ڈسٹرکٹ سپورٹس آفیسر کی کہانی… اس کے اپنی زبانی
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
جی ہاں جناب! میں وہی ہوں، آپ کا خادم، آپ کا دوست، آپ کا ڈسٹرکٹ سپورٹس آفیسر (ڈی ایس او)۔ آپ سب میرے پیچھے ایسے لکھتے ہیں جیسے میں کوئی فلمی ولن ہوں۔ سوال یہ ہے کہ ہمیں ملتا کیا ہے؟
ڈھائی فیصد بجٹ کی ٹافیاں‘ ہمارا حصہ بجٹ میں صرف ڈھائی فیصد ہے۔ وہ بھی ڈپٹی کمشنر کی مرضی سے۔ اب سوچیں، ڈھائی فیصد میں کھیلے گا کیا؟ ڈھائی فیصد تو یوتھ ڈیپارٹمنٹ اٹھا لے جاتی ہے۔ باقی بچتا کیا ہے؟ ایسے اضلاع بھی ہیں جنہیں سالانہ پندرہ سے بیس لاکھ روپے ملے ہیں۔ اب لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ ڈی ایس او نالائق ہیں۔ نہیں بھائی، وہ نالائق نہیں، وہ بس سسٹم کو سمجھ ہی نہیں سکے۔ اس سسٹم کو سمجھنے کے لیے خاص طرح کا دماغ چاہیے، وہ جو فٹ بال اور بیڈمنٹن کے بیچ "بجٹ بال" کھیل سکے۔
ویسے کسی بھی ڈانسر کا دل نہ ہو تو وہ ڈانس نہیں کرتی۔ لیکن یہاں ہماری حالت یہ ہے کہ ہر مشران کے سامنے ڈانس کرنا پڑتا ہے۔ کبھی ڈی سی، کبھی اے ڈی سی، کبھی اے سی۔ بندہ سوچتا ہے کہ سپورٹس پروموشن کے لئے بھرتی ہوا تھا یا ڈانس اکیڈمی کے لئے؟ ڈی سی کے دفتر سے فنڈ ایسے ملتے ہیں جیسے آپ اخبار میں خبر دیتے ہیں: "ماشائ اللہ، یہ پاکستان ہے اور اس کا اپنا سسٹم ہے۔" یہاں کام ایسے نہیں چلتا کہ آپ نے درخواست دی اور فنڈ مل گیا۔ نہیں جی، یہاں آپ نے مسکراہٹوں اور سلامتیوں کا پورا پیکیج دینا ہوتا ہے۔
ڈی سی کے دفتر میں اے ڈی سی اور اے سی سے بنا کر رکھنا ضروری ہے۔ اگر نہ بنائی تو پھر بیٹھے رہو "تصورِ جاناں" کئے، فنڈز کے انتظار میں۔ ہم نہیں کہتے کہ ہم فرشتہ ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ڈھائی فیصد میں ہمیں آخر کتنا ملتا ہے؟ اتنا ہی جتنا ہمارا تعلق اچھا ہوتا ہے۔ آپ کھلاڑیوں کے بارے میں لکھتے ہیں۔ کبھی سپورٹس ڈائریکٹریٹ نے کسی ڈی ایس او کو سامان یا فنڈز دیے ہیں؟ نہیں نا! لیکن آپ روز ہمارا احتساب کرتے ہیں۔ جیسے ہم تو سوئس بینک میں بیٹھے ہیں اور کروڑوں روپے کا بیلنس چھپا رکھا ہے۔
جب فنڈ ملتے ہیں تو ہمیں اپنے ایم پی اے کو بھی خوش کرنا پڑتا ہے۔ وہ کسی شادی یا برسی میں جاتے ہیں اور بڑے فخر سے اعلان کرتے ہیں: "ہم سپورٹس کے لئے ڈیڑھ لاکھ روپے دیں گے!" اب وہ پیسے ہماری جیب سے جاتے ہیں، لیکن تالیاں ایم پی اے کے نام کی بجتی ہیں۔ اور اگر ہم یہ نہ کریں تو پھر ہمارے لیے "گراونڈ بند، فنڈ بند، زندگی بند"۔اب تو ہر محلے کا کونسلر بھی ایک الگ ڈی ایس او بنا بیٹھا ہے۔ کوئی فٹ بال مانگتا ہے، کوئی بیٹ، کوئی وکٹ۔ ہمیں لگتا ہے جیسے ہم کھیلوں کے افسر کم اور کھیلوں کی دوکان زیادہ ہیں۔
ہم سے کہا جاتا ہے: "میلے ٹھیلے کراو!" اب کھیل کہاں رہ گیا؟ کھیل پروموشن کے بجائے کھیل انٹرٹینمنٹ بن گیا ہے۔ گلی محلے کی سیاست چمکاو، نعرے لگاو تصویریں کھنچواو۔ کھلاڑیوں کے کیریئر کا کیا؟ اوہ، وہ تو "بونس ٹریک" ہے۔
اور آپ، جنابِ صحافی، آپ بھی ہمیں بخشیں۔ آپ تو روز لکھتے ہیں کہ ڈی ایس او کیا کر رہا ہے۔ کبھی آپ نے اپنے صحافی بھائیوں کے بارے میں لکھا جو ایونٹ میں بغیر بلائے پہنچ جاتے ہیں؟ کھانا کھاتے ہیں، سیلفی بناتے ہیں، پھر چلے جاتے ہیں۔ اور خود کو "سپورٹس رپورٹر" کہتے ہیں۔ حالانکہ اصل میں وہ زیادہ تر "سیاسی رپورٹر" یا "محلے کے نائی" کے قریبی دوست نکلتے ہیں۔
سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں ایسے لوگ ہیں جن کے رشتہ دار بڑے بڑے عہدوں پر ہیں۔ ان کی رسائی وزیروں تک ہے۔ ان کے بچے پشاور کے قریب کھیل رہے ہیں اور ہمارے جیسے رل رہے ہیں۔ یہ کیسا انصاف ہے؟یہاں تو کمپیوٹر آپریٹر بھی ڈی ایس او بنے بیٹھے ہیں۔ پوچھنے پر کہتے ہیں: "قانون ایسا ہے۔" ہم پوچھ نہیں سکتے، آپ پوچھ سکتے ہیں۔ لیکن آپ کو بھی جواب کون دیتا ہے؟
میچز کی رپورٹ آپ لکھتے ہیں۔ لیکن کبھی ہمارے دل کی حالت لکھی؟ ہمارے ساتھ کیا ہوا؟ کتنے وعدے ٹوٹے؟ کتنی امیدیں دم توڑ گئیں؟ نہیں نا۔
اس لئے پلیز، آپ مثبت رپورٹنگ کریں۔ خود بھی جئیں، ہمیں بھی جینے دیں۔ ورنہ ہم اگلی بار سپورٹس بجائے "بیوٹی کانٹیسٹ" کرانے لگیں گے، کم از کم وہاں فنڈز تو آئیں گے۔ |