تیرے حسنِ خُلق کی اک رمق میری زندگی میں نہ مل سکی

سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاقی منظرنامہ

راجہ محمد عتیق افسر
ایگزیکٹیو کوآرڈینیٹر (لائف اینڈ لیونگ پروگرام)شعبہ اسلامیات ، رفاہ انٹرنیشنل یونیورسٹی ، اسلام آباد
03005930098، [email protected]

کچھ لمحوں کے لیے ماضی کے دریچوں میں چھانکتے ہیں ۔سنہری ماضی کی ایک تصویر ہمیں دکھتی ہے ۔مکہ کی ایک پہاڑی سے ایک چالیس برس کا جوان اترتا ہے ۔ اس پہ خوف اور لرزے کی کیفیت طاری ہے ۔ جسم بخار سے تپ رہا ہے اور اسی حالت میں وہ گھر میں داخل ہوتا ہے اور بستر پہ دراز ہوتے ساتھ ہی اپنی رفیقہ حیات سے کہتا ہے مجھے اوڑھا دو مجھے اوڑھا دو۔ بیوی ایک کمبلی اوڑھا دیتی ہے لیکن اس صورتحال سے پریشان ہوجاتی ہے ۔ حال پوچھتی ہے تو پتا چلتا ہے کہ غار میں ریاضت کے دوران ایک محیر العقول واقعہ پیش آیا ہے اور فرشتے کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اور اس نے اللہ کا نبی ہونے کی بشارت دی ہے ۔ یہ سنتے ہی رفیقہ حیات نے جو الفاظ بولے وہ انسانی تاریخ کے سنہری الفاظ ہیں۔ان کے الفاظ یہ تھے :’’ ہرگز نہیں آپ کو یہ خوش خبری مبارک ہو، اللہ تعالیٰ آپ کو ہرگز رسوا نہیں فرمائے گا، خدا گواہ ہے کہ آپ صلہ رحمی کرتے ہیں، سچ بولتے ہیں، کمزوروں کا بوجھ اٹھاتے ہیں نادار لوگوں کو مال دیتے ہیں ، مہمان نوازی کرتے ہیں اور راہِ حق میں مصیبت زدہ لوگوں کی مدد کرتے ہیں " آپ خود کو آئینے میں کھڑا کر کے سوچئیے کہ اگر اس طرح کی کیفیت میں ہم گھر میں داخل ہوں تو کیا ہماری رفیقہ حیات بھی ہمیں اسی طرح کی تسلی دے گی ؟ یقیناً ہم سب کا جواب نفی میں ہوگا کیونکہ جس شخص کا ذکر ہوا ہے وہ کوئی عام شخص نہیں بلکہ سرکار دوعالم حضرت محمد مصطفی ٰ ﷺ ہیں ۔جن کے بارے میں خالق دوجہاں کہتا ہے :
وَ اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِيْمٍ.
” اور بیشک تم اخلاق کے بڑے مرتبے پر ہو ( القلم آیت نمبر 4)
مکہ کی ایک پہاڑی ہے جس پر ایک نوجوان کھڑا پکار رہا ہے ۔ اس کی آنکھوں میں چمک ہے ، وہ پر امید ہے ، اس کا دل روشن ہے ۔اس کی چالیس سالہ زندگی کھلی کتاب ہے ۔ وہ سچائی اور امانت داری کا استعارہ سمجھا جاتا ہے ۔ اسے یقین ہے کہ اس کی چاہت لوگوںکے دلوں میں ہے وہ ضرور اس کی بات سن کر اس کے حلقہ احباب میں داخل ہو جائیں گے۔ وہ صدا لگاتا ہے اور لوگ دوڑے چلے آتے ہیں ۔ جب وہ سب پہاڑ پہ آجاتے ہیں تو پکارنے والا کہتا ہے کہ اگر میں تم سے کہوں کہ اس پہاڑ کے عقب میں ایک دشمن لشکر تمہاری گھات میں ہے تو کیا میرا اعتبار کرو گے ؟ تو سب نے یک زبان ہو کر کہا کیوں نہ کریں گے آپ سے ہم نے کبھی جھوٹ نہیں سنا ۔ یہ اجتماعی شہادت تھی اس کے سچا ہونے کی جو زندگی بھر اس کی ذات کا جزولاینفعک رہی ۔ لیکن اس سچائی کے پیکر کو اسی لمحے سخت اذیت پہنچی جب اس نے صرف ایک اللہ کی عبادت کے لیے لوگوں کو دعوت دی ۔ اس بھری محفل میں سوائے ایک دس سال کے بچے کے کسی نے بھی حق کی آواز پہ لبیک نہیں کہا ۔وہ حق کا انکار تو کر گئے لیکن لا شعوری میں وہ اجتماعی طور پر اقرار کر گئے کہ آپ کی زبان سے نکلنے والا ہر لفظ مبنی بر حق ہے اب یہ انکارانکی ذاتی انا اور کفر کے سوا کچھ نہ تھا ۔ اس شخص کی زندگی کا کوئی ایک لمحہ بھی ایسا نہیں گزرا جس کی جانب اشارہ کر کے کہا جا سکے کہ اس لمحے میں اس سے سچ کے علاوہ کوئی اور بات سرزد ہوئی ہو۔ ٹھکرانے والے بھی اسے صادق و امین کہتے رہے ۔ یہ سراپا صدق و صفا کوئی اور نہیں خاتم النبیین ﷺ ہیں ۔ ہم ان کے امتی ہو کر خود سے سوال کریں کہ کیا یہ صدق و امانت کاہماری زندگی کا بھی حصہ ہے ؟کیا ہم دنیا میں اسی وصف سے پہچانے جاتے ہیں یا پھر کوئی اور تعارف ہے ہمارا؟
اب ایک اور منظر ملاحظہ فرمائیں ۔ ایک حبشی غلام بیٹھا چکی پیس رہا ہے اور حال یہ ہے کہ بخار نے اس کے بدن کو نڈھال کر رکھا ہے ۔ وہ اپنے آقا کے قہر کے ڈر سے چکی پیسے جا رہا ہے اور ساتھ ہی ساتھ رو بھی رہا ہے ۔ اس کی اس حالت کا کسی کو احساس نہیں ۔ کوئی نگاہ کرم اس پہ اٹھتی نہیں ۔ وہ ظلم سہہ رہا ہے اور گھٹ گھٹ کر جی رہا ہے ۔ اسی اثنا میں ایک نرم اور شگفتہ آواز اس کے کانوں سے ٹکراتی ہے ۔کیوں رو رہے ہو؟ وہ بے اعتنائی سے کہتا ہے جاؤ تمہارے پاس میرے درد کی کوئی دوا نہیں ، تمہارے پاس میرے مسئلے کا کوئی حل نہیں ۔ تم بھی بے بسی کی تصویر بن کر چلے جاؤ گے ۔ وہ نرم دل شخص بھی یہ سن کر چلا جاتا ہے اور یہ غلام پھر سے کہتا ہے کہ میں نے کہا تھا کہ تم بھی کچھ نہ کر پاؤ گے لوٹ جاؤ گے ۔ کچھ دیر گزرتی ہے تو وہی شخص دودھ کا جام لیے آتا ہے اور اس غلام کو پینے کے لیے دیتا ہے اور اسے پلانے کے بعد کہتا ہے تم آرام کرو ۔ وہ غلام کہتا ہے میں کیسے آرام کروں میرا مالک آکر میرا گوشت میری ہڈیوں سے جدا کر ڈالے گا یہ چکی کون پیسے گا؟ اس رحم دل شخص نے کہا کہ میں تمہاری جگہ چکی پیسوں گا اور پھر ایسا ہی ہوااس شخص نے چکی پیسی اور غلام نے آرام کیا ۔یہ غلام کوئی اور نہیں سیدنا بلال ؓ ہیں اور اس قدر شفقت سے ایک غلام کی دستگیری کرنے والے رحمۃ للعالمین محمد عربی ﷺ ہیں ۔ اس بلال کو اہل عرب افریقہ کی کان سے نکلا ہوا کوئلہ سمجھے تھے لیکن جب آفتاب رسالت کی کرنیں اس پہ پڑھیں تو دنیا نے دیکھا کہ یہ تو روئے زمین کا بیش قیمت ہیرا ہے ۔ یہ وہی بلال ہے جس کے قدموں کی چاپ جنت میں سنائی دیتی ہے ۔ مؤذن رسول ﷺ، اسلام کے پہلے مؤذن ، مسجد نبوی کے پہلے مؤذن، خانہ کعبہ کے پہلے موذن اور مسجد اقصی ٰ کے پہلے مؤذن بلالؓ۔ نبی مہربان ﷺ نے ایک غلام کو اتنی عزت دی کہ عرب ان کے مقام پہ رشک کرنے لگے ۔ تمام انسانوں کو برابر کہہ دینا محض تعلیم نہیں تھی عملی طور پر آقا و غلام کی تفریق کو ختم کر کے دکھایا۔ آج سیرت رسول کے آینے میں خود کو دیکھیں تو کیا ہم اس تفریق کو پاٹ سکے ہیں ۔ کیا ہم ان معاشرتی ناہمواریوں کو ختم کرنے کے لیے عملی اقدام کر رہے ہیں ؟یا ہم خود حسب و نسب کی تفریق کو فروغ دینے والے ہیں ۔ ؟
اب دل تھام کر یہ منظر ملاحظہ فرمائیں ۔ طائف کا بازار ہے اور نبی مہربانﷺ لوگوں کواسلام کی دعوت دے رہے ہیں ۔ گھر آئے مہمان کی تو ہر کوئی عزت کرتا ہے اس کی تکریم کرتا ہے اور عرب تو اپنے مہمان پر جان چھڑکتے ہیں لیکن یہ حق گوئی ایسا جرم ہے کہ حق کو دبانے کے لیے لوگ اپنی روایات بھی بھول جاتے ہیں ۔بس کلمہ حق کہنا تھا کہ طائف کے لوگ گالم گلوچ کا بازار گرم کر دیتے ہیں ۔ذہنی اذیت دے کر ان کی تشفی نہ ہوئی تو جسمانی اذیت دینے لگے ہیں ۔نبی ﷺ ہیں کہ ہر وار سہہ رہے ہیں۔ پتھر ہیں کہ جسم اطہر پہ برس رہے ہیں بدن مبارک لہو لہان ہے اور پھر بھی امید آنکھوں میں چمک رہی ہے ، رب سے مدد کی التجا ہے ۔ رب کی جانب سے فرشتہ آتا ہے اور اہل طائف کو پہاڑوں کے درمیان کچل دینے کے لیے اجازت طلب کرتا ہے لیکن رسول مہربان کہتے ہیں نہیں یہ لوگ مجھے جانتے نہیں ۔ یہ نہ سہی ان کی اولادیں ایمان لے آئیں گی ۔ آپ خود سوچیں اگر ہم ایسی صورتحال سے دوچار ہوں تو کیا دشمن سے کوئی رعایت کریں گے ؟ کیا ہم اپنی انتقام کی آگ کو فرو کرتے ہیں ؟ کیا ہم زیادتی کرنے والوں کو معاف کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں ؟
ادھر دیکھئیے ایک شخص چارپائی پہ لیٹا ہوا ہے اس نے چادر تان رکھی ہے ۔اس گھر کا محاصرہ کیا گیا ہے ۔ لوگ قتل کے در پہ ہیں ۔ لوگ دیوار پھلانگ کر گھر میں داخل ہوتے ہیں تو انہیں پتہ چلتا ہے کہ وہ جس کی جان کے در پہ تھے وہ تو جا چکے یہ جو شخص لیٹا ہے یہ ان کا چچا زاد بھائی علی ؓ ہے ۔ جانے والے نے اپنے عزیز کو چارپائی پہ کیوں لٹایا؟ اس لیے نہیں کہ وہ اس کی آڑ میں خود کو محفوظ کرنا چاہتا تھا بلکہ اس لیے کہ مکہ والوں کی جو امانتیں اس کے پاس ہیں وہ ان کو لٹا کر جانا ہے ۔ خود اندازہ کریں کہ جو لوگ اس کی جان کے در پہ ہیں وہ رسول امین ﷺ انہی کی امانتوں کو لوٹانے کی سوچ رہا ہے ۔ وہ جو اسے اپنا وطن چھوڑنے پہ مجبور کر رہے ہیں یہ ان کی امانتوں کی بھی حفاظت کر رہا ہے۔اب سیرت کے اس آئینے میں خود کو دیکھئے اور اپنے ضمیر سے سوال کیجئے کہ کیا ہم بھی ایسے ہی امانت دار ہیں ؟ کیا ہم اپنے فرائض ایسے ہی نبھاتے ہیں ؟ کیا ہم دوسروں کے مال کی اسی طرح حفاظت کرتے ہیں ؟
ایک لمحے کو نظر یں گھما کر دیکھیں خندق کھودی جا رہی ہے ۔ مجاہدین کی ٹولیاں بنا دی گئیں ہیں اور ہر ایک کے ذمہ کھدائی کا ہدف ہے ۔ سب دن رات محنت کر رہے ہیں اور مالی حالات بھی کچھ زیادہ بہتر نہیں ہیں ۔ کھدائی کسی خزانے کی تلاش میں نہیں ہو رہی بلکہ ایک زبردست لشکر سے بچاؤ کے لیے حفاظتی غرض سے خندق کھودی جا رہی ہے ۔ اس صورتحال میں غذائی قلت بھی ہے اور فاقہ کشی بھی ۔ نبی ﷺ کے قریبی دوست نکلتے ہیں اور اپنی شکم سیری کی فکر کرتے ہیں ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما ایک دوسرے کو اپنا حال بتاتے ہیں اور پیٹ پہ بندھا پتھر بھی دکھاتے ہیں ۔ فیصلہ ہوتا ہے کہ نبی مہربان کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں شاید کچھ مل جائے ۔ جب راست مدینہ کے تاجدار کے پاس پہنچتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کے پیٹ پہ دو پتھر بندھے ہیں ۔ تکلیف کے دنوں میں ریاست کا حکمران اپنی رعایا کے مقابلے میں دگنی تکلیف برداشت کر رہا ہے ۔ کیا ہم اپنے ماتحتوں کی تکلیف سمجھتے ہیں ، کیا ہم مشکل وقت میں ان سے زیادہ ایثار کرتے ہیں ؟ حقیقت تو یہ ہے کہ ایسے حالات میں ہم ان کی اجرتیں بھی روک دیتے ہیں تاکہ ہمارے بچے آسودہ حال رہیں ۔
اگر آپ غروہ خندق کا منظر دیکھ ہی رہے ہوں تو ذرا ٹھہریے ۔ اسی منظر میں ملاحظہ فرمائیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ ایک نوجون کی شکایت دربار رسول ﷺمیں فرما رہے ہیں ۔ یہ نوجوان بھی کوئی عام آدمی نہیں نبی ﷺ کو اولاد کی طرح عزیز اسامہ بن زیدؓ ہیں ۔ ان کے خلاف شکایت یہ ہے کہ جب کفار کی ایک ٹولی خندق پار کرنے کی کوشش کر کے آگے بڑھی تو صحابہ کرام کی جماعت نے اسے روکا ۔ حضرت اسامہ ؓ نے ایک کافر کو گرایا اور تلوار سے اس کا سر قلم کرنے لگے تو اس نے بآواز بلد کلمہ پڑھ لیا لیکن اسامہ ؓ نے پھر بھی اس کا سر تن سے جدا کر دیا ۔ اسامہؓ سےاستفسار ہوا تو انہوں نے واقعے کی تصدیق کی ۔ بارگاہ رسالت سے سوال آتا ہےکہ جب اس نے کلمہ پڑھ لیا تھا تو پھر کیوں مارا؟ اسامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس نے تو موت کے خوف سے کلمہ پڑھا تھا۔ فوراً نبی ﷺ کا احتسابی سوال آتا ہے کہ اے اسامہ کیا تم نے اس کا سینہ چیر کر دیکھا تھا کہ اس نے دل سے کلمہ پڑھا یا نہیں ؟ پھر سوال کیا قیامت کے دن اگر رب کی بارگاہ میں اس نے شکایت کی کہ میرے کلمہ پڑھنے کے باوجود اس نے مجھے قتل کیا ہے تو تم کیا جواب دو گے ؟ سن کر اسامہؓ آبدیدہ ہو جاتے ہیں ان کی ہچکی بندھ جاتی ہے ۔ جب ذرا سنبھلتے ہیں تو بارگاہ رسالت سے پھر وہی سوال اٹھتا ہے کہ قیامت کے دن کیا جواب دو گے ؟ پھر آہیں اور سسکیاں بلند ہوتی ہیں ۔ پھر سنبلتے ہیں تو ایک بار پھر سوال اٹھتا ہے کہ قیامت کے دن کیا جواب دو گے ۔اسامہ پھر سے رو پڑتے ہیں ۔ ذرا سوچیئے کہ جنگ کی حالت میں بھی ہر چیز جائز نہیں رکھی۔ کلمہ گو کا قتل اس حالت میں بھی روا نہیں رکھا لیکن کیا ہم بھی اسی طرح اسے ناجائز سمجھتے ہیں ۔ ہم تو آئے روز اپنے مخالف مسلک کے افراد کو کافر کہہ دیتے ہیں ۔ ان کا قتل جائز سمجھتے ہیں۔ اور اگر ہمارے حامیوں میں سے کوئی قتل کر دے تو اس کا دفاع کرتے ہیں ۔کیا ہمارے ہاں خون مسلم اسی طرح محترم اور مقدس ہے جیسے رسول اللہ نے اسے مقدس رکھا ؟کیا ہم کفر کے فتوے جاری کرتے وقت دل چیر کر دیکھتے ہیں ؟
جنگ سے اکتا گئے ہوں تو ذرا صلح کا ایک منظر ملاحظہ فرمائیں ۔حدیبیہ کا مقام ہے اور اہل مکہ سے دوطرفہ معاہدہ امن ہوا ہے ۔ دستخط کر دیے گئے ہیں اور عملی طور پہ معاہدہ طے ہو گیا ہے ۔ اس معاہدے کی ایک شرط یہ بھی ہے کہ مدینہ سے اگر کوئی فرار ہو کر مکہ میں پناہ لے گا تو اسے واپس نہیں کیا جائے گا لیکن اگر کوئی مکہ سے فرار ہو کر مدینہ میں آئے گا تو اسے واپس کرنا ہو گا۔ کفار مکہ کی جانب سے جس سردار نے معاہدے پہ دستکط کیے تھے اس کا نام سہیل تھا ابھی معاہدہ طے ہوا ہی تھا کہ سہیل کا بیٹا ابوجندل ؓ مکہ سے فرار ہو کر آیا اور نبی ﷺ کی موجودگی کی خبر سن کر سیدھا حدیبیہ پہنچ گیا ۔کفار نے اس کی واپسی کا مطالبہ کیا جب کہ مسلمانوں نے التجا کی کہ ہمارا مسلمان بھائی ہے یہ معاہدے سےپہلے فرار ہوا ہے اسے واپس نہ کیا جائے ۔ اس موقع پر نبی ﷺ اٹھتے ہیں اور صبر کی تلقین کے ساتھ ابو جندل ؓ کو واپس کر دیتے ہیں ۔ وہ عودہ ہی کیا جو وفا نہ ہو ۔ انتہائی سخت حالات میں بھی وعدہ خلافی نہیں کی بلکہ عہد کو پورا کیا ۔ کیا ہم بھی عہد کو پورا کرتے ہیں ۔ کیا ہم اپنے الفاظ پہ پہرہ دیتے ہیں ؟ کیا ہم دھوکا دہی سے کام نہیں لیتے ؟کیا ہم سب سے زیادہ وعدہ خلاف شخص کو اپنا قائد ، پیر و مرشد نہیں مان لیتے ؟
اب بدلے ہوئے منظرنامے کا ایک منظر تو دیکھیئے ۔وہ اپنے س دس ہزار سپاہیوں کے ساتھ دن کی روشنی میں اس مکہ میں داخل ہو رہے ہیں جہاں سے انہیں رات کے اندھیرے میں اپنے ایک جان نثار کے ساتھ نکلنا پڑا تھا ۔اس طمطراق سے آمد کا تقاضا تو یہ ہوتا ہے کہ اگلے پچھلے تمام حسابات برابر کر دیے جائیں لیکن دیکھیں تو سہی سنیں تو سہی ۔ اعلان ہو رہا ہے کہ جو اپنے گھروں میں ہیں وہ محفوظ ہیں ، جو بیت اللہ میں ہیں وہ محفوظ ہیں ، جو ابو سفیان کے گھر میں ہیں وہ محفوظ ہیں ۔ کہیں سے آواز اٹھی تھی کہ آج قیمہ کر دینے کا دن ہے آج تو قریش کی ذلت کا دن ہے لیکن جواب میں سرکار کا ارشاد ہوا نہیں آج تو رحم کرنے کا دن ہے آج تو قریش کی عزت افزائی کا دن ہے ۔ فتھ کے بعد مفتوحین اس انتظار میں تھے کہ ان سے گن گن کر بدلے لیے جائیں گے لیکن چشم فلک نے دیکھا کہ فاتح اعظم نے عام معافی کا اعلان کیا ۔ جب آپ طاقت مین ہوں اور انتقام لے سکتے ہوں اس وقت اپنے دشمن کو بخش دینا یہ بہت بڑی اخلاقی قوت کا متقاضی ہے ۔ آج ہم خود سے سوال کریں کہ کیا ہم دوسروں کو معاف کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں؟ کیا ہم انتقام کی طاقت رکھتے ہوئے بھی کسی پہ رحم کھا سکتے ہیں ؟ کیا ہم دوسروں کی کوتاہیوں سے اعراض کر سکتے ہیں ؟
فتح مکہ پہ ہی مرتکز رہیے اور دیکھیے کہ کعبے کے اندر سے بت گرائے جا رہے ہیں نبی ﷺ نے خود جا کر کعبہ کو بتوں سے پاک کیا ۔ جنگ تو اللہ کے ساتھ شرک پر تھی اور فتح کے بعد شرک کے ہر ایک نشان کو مٹایا گیا ۔ لیکن اس وقت صرف مورتیاں ہی نہیں توڑی گئیں بلکہ جاہلیت کے ہر نقش کو بھی مٹایا گیا ۔ دیکھیں کعبہ کی چھت پہ بلال کھڑے آذان دے رہے ہیں حالانکہ سرداران قریش بھی کھڑے تھے ۔ قبائیلی فخر کے بت کو بھی پاش پاش کر دیا گیا ۔ انسانوں کے درمیان تفاوت کے بت کو بھی توڑا گیا ، معاشرتی ناہمواری کے بت کو بھی زمین بوس کیا گیا اور اقربا پروری کے عفریت کو بھی ختم کیا گیا۔ اور یہ سب اس وقت ہوا جب آپ خود طاقت میں تھے ، صاحب اقتدار تھے۔ اگر اس وقت آپ ایسا نہ کرتے تو کون پوچھتا؟ لیکن اقتدار اور طاقت کو بھی امانت سمجھ کر استعمال کیا گیا اس سے فائدہ نہیں اٹھایا۔ اب خود سیرت کے آئینے میں دیکھتے ہیں کیا ہم بھی مساوات انسانی کا مظاہرہ کرتے ہیں ؟ کیا ہم حسب نسب کے تفاخر کا شکار نہیں ؟ کیا ہم اقربا پروری کے مرض میں مبتلاء نہیں ؟
فتھ مکہ کے بعد نگاہوں کے سامنے حنین کا میدان سجتے نظر آتا ہے ۔ غور سے دیکھیں مقابلے میں دشمن بظاہر کمزور ہے اور اصحاب نبی سوچ رہے ہیں کہ کثرت تعداد کی بدولت ہمارا پلہ بھاری ہوگا لیکن جنگ شروع ہوتے ساتھ ہی کفار کی طرف سے تیراندازی ہوتی ہے تو اسلامی لشکر کے پاؤں اکھڑ جاتے ہیں ۔ سب دوڑ پڑتے ہیں ۔ ایسی صورتحال میں بھی میدان میں ایک شخص اپنے چند ساتھیوں سمیت ڈٹا ہو ا ہے اور اپنے منتشر سپاہیوں کو پکار رہا ہے ۔ ذرا پکار تو سنیں کہ" میں نبی ہوں یہ جھوٹ نہیں ہے میں عبد المطلب کا بیٹا ہوں" ۔ خود اندازہ کیجیے کہ اس صورتحال میں بھی ایک شخص کو جان کی پروا نہیں ہے بلکہ بہادری اور دلیری کے ساتھ حق کا دفاع کر رہا ہے اور کلمہ حق بیان کر رہا ہے ۔ کیا ہم میں یہ تاب ہے کہ ہزیمت کے وقت عزیمت کا مظاہرہ کریں ؟ کیا ہم وقت کے بہاؤ میں خس و خاشاک کی مانند بہہ نہیں جاتے ؟
سنہرے ماضی میں مناظر سیرت کی لمبی فہرست ہے ہم جس لمحے کا ذکر کریں وہی یادگار ہے اور اور اپنی جگہ ایک نشان منزل ہے ۔ ایک تصویر کا تذکرہ کر کے بات کو سمیٹتے ہیں ۔ نبی ﷺ کی رحلت ہو چکی ہے اور اب سیدنا ابوبکر ؓ خلیفہ ہیں ۔ مدینہ کی بستی میں عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ کو ایک بیمار اور بزرگ خاتون کا پتہ چلتا ہے جو تنہا ہیں ۔ وہ نیکی کی غرض سے بڑھیا کی جانب جاتے ہیں تاکہ اس کی خدمت کی جاسکے ۔ بڑھیا کہتی ہے ایک شخص آتا ہے اور میرے گھر کو صاف کر کے مجھے کھانا کھلا جاتا ہے ۔ سیدنا عمر ؓ ٹھان لیتے ہیں کہ اس شخص کی آمد سے پہلے وہ اس بڑھیا کی خدمت کریں گے لیکن روزانہ وہ نا معلوم شخص پہل کر جاتا ہے ۔ایک روز عمر ؓ رات کے وقت سے پہرے میں بیٹھ جاتے ہیں کہ اس شخص کا پتا لگاؤں گا جو مجھ سے آگے نکل جاتا ہے ۔ وہ شخص آتا ہے اور گھر کے کام کاج نمٹاتا ہے تو عمر ؓ اس تک پہنچ جاتے ہیں اور یہ دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں کہ وہ شخص کوئی اور نہیں بلکہ رسول اللہ ﷺ کے یار غار سیدنا ابوبکر ؓ ہیں ؟ انسان معاشرے میں دوستوں سے پہچانا جاتا ہے ۔ جس کے دوست اتنے خداترس، نیکی میں سبقت لے جانے والے اور منکسر المزاج ہوں تو خود اس کی کیا کیفیت ہوگی جو ان کا مربّی ہے ۔ صرف ایک یا دو دوست بھی نہیں جس جس کو بھی نبی ﷺ کی قربت حاصل رہی ہے وہ اپنی ذات میں ایک انجمن ہے ۔ کیا ہمارا حلقہ یاراں بھی اسی طرح نیک افراد پہ مشتمل ہے ؟ کیا ہماری اولاد بھی حسین ؓ کی طرح حق کا استعارہ بن سکتی ہے ؟ کیا ہمارا پڑوس ہمارے لیے عمدہ اخلاق کی گواہی دے سکتا ہے ؟کیا ہم رحمدل اور منکسر المزاج ہیں ؟
اب ہماضی سے نکل کر واپس اپنی دنیا میں آئیں ۔ ایک ایک تصویر سے پیدا ہونے والے سوال کا جواب تلاش کریں خود کو سیرت کے آئینے میں دیکھیں اور اپنا محاسبہ کریں۔ کیا ہم امتی ہونے کا حق ادا کر رہے ہیں ؟ کیا ہماری سیرت کو دیکھ کر کوئی ہماری نسبت رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جوڑ سکتا ہے ؟کیا ہم خلق خدا کے لیے مرجع الخلائق ہیں ؟ کیا ہمارے اخلاق دنیا کے لیے قابل تقلید ہیں ؟ کیا ہم سچائی ، ایمانداری ، رحمدلی ، بہادری، استقامت ، صلہ رحمی اور انکساری کی صفات اپنے اندر رکھتے ہیں ؟ اگر ہم انفرادی و اجتماعی طور پر ان صفات حمیدہ سے متصف ہیں تو پھر ہمیں اس وقت دنیا کی امامت حاصل ہونا چاہیے لیکن ایسا تو نہیں ہے بلکہ ہم مجموعی طور پر دنیا میں اوصاف رذیلہ کے نمائندے کے طور پر جانے جاتے ہیں ۔ یقیناً ہم ان اوصاف حمیدہ سے دور ہیں تبھی تو دیگر اقوام دنیا کی امامت کر رہی ہیں اور ہم ان کے قہر کا شکار ہیں ۔ اگر ہم سیرت مصطفی ﷺ کو اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی کا حصہ بنا لیں اور عملی طور پر اپنی زندگیوں کو اسی سانچے میں ڈھال لیں تو یقیناً دنیا ہمیں اپنا قائد تسلیم کر لے گی ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ نبی ﷺ کے ساتھ نسبت کے دعوے ،، محبت کے دعوے اور ان کے ساتھ عقیدت کے دعوے کرنے کے بجائے سیرت سرکار کو اپنائیں اور عملی طور پر خود کو سیرت کے نمونے کے طور پر پیش کریں ۔ اللہ تعالی ٰ ہر ایک مسلم کو نبی ﷺ کی سیرت طیبہ کی روشنی سے منور فرمائے آمین۔
Raja Muhammad Attique Afsar
About the Author: Raja Muhammad Attique Afsar Read More Articles by Raja Muhammad Attique Afsar: 95 Articles with 121669 views Working as Assistant Controller of Examinations at Qurtuba University of Science & IT Peshawar.. View More