ایدھی اور مدر ٹریسا

کچھ روز پہلے ایک عالمی شہرت یافتہ عالمِ دین سے سوال پوچھا گیا:
“کیا مدر ٹریسا جنت میں جائے گی؟”
سوال سننے میں سادہ ہے مگر دراصل یہ ایک ایسی لاحاصل بحث ہے جو ہمیں اصل مقصد سے بھٹکا دیتی ہے۔ جنت اور دوزخ کا فیصلہ انسانوں کے ہاتھ میں نہیں۔ یہ صرف ربِ کائنات کا اختیار ہے۔ اصل سوال یہ ہونا چاہیے کہ ہم اپنے اعمال کے ساتھ کہاں کھڑے ہیں؟
تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ جب بغداد پر تاتاری لشکر حملہ آور تھے، اس وقت شہر کے بڑے بڑے علماء اس بات پر مناظرے کر رہے تھے کہ کوے کا گوشت حلال ہے یا حرام۔ دشمن شہر کے دروازوں پر دستک دے رہا تھا، مگر اہلِ علم لاحاصل بحثوں میں الجھے رہے۔ انجام یہ نکلا کہ دنیا کی عظیم لائبریریاں راکھ ہو گئیں اور علم و تہذیب کے مینار زمین بوس ہو گئے۔
صدیوں بعد آج ہم بھی ویسی ہی اندھی گلیوں میں بھٹک رہے ہیں۔ کبھی گدھے کے گوشت کے حلال و حرام پر مناظرے ہوتے ہیں، اور کبھی مدر ٹریسا یا عبدالستار ایدھی کے جنتی یا دوزخی ہونے پر۔ یہ بحث بغداد کے علماء سے بھی زیادہ افسوس ناک ہے۔ وہاں بات ایک پرندے تک محدود تھی، یہاں ہم مرے ہوئے انسانوں کے انجام پر فیصلہ صادر کر رہے ہیں۔
ہم نے اپنی ہی تاریخ کے ہیروز کو گروہوں میں بانٹ لیا ہے۔ کوئی ایک ہستی کو اپنا پرچم بناتا ہے، تو کوئی دوسری کو اپنا ہتھیار۔ یوں تاریخ سبق کے بجائے ہتھیار میں بدل گئی۔
بغداد کا دشمن باہر سے آیا تھا، ہمارا دشمن ہمارے اندر ہے۔ یہ دشمن ہمیں مذہب کے نام پر بانٹتا ہے، سیاست کے نام پر لڑاتا ہے، تاریخ کے نام پر گمراہ کرتا ہے اور معیشت کے نام پر تقسیم کرتا ہے۔
یاد رکھیں، ہر وہ وعظ، تقریر یا تحریر جو دل میں دوسرے انسان کے لیے نفرت پیدا کرے، وہ گمراہ کن ہے۔ دین کا اصل پیغام محبت، عدل اور ہمدردی ہے۔
مدر ٹریسا اور عبدالستار ایدھی جنت میں جائیں گے یا نہیں، یہ اللہ بہتر جانتا ہے۔ مگر یہ حقیقت اٹل ہے کہ دونوں کی زندگی انسانیت کی خدمت، محبت اور قربانی کی علامت تھی—نفرت اور تقسیم کی نہیں۔
انسان نے ابتدا سے محنت، علم اور ہمدردی کے ذریعے ترقی کی ہے۔ تہذیبیں تعمیر اسی وقت ہوتی ہیں جب عقل اور محبت کو رہنما بنایا جائے۔ اور تہذیبیں ٹوٹتی اسی وقت ہیں جب قومیں لاحاصل بحثوں، نفرت اور تفرقے میں کھو جائیں۔
اے انسان! دوسروں کی جنت یا دوزخ پربحث کرنے کے بجائے اپنی جنت کے لیے عمل کر۔
کیونکہ روزِ محشر تیرے ساتھ تیرے اپنے اعمال ہوں گے، نہ مدر ٹریسا، نہ ایدھی، نہ کوئی دوسرا۔ 
Dilpazir Ahmed
About the Author: Dilpazir Ahmed Read More Articles by Dilpazir Ahmed: 245 Articles with 208609 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.