایچ ڈی طالبہ رومیسا اوزترک کو اس وقت حراست میں لیا جب انہوں نے غزہ کی جنگ پر اپنی یونیورسٹی کے ردِعمل پر تنقید کرتے ہوئے ایک مضمون لکھا۔ ان کا ویزا اچانک منسوخ کر دیا گیا اور انہوں نے لوزیانا کے حراستی مرکز میں چھ ہفتے گزارے۔ 9 مئی کو ایک وفاقی جج نے ان کی رہائی کا حکم دیتے ہوئے قرار دیا کہ یہ حراست غیر قانونی تھی اور اس سے ان کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوئی- احد، آفرین، وحید اور رومیسا—ان میں سے ہر ایک ہمیں دکھاتا ہے کہ ایمان، وقار اور سچائی انتہائی جابرانہ نظاموں میں بھی اثر رکھتے ہیں۔ انہوں نے ہتھیار نہیں اٹھائے؛ انہوں نے الفاظ، اصولوں اور اپنی شناختوں کو اٹھایا اور کھڑے ہو گئے۔ ان کی کہانیاں استثنا نہیں بلکہ اس بڑھتی ہوئی لہر کا حصہ ہیں جس میں نوجوان ایک ایسی دنیا میں خاموش رہنے سے انکار کر رہے ہیں جو اکثر ان کی خاموشی چاہتی ہے۔
آج مسلم اکثریتی ممالک میں 60 فیصد سے زیادہ آبادی 30 برس سے کم عمر ہے—یعنی 50 کروڑ سے زائد نوجوان مسلمان۔ ان کی قوت صرف تعداد میں نہیں بلکہ ان کی صلاحیت، تخلیقی جوہر اور اثر میں بھی ہے۔ پاکستان میں بلال بن ثاقب کو 2020 میں فوربز کے “ایشیا کے 30 انڈر 30” میں Tayaba.org شروع کرنے پر شامل کیا گیا، اور 2023 میں خدمتِ خلق کے کام پر انہیں شاہ چارلس سوم کی جانب سے MBE سے نوازا گیا۔ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں تجمل اسلام نے 2016 میں محض سات برس کی عمر میں دنیا کے کم عمر ترین کِک باکسنگ چیمپیئن کا اعزاز حاصل کیا۔ 2023 تک انہوں نے بانڈی پورہ میں لڑکیوں کے لیے اپنی اکیڈمی قائم کی اور کھیلوں میں مساوی مواقع کے لیے آواز بلند کی۔ برطانیہ میں 13 سالہ اقرا حسین نے 2024 میں دو مرتبہ برٹش نیشنل تائیکوانڈو چیمپیئن شپ جیت کر سرخیاں بنائیں ۔ خلیج میں عمانی کوہ پیما ندھیرة الحارثی نے مئی 2019 میں ماؤنٹ ایورسٹ سر کر کے پہلی عمانی خاتون ہونے کا اعزاز حاصل کیا—یہ ثابت کرتے ہوئے کہ مسلمان خواتین حقیقی اور علامتی دونوں طرح نئی بلندیوں کو چھو رہی ہیں۔
یہ متاثر کن کہانیاں ظاہر کرتی ہیں کہ سنسرشپ، رکاوٹوں اور سرکاری کم توجہی کے باوجود مسلم نوجوان کیا کچھ کر رہے ہیں۔ وہ اپنی برادریوں کو اپنے انداز میں تراش رہے ہیں، رہنمائی کر رہے ہیں اور انہیں سہارا دے رہے ہیں۔ ان کی صلاحیت اور قوت عیاں ہے؛ کمی ہے تو صرف مسلم دنیا کی مستقل سرپرستی، حوصلہ افزائی اور مضبوط قیادت کی۔
آج کی نسل، ابنِ سینا (طب)، خوارزمی (ریاضی)، صلاح الدین (قیادت) اور فاطمہ الفہری (تعلیم) جیسے عظیم مسلم رہنماؤں اور مفکرین کی میراث کو آگے بڑھا رہی ہے۔ جدید دور میں سعودی عرب کی ڈاکٹر حیات سندی غریبوں کی مدد کے لیے بایوٹیکنالوجی کو فروغ دے رہی ہیں، جبکہ ترکی کے سیلجوق بیرقدار ڈرون ٹیکنالوجی کے باعث عالمی سطح پر پہچانے جاتے ہیں۔ فلسطینی کارکن لیما نازیہ اور ترک کوڈر آئسگل شینل جیسی نوجوان آوازیں، جو تعلیم کی بہتری کے لیے مصنوعی ذہانت استعمال کر رہی ہیں، بھی اسی صلاحیت کی نمائندہ ہیں۔
اگر مسلم نوجوانوں پر بھروسہ کیا جائے، انہیں درست وسائل و مواقع فراہم کیے جائیں اور انصاف، علم، عاجزی اور خدمت کی اقدار رہنمائی کریں، تو وہ اپنے قابلِ فخر ورثے میں نئی جان پھونک سکتے ہیں اور اپنے معاشروں کو زیادہ منصفانہ اور باعزت مستقبل کی طرف لے جا سکتے ہیں۔ وہ پوری دنیا کے امن اور خوشحالی میں اضافہ کرنے میں بھی اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
|