پشاور سپورٹس ڈائریکٹوریٹ کا ہاسٹل: وی آئی پی افسران کا "فری لنگر خانہ"، قومی خزانے پر کروڑوں کا بوجھ

پشاور سپورٹس ڈائریکٹوریٹ کے ہاسٹل میں ایک ایسا "معجزہ" رونما ہورہا ہے جو شاید دنیا کے کسی اور سرکاری دفتر میں نہ ملے۔ یہاں 15 سے زائد وی آئی پی کمرے ہیں، اور پچھلے 8 سے 10 برسوں سے یہ کمرے ایسے افسران کے قبضے میں ہیں جن کے نزدیک "رہائش" ایک سرکاری حق ہے، اور "کرایہ" دینا عوام کا شوق۔ یہ کمرے اصل میں کھلاڑیوں اور آفیشلز کے لیے عارضی رہائش کے طور پر رکھے گئے تھے، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ افسران نے ان پر ایسے قبضہ جمایا جیسے وراثتی جاگیر ہو۔ آج حالت یہ ہے کہ بجلی، گیس، پانی سب مفت، کرایہ زیرو، اور مزے آسمان سے باتیں کرتے ہوئے۔

اگر کوئی عام شہری بجلی کا بل نہ دے تو میٹر اتر جاتا ہے، گیس کا بل نہ دے تو چولہا ٹھنڈا ہوجاتا ہے، اور کرایہ نہ دے تو مالک مکان گھر خالی کرا دیتا ہے۔ مگر یہاں تو سب کچھ الٹا ہے۔ یہاں افسران "مفت رہائش" کو اپنا استحقاق سمجھتے ہیں۔ اور اگر کبھی ان سے پوچھا جائے کہ کرایہ کیوں نہیں دیتے، تو جواب میں طنزیہ قہقہہ ملتا ہے: "کرایہ دینا عوام کا کام ہے، ہم تو وی آئی پی ہیں!"

یہ بھی سن لیں: ان میں سے زیادہ تر افسران اپنے اپنے محکموں سے ایک لاکھ سےتین لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ لیتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہاو¿س رینٹ الاو¿نس بھی باقاعدگی سے وصول کرتے ہیں، تاکہ کرائے کا گھر لے سکیں۔ لیکن گھر کہاں؟ یہ حضرات ہاو¿س رینٹ اپنی جیب میں ڈال کر سپورٹس ڈائریکٹوریٹ کے ہاسٹل میں مزے سے مفت رہائش اختیار کرتے ہیں۔ یعنی ایک طرف ہاو¿س رینٹ جیب میں، دوسری طرف فری رہائش سرکاری خزانے کے خرچے پر۔ اسے کہیں "ڈبل ڈِش" اسکیم۔

اب آتے ہیں کرائے کے ڈرامے پر۔ جولائی 2025 میں اس وقت کے ڈی جی نے اعلان کیا کہ یہ وی آئی پی کمرے مفت نہیں ملیں گے۔ پہلے پچاس ہزار روپے فی کمرہ ماہانہ کرایہ رکھا گیا، لیکن جیسے ہی افسران نے احتجاج کیا، چیخ و پکار ہوئی اور سفارشوں کے فون آنے لگے تو یہ رقم کم کر کے تیس ہزار روپے کردی گئی۔ کمال کی بات یہ ہے کہ یہ تیس ہزار بھی آج تک کسی نے ادا نہیں کیا۔ فیصلے صرف کاغذ پر ہیں، عملی طور پر یہاں "فری آف کاسٹ رہائش" ہی چل رہی ہے۔

اب آئیے ایک دلچسپ حساب کی طرف۔ اگر 15 کمرے ہیں اور ہر کمرے کا کرایہ تیس ہزار روپے بنتا ہے تو کل ساڑھے چار لاکھ روپے ماہانہ بنتا ہے۔ سال کا حساب لگائیں تو پچپن لاکھ روپے۔ اور اگر پچھلے دس برس کا تخمینہ لگائیں تو کروڑوں روپے قومی خزانے سے اڑ گئے۔ لیکن ان افسران کے نزدیک یہ کوئی "نقصان" نہیں بلکہ "سرکاری سہولت" ہے۔

اس مزے دار ڈرامے میں ایک نیا موڑ آیا جب پہلی بار موجودہ ڈی جی سپورٹس، تشفین حیدر، نے ان "فری رہائش" کے بادشاہوں پر نوٹس لیا۔ ان کا کہنا ہے کہ صرف ماہانہ تیس یا پچاس ہزار روپے ہی نہیں بلکہ پچھلے تمام برسوں کا بقایا بھی وصول کیا جانا چاہیے۔ یعنی جو افسران پچھلے 8 سے 10 برسوں سے قومی خزانے کو بے وقوف بنا رہے ہیں، اب ان سے ہر ایک روپیہ واپس لیا جائے۔ لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ نچلا عملہ اس معاملے کو سنجیدہ لینے کے لیے تیار ہی نہیں۔ گویا ان کے نزدیک کرایہ وصول کرنا کوئی ظلم ہے۔

اب ذرا موازنہ سن لیجیے۔ اگر یہی وی آئی پی افسران پاکستان اسپورٹس بورڈ (PSB) کے کسی ہاسٹل میں جائیں تو انہیں روزانہ چار ہزار روپے ادا کرنے پڑتے ہیں۔ یعنی ایک ماہ کا بل ایک لاکھ بیس ہزار روپے بنتا ہے۔ لیکن پشاور میں تو یہ لوگ دو ہزار روپے بھی دینے کو تیار نہیں۔ یہ نہ صرف عوام کے ساتھ مذاق ہے بلکہ کھیلوں کے ادارے کے ساتھ بھی ظلم۔اور یہ سب کچھ صرف اس وجہ سے ہو رہا ہے کہ "وی آئی پی کلچر" کا سایہ یہاں بھی گہرا ہے۔ کھلاڑی، جن کے نام پر یہ ہاسٹل بنا، باہر دھکے کھا رہے ہیں جبکہ کمرے ان افسران نے اپنی جاگیر بنا لی ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ سپورٹس ڈائریکٹوریٹ کب ہمت کرے گا؟ کب ان کے نام عوام کے سامنے لائے گا؟ کب پچھلے برسوں کا حساب وصول کرے گا؟ یا یہ اسکینڈل بھی دیگر اسکینڈلز کی طرح فائلوں اور کاغذوں کی نذر ہوجائے گا؟عوامی حلقے تو اب کھلے عام کہنے لگے ہیں: "یہ ہاسٹل کوئی وی آئی پی کمرے نہیں بلکہ فری لنگر خانہ ہے، جہاں نہ صرف کھانے بلکہ بجلی، گیس اور رہائش بھی مفت بانٹی جاتی ہے۔"

آخر میں یہی کہا جا سکتا ہے:
"شرم تم کو مگر نہیں آتی!"

#SportsDirectorate #Peshawar #VIPRooms #FreeAccommodation #PublicMoney #Corruption #Shameful #KhyberPakhtunkhwa #SportsScandal #Accountability #PSB #DoubleBenefit #cmkpk #chiefministerkpk
Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 767 Articles with 624738 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More