مرد: ذمہ داریوں کے بوجھ تلے بیٹے کی پیدائش سے شادی تک کا سفر

یہ تحریر مرد کی پیدائش سے لے کر شادی تک بڑھتی ہوئی ذمہ داریوں اور معاشرتی دباؤ کو اجاگر کرتی ہے۔ اس میں دکھایا گیا ہے کہ مرد کس طرح اپنے خواب قربان کرتا ہے اور ہمیں کیوں اس کے لیے آسانی پیدا کرنی چاہیے۔
کیا کبھی ہم نے سوچا ہے کہ بیٹے کی پیدائش پر خوشی مناتے ہوئے ہم دراصل اس کے کندھوں پر ذمہ داریوں کا پہاڑ بھی رکھ دیتے ہیں؟

کسی گھر میں بیٹا پیدا ہو تو بیٹا پیدا کرنے والی ماں خود پر فخر کرتی ہے۔ بیٹا یعنی بیٹے کے معنی ہمارے معاشرے میں بڑھاپے میں سہارے کے ہیں۔ بیٹی نے تو پرائے گھر جانا ہے، وہ خیال کرے تو بھی کتنا کرے گی، لاڈ کرے تو بھی بیٹے کی طرح ماں باپ کے ساتھ ساری عمر تو بسر نہیں کر سکتی۔

لیکن دیکھا جائے تو ان بیٹوں کی زندگی کا سفر بھی کتنا کٹھن ہوتا ہے۔ پیدا ہونے سے بڑے ہونے تک بس یہی سنائی دیتا ہے: اچھا پڑھو تاکہ اچھی نوکری مل سکے۔ اور اچھی نوکری کا مطلب سرکاری نوکری سمجھا جاتا ہے۔ تاکہ بڑھاپے میں کچھ پینشن مل سکے اور زندگی کا گزر بسر بہتر ہو سکے۔

یوں ایک بچے کے ذہن میں یہ سب باتیں بٹھا دی جاتی ہیں۔ جیسے جیسے وہ بڑا ہوتا ہے تو وہ اپنے ابو، بھائی، چچا یا کسی قریبی فرد سے متاثر ہو کر ان کی طرح بننے کی کوشش کرتا ہے۔ اگر وہ پولیس میں ہیں تو پولیس، اگر ڈاکٹر ہیں تو ڈاکٹر، اگر موچی ہیں تو موچی۔ بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ بچہ ان سے الگ خواب دیکھے۔ اور اگر خواب چھوٹے ہوں تو طعنہ ملتا ہے، اور اگر بڑے ہوں تو یہ کہا جاتا ہے: ہمارے پاس تو اتنے پیسے نہیں کہ اتنا پڑھا سکیں، آسانی یہ ہے کہ گورنمنٹ کی نوکری تلاش کرو۔

یہی سفر جو بچپن سے شروع ہوتا ہے، آگے چل کر شادی کے بوجھ میں بدل جاتا ہے۔ ایک بیٹا سرکاری نوکری کے چند پیسوں پر شادی کے رشتے میں باندھ دیا جاتا ہے۔ پھر وہی کہانی: والدین کی امیدیں، بیوی کی خواہشیں، بچوں کا مستقبل، اور ایک مرد کی تھکن۔ وہی مسائل جو اس کے باپ کی زندگی میں تھے، اب اس کی زندگی کا حصہ بن جاتے ہیں۔ اور یوں ایک عورت کو بھی وہی سب سہنا پڑتا ہے جو کبھی اس کی ماں نے سہا تھا۔

ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ ہم بیٹے کو یہ نہیں بتاتے کہ والدین تو اپنے دور میں سہولت نہ دے سکے، لیکن وہ اپنے لیے آسانیاں پیدا کر سکتا ہے۔ وہ محنت کرے تو اپنے بچوں کو بہتر تعلیم، اپنی بیوی کو اچھا مقام اور اپنی فیملی کو روشن مستقبل دے سکتا ہے۔ لیکن ہم اکثر اسے یا تو مکمل آزادی دے دیتے ہیں یا پھر ذمہ داری کی زنجیروں میں باندھ کر اس کی خواہشات کا گلہ گھونٹ دیتے ہیں۔

مردوں کو محافظ بنایا گیا ہے، اللہ نے انہیں بڑا درجہ دیا ہے کیونکہ وہ ذمہ داریاں نبھا سکتے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ جب ہم ہی ان کی ہر خواہش کو دبائیں گے، ان کے مستقبل کو سوچنے کا موقع نہیں دیں گے، تو وہ اپنی بیوی، بچوں اور والدین کے درمیان انصاف کیسے کر سکیں گے؟

زندگی واقعی ایک پہیلی ہے، لیکن اگر ہم مرد کے بوجھ کو سمجھ سکیں اور اس کے لیے آسانی پیدا کریں تو یہ پہیلی کچھ آسان ہو سکتی ہے۔

ثناء اسد

 

ثناء اسد
About the Author: ثناء اسد Read More Articles by ثناء اسد: 4 Articles with 796 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.