پاکستانی کلچر
(Dr Saif Wallahray, Lahore)
پاکستانی کلچر
--------------------------------------- جنوبی ایشیا کی زرخیز زمینوں پر پروان چڑھنے والی ہند آریائی تہذیب اور وادی سندھ کی عظیم تہذیبوں کے درمیان ایک ایسا ناقابلِ انکار رشتہ موجود ہے جو صدیوں کے ارتقائی سفر کے بعد آج پاکستانی کلچر کی صورت میں ہمارے سامنے جلوہ گر ہے۔ یہ ارتقائی سفر انتہائی پیچیدہ مگر دلچسپ ہے جو ہمیں نہ صرف اپنی ثقافتی جڑوں سے روشناس کراتا ہے بلکہ ہماری موجودہ اجتماعی شناخت کو سمجھنے کا ایک جامع نظریہ بھی فراہم کرتا ہے۔
وادی سندھ کی تہذیب جو ہڑپہ اور موہنجو داڑو جیسے ترقی یافتہ شہری مراکز پر مشتمل تھی، تقریباً 3800 ق م سے 1300 ق م تک اپنے عروج پر رہی۔ جدید آثارِ قدیمہ کی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ یہ تہذیب اپنی منصوبہ بند شہر سازی، جدید ترین نکاسی آب کے نظام، معیاری تعمیراتی تکنیک اور وسیع تجارتی روابط کے باعث اپنے زمانے کی سب سے ترقی یافتہ تہذیبوں میں شمار ہوتی تھی۔ موہنجو داڑو کی کھدائی سے ملنے والے نوادرات خصوصاً مہریں، مجسمے اور زیورات اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ یہاں کے لوگ نہ صرف فنون لطیفہ سے گہرا شغف رکھتے تھے بلکہ ان کی معاشرتی تنظیم بھی انتہائی منظم تھی۔
اس تہذیب کے مذہبی تصورات میں ماں دیوی کی پوجا، پیپل کے درخت کی تقدیس اور کچھ مخصوص جانوروں کی پرستش شامل تھی جو بعد میں ہندو مت کے بنیادی عقائد کا حصہ بنی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وادیٔ سندھ کی تحریریں اب تک مکمل طور پر سمجھی نہیں جا سکی ، لیکن آثارِ قدیمہ سے ملنے والے شواہد سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہاں کے لوگوں نے زراعت، تجارت اور دستکاری کے شعبوں میں قابلِ رشک ترقی کی تھی۔
ہڑپہ تہذیب کے بتدریج زوال کے بعد تقریباً 1500 قبل مسیح میں وسط ایشیا سے آریائی قبائل کا اس خطے میں آنا شروع ہوا۔ یہ قبائل اپنے ساتھ ایک نئی زبان (سنسکرت)، نئے مذہبی تصورات (ویدک مذہب) اور ایک نئے سماجی ڈھانچے (ورن نظام جس میں ہندو معاشرے کو چار طبقات میں تقسیم کیا گیا ) کو لے کر آئے۔ ابتدائی دور میں آریائی اور مقامی آبادی کے درمیان تصادم کے شواہد ملتے ہیں، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان دونوں ثقافتوں کے درمیان ایک منفرد امتزاج عمل میں آیا۔ یہی امتزاج بعد میں ہند آریائی تہذیب کی صورت میں سامنے آیا جو جنوبی ایشیا کی ثقافتی تاریخ کا ایک اہم موڑ ثابت ہوا۔
پاکستانی کلچر کی تشکیل میں ان دونوں تہذیبوں (وادیٔ سندھ اور ہند آریائی) کے اثرات کو واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ زبان کے میدان میں یہ اثرات سب سے زیادہ نمایاں ہیں۔ ہماری علاقائی زبانوں مثلاً پنجابی، سندھی، سرائیکی اور بلوچی میں سنسکرت کے الفاظ موجود ہیں جو اس قدیم ربط کی زندہ گواہی ہیں۔ اردو زبان، جو پاکستان کی قومی زبان ہے، میں بھی سنسکرت کے بے الفاظ موجود ہیں جو اب اردو زبان کا حصہ بن چکے ہیں۔ یہ لسانی رشتہ صرف الفاظ تک محدود نہیں ہے بلکہ گرامر کے ڈھانچے، محاوروں اور ضرب الامثال میں بھی واضح طور پر نظر آتا ہے۔
ادبی روایات کے میدان میں بھی ہم اس ثقافتی تسلسل کو دیکھ سکتے ہیں۔ قدیم سنسکرت ادب کے عظیم الشان کام جیسے وید، رامائن اور مہابھارت کا اثر ہماری علاقائی زبانوں کے ادب پر صاف نظر آتا ہے۔ پنجابی کے عظیم صوفی شاعر بلھے شاہ، وارث شاہ اور سندھ کے عظیم صوفی شاعر شاہ عبدالطیف بھٹائی،خوشحال خان خٹک کی شاعری میں ہند آریائی تصورات کی واضح جھلک ملتی ہے۔ ان شعرا نے اپنے کلام میں جو محبت کا پیغام دیا ہے، اس کی جڑیں ہند آریائی فلسفے (ویدانت،یوگا،بدھ مت) میں پیوست ہیں۔
ہمارے موسمی تہوار جو زرعی معاشرے کی عکاسی کرتے ہیں، دراصل ہند آریائی تہذیب کی دی ہوئی روایات ہیں۔ پنجاب میں بیساکھی کا تہوار، سندھ میں ایکتا دن(جشن سندھ) اور خیبر پختونخوا میں چترال کے موسمی تہوار سب کے سب ہند آریائی کلچر کا حصہ ہیں۔ یہ تہوار موسم کی تبدیلیوں اور فصلیں کاٹنے کے مواقع پر منائے جاتے تھے۔ آج بھی پنجاب کے دیہاتوں میں بیساکھی کے موقع پر میلے لگتے ہیں جہاں لوگ بھنگڑا ڈالتے ہیں اور مقامی موسیقی کی محفلیں سجائی جاتی ہیں۔ یہ سب ہمارے قدیم ثقافتی ورثے کا تسلسل ہیں۔
روزمرہ کی زندگی میں استعمال ہونے والے کھانے پینے کی اشیاء میں بھی ہم مشترکہ کلچر کے اثرات دیکھ سکتے ہیں۔ مثلا مشترکہ پکوان ، دال چاول، کڑھی چاول، مختلف قسم کی روٹیاں اور سبزیاں جو ہمارے روزمرہ کے کھانوں کا حصہ ہیں، سب انہیں کھانوں سے تعلق رکھتی ہیں۔ مٹھائیوں میں جلیبی، لڈو، گلاب جامن اور رس ملائی جیسی سوغاتیں بھی اسی کلچر کا حصہ ہیں۔ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ پاکستان کے مختلف علاقوں میں ان کھانوں کے تیار کرنے کے طریقوں میں علاقائی فرق موجود ہے جو ہمارے ثقافتی تنوع کو ظاہر کرتا ہے۔
موسیقی اور رقص کے میدان میں مشترکہ کلچریائی اثرات اور بھی گہرے اور واضح ہیں۔ پنجاب کا مشہور بھنگڑا ،رقص ،قوالی دراصل اسی کلچر کا ایک اہم عنصر ہے جو فصلوں کی کٹائی کے موقع پر خوشی کے اظہار کے طور پر کیا جاتا تھا۔ کلاسیکی موسیقی کا راگ راگنی، رقص ،فن تعمیر کا نظام بھی اسی تہذیب سے ہم تک پہنچا ہے۔ آج کے جدید گیتوں میں بھی ہم انہی راگوں کی جھلک دیکھ سکتے ہیں۔ سندھی لوک موسیقی، بلوچی ستار اور پختون رباب سب کے سب ہند آریائی موسیقی کے مختلف روپ ہیں۔
معاشرتی رسومات اور روایات میں بھی ہم ہند آریائی کلچر کے گہرے اثرات دیکھ سکتے ہیں۔ شادی بیاہ کی رسومات جن میں مہندی کی تقریب، بارات اور ولیمہ شامل ہیں، ان سب کی جڑیں اسی مشترکہ روایات میں پیوست ہیں۔ اس معاشرے میں خاندانی نظام کو جو اہمیت حاصل تھی، وہ آج بھی پاکستانی معاشرے میں برقرار ہے۔ مشترکہ خاندانی نظام، بزرگوں کا احترام اور رشتہ داروں کے ساتھ گہرے تعلقات ہمارے معاشرے کی ان خصوصیات میں شامل ہیں جو ہمیں مشترکہ تہذیب سے ورثے میں ملی ہیں۔
وادیٔ سندھ کی تہذیب کے کچھ عناصر پاکستانی کلچر میں زندہ ہیں۔ پاکستان کے دیہاتی علاقوں میں آج بھی مٹی کے برتن بنانے کے وہی طریقے استعمال ہوتے ہیں جو موہنجو داڑو کے زمانے میں رائج تھے۔ کچھ دیہاتی رسم و رواج اور عقائد بھی قدیم سندھ تہذیب سے ملتے جلتے ہیں۔ مثال کے طور پر سندھ کے بعض علاقوں میں درختوں کو مقدس سمجھنے کا رواج، جو وادیٔ سندھ کی تہذیب میں پیپل کے درخت کی پوجا سے مشابہت رکھتا ہے۔
مذہبی رواداری کا جو کلچر ہمیں پاکستانی معاشرے میں نظر آتا ہے، وہ بھی ہند آریائی تہذیب کا ہی عطیہ ہے۔ صوفیاء کرام نے جس رواداری اور محبت کی تعلیم دی، وہ درحقیقت ہند آریائی فلسفے( ویدانت، بدھ مت، یوگا) کے قریب تھی۔ آج بھی سندھ میں ہندوؤں کے مقدس مقامات موجود ہیں اور پنجاب میں سکھوں کے گوردوارے، جو اس مشترکہ ثقافتی ورثے کی زندہ علامتیں ہیں۔ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ پاکستان میں بسنے والے مختلف مذہبی گروہوں کے درمیان صدیوں سے چلی آ رہی باہمی رواداری ہمارے ثقافتی ورثے کا ایک اہم حصہ ہے۔
دستکاری اور فنون لطیفہ کے میدان میں مشترکہ تہذیب کے اثرات انتہائی نمایاں ہیں۔ ملتان کی کاشی گری، لاہور کی شیشہ گری، سندھ کی راجھستان دستکاری اور بلوچستان کے روایتی قالین سب ہند آریائی فنون کا تسلسل ہیں۔ روایتی موسیقی کے آلات جیسے ستار، طبلہ، رباب اور ہارمونیم بھی اسی ثقافتی ورثے کا حصہ ہیں۔ یہ تمام فنون صدیوں کے ارتقائی سفر سے گزر کر آج کی شکل میں ہمارے پاس پہنچے ہیں۔
تاہم، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اسلامی تہذیب کے اثرات نے ہمارے کلچر کو ایک نیا رنگ اور ایک نئی سمت دی ہے۔ اسلامی تعلیمات نے ہمارے معاشرتی اقدار، تہذیب و تمدن اور روزمرہ کی زندگی پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ پاکستانی کلچر دراصل ہند آریائی روایات، وادیٔ سندھ کی تہذیب اور اسلامی اقدار کا ایک منفرد اور حسین امتزاج ہے۔ یہی امتزاج پاکستانی کلچر کی سب سے بڑی خوبی ہے جو اسے دنیا کے دیگر کلچروں سے ممتاز بناتی ہے۔
پاکستانی کلچر کی ایک اور اہم خصوصیت اس کا علاقائی تنوع ہے۔ پنجاب، سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا گلگت بلتستان کی ثقافتیں اپنی انفرادی شناخت رکھتی ہیں، لیکن ان سب میں کچھ بنیادی مشترکات موجود ہیں جو انہیں ایک مشترکہ قومی کلچر میں پرو دیتے ہیں۔ یہ مشترکات ہمیں ہمارے قدیم ثقافتی ورثے سے ملے ہیں۔
جدید دور میں جہاں عالمگیریت کے اثرات سے ہماری ثقافتی روایات کو مختلف قسم کے چیلنجز درپیش ہیں، وہیں ہمیں پاکستانی کلچر کو محفوظ بنانے کی بھی شدید ضرورت ہے۔ نئی نسل کو اپنے کلچر کی جڑوں سے آگاہ کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ ہمیں اپنے عجائب گھروں کو بہتر بنانا چاہیے، ثقافتی ورثے کے تحفظ کے لیے جامع پالیسیاں بنانی چاہئیں، اپنی قدیم زبانوں کو زندہ رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے اور ثقافتی تہواروں کو فروغ دینا چاہیے۔
تعلیمی نظام میں ہمیں اپنے ثقافتی ورثے کو شامل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ نئی نسل اپنی تاریخ اور تہذیب سے آگاہ ہو سکے۔ میڈیا کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے اور ایسے پروگرامز پیش کرنے چاہئیں جو ہماری ثقافتی روایات کو اجاگر کریں۔ حکومتی اور غیر حکومتی سطح پر ثقافتی اداروں کو فعال بنانے کی ضرورت ہے۔ ہند آریائی تہذیب، وادی سندھ کی عظیم تہذیب، جغرافیائی حد بندی اور اسلامی کلچر کے اس منفرد امتزاج نے پاکستانی کلچر کو ایک ایسی شناخت عطا کی ہے جو نہ صرف منفرد ہے بلکہ انتہائی مالا مال بھی ہے۔ یہ ہماری اجتماعی میراث ہے جسے ہمیں نہ صرف محفوظ رکھنا ہے بلکہ اسے آنے والی نسلوں کو منتقل کرنا بھی ہماری اہم ذمہ داری ہے۔ پاکستانی کلچر کی یہی خوبصورتی ہے کہ اس نے مختلف تہذیبوں کے اثرات کو اپنے اندر سمو لیا ہے اور ایک ایسی جامع شناخت تشکیل دی ہے جو پوری دنیا میں پہچانی جاتی ہے۔
یہ کلچریائی تسلسل ہمیں اپنے ماضی سے جوڑتا ہے، حال کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے اور مستقبل کی راہیں متعین کرتا ہے۔ پاکستانی کلچر ہی مضبوط قومی شناخت کی تشکیل کا ضامن ہے۔
ڈاکٹر سیف ولہ رائے تعلیم وتدریس سے وابستہ ہیں ۔اور ادب ،تنقید جغرافیہ تاریخ اور کلچر کے مباحث کے حوالے سے کئی مضامین /کالم /آرٹیکل لکھ چکے ہیں
|
|