دریا تہذیبوں کے سنگم

دریا تہذیبوں کے سنگم
-----------------------------------

انسانی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ دنیا کی تمام عظیم تہذیبوں کی پیدائش، نشوونما اور ارتقاء کا رشتہ پانی کے بڑے ذخائر، خاص طور پر دریاؤں، سے گہرا جڑا ہوا ہے۔ دریا محض پانی کی روانی نہیں ہیں بلکہ یہ زندگی، تجارت، ثقافت، عقائد اور تمدن کے وہ دھارے ہیں جن کے کنارے انسان نے پہلی بار اجتماعی زندگی کے گر سیکھے۔ "دریا اور تہذیب" کا رشتہ محض ایک جغرافیائی coincidence نہیں بلکہ ایک گہرا سماجی، معاشی اور ثقافتی ربط ہے۔

کسی بھی تہذیب کے قیام کے لیے بنیادی ضروریات میں خوراک، پانی، تحفظ اور نقل و حمل کے ذرائع سب سے اہم ہیں۔ دریا ان تمام ضروریات کو یکجا طور پر پورا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

دریاؤں کے کناروں کی زرخیز مٹی (سیلابی مٹی) اور مسلسل پانی کی دستیابی نے انسان کو خانہ بدوشی ترک کرکے مستقل آبادکاری اور کاشتکاری کی طرف راغب کیا۔ آبپاشی کے منظم نظاموں کی ایجاد نے Food Surplus پیدا کیا، جس نے معاشرے کے ایک طبقے کو دیگر پیشوں جیسے دستکاری، تجارت، مذہب اور حکمرانی کے لیے آزاد کر دیا۔ یہی Food Surplus تہذیب کی بنیادی شرط ٹھری۔

قدیم دور میں زمینی سفر مشکل اور خطرناک تھا۔ دریاؤں نے قدرتی شاہراہوں کا کام دیا۔ لوگ اپنے سامان اور خود کو دریا کے رستے آسانی سے دور دراز علاقوں تک لے جا سکتے تھے۔ اس نے نہ صرف تجارت کو فروغ دیا بلکہ مختلف ثقافتوں کے مابین خیالات، ایجادات اور روایات کے تبادلے (Cross-Cultural Exchange) کا بھی ذریعہ بنائے۔
دریاؤں نے قدرتی دفاعی حصار کا کام بھی دیا۔ بستیوں کو دریا کے ایک کنارے پر آباد کرکے دشمن کے حملے کے امکانات کو کم کیا جا سکتا تھا۔ نیز، دریاؤں نے مختلف تہذیبوں اور سلطنتوں کے درمیان قدرتی حدود قائم کیں۔
تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو چند اہم دریائی تہذیبں درج ذیل ہیں
1- وادیٔ سندھ کی تہذیب
دریا: دریائے سندھ اور اس کی شاخیں
موجودہ مقام: پاکستان اور شمال مغربی بھارت
مشہور شہر: موہنجو داڑو، ہڑپہ
2. میسوپوٹیمیا کی تہذیب
دریا: دجلہ (Tigris) اور فرات (Euphrates)
موجودہ مقام: عراق اور شام کے کچھ علاقے
مشہور شہر: بابل، اُر، نینوا
3. مصر کی تہذیب
دریا: نیل (Nile)
موجودہ مقام: مصر
مشہور شہر: تھیبس، میمفس
4. چین کی تہذیب
دریا: ہوانگ ہو (Huang He / Yellow River)
موجودہ مقام: چین
مشہور شہر: اینیانگ وغیرہ
یہ چاروں تہذیبیں دریاؤں کے کنارے ابھریں کیونکہ وہاں زرخیز زمین، پانی کی فراہمی اور آمد و رفت کی سہولتیں موجود تھیں۔

ان تہذیبوں کے مطالعے سے ایک واضح نقشہ ابھرتا ہےکہ دریا نے نہ صرف انہیں غذائی تحفظ دیا بلکہ ایک منظم، طبقاتی معاشرے کی تشکیل میں کلیدی کردار ادا کیا جس میں مرکزیت، حکمرانی کے واضح قوانین اور علمی ترقی کے امکانات پیدا ہوئے۔
وادی سندھ کی تہذیب (تقریباً 3300-1300 قبل مسیح) دریاؤں اور تہذیب کے رشتے کی شاید سب سے خوبصورت مثال ہے۔ یہ تہذیب دریائے سندھ اور اس کے معاون دریاؤں (جیسے دریائے راوی، گھگر-ہاکڑا) کے کناروں پر پروان چڑھی۔
· شہری منصوبہ بندی: موئن جو دڑو اور ہڑپہ جیسے شہر اس بات کے غماز ہیں کہ انہیں نہایت منصوبہ بندی کے ساتھ آباد کیا گیا تھا۔ سیدھی اور چوڑی گلیاں، گھروں میں پانی کی سپلائی اور نکاسی کا بہترین نظام، عوامی غسل خانے (Great Bath) اس تہذیب کی ترقی یافتہ ہندسی اور انتظامی مہارت کو ظاہر کرتے ہیں۔ یہ سب دریائی پانی کے انتظام کے بغیر ممکن نہ تھا۔ زرخیز میدانوں میں کپاس، گندم اور جو کی کاشت ہوتی تھی۔ دریائے سندھ اور بحیرہ عرب کے ذریعے یہ تہذیب میسوپوٹیمیا تک تجارت کرتی تھی۔ مہروں، تجارتی سامان اور بندرگاہوں (جیسے لوتھل) کے شواہد اس کی بحری تجارت کی عکاسی کرتے ہیں۔ وسیع علاقے میں پھیلی اس تہذیب میں حیرت انگیز یکسانی پائی جاتی ہے۔ مہریں، پیمانے، اینٹوں کے سائز اور شہری ڈھانچے میں ملتی جلتی خصوصیات اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ دریا نے اس تہذیب کو جغرافیائی طور پر منسلک رکھا اور ایک متحدہ ثقافتی شناخت تشکیل دی۔
دریا ہمیشہ سے انسان کے روحانی اور ثقافتی شعور کا بھی حصہ رہے ہیں۔
تقریباً تمام قدیم تہذیبوں میں دریاؤں کو دیوتا کا درجہ دیا جاتا تھا۔ مصر میں نیل کو زندگی بخشنے والا سمجھا جاتا تھا۔ ہندو مت میں دریاؤں خاص طور پر گنگا، جمنا اور سندھ کو نہایت مقدس مانا جاتا ہے اور ان میں غسل کو گناہوں سے پاکی کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ دریاؤں کے گرد ہی بے شمار دیومالائی کہانیاں، قصے اور داستانیں جنم لیتی ہیں۔ ادب، موسیقی، مصوری اور رقص میں دریا ایک اہم موضوع اور علامت (metaphor) کے طور پر پیش ہوتا رہا ہے۔ دریا کی روانی کو زندگی کی روانی، اس کی گہرائی کو رازداری، اور اس کی طغیانی کو غصے یا قہر کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ دریاؤں کے کنارے تہوار منائے جاتے ہیں، عبادتیں کی جاتی ہیں اور مختلف مذہبی تقریبات کا انعقاد ہوتا ہے۔ یہ مقامات اجتماعی زندگی اور ثقافتی اظہار کے مراکز بن جاتے ہیں۔
زمانہ بدلا، انسانی معاشروں نے ترقی کی لیکن دریاؤں کی اہمیت برقرار رہی، البتہ اس کے ظاہری اسباب میں تبدیلی آتی گئی۔
دریاؤں پر کنٹرول سلطنتوں کی توسیع کا اہم ہدف بنا رہا۔ ہندوستان میں مغلوں کی آمد سے لے کر برطانوی استعمار تک، دریائے سندھ، گنگا، جمنا اور دیگر نے فوجی نقل و حرکت اور تجارتی کنٹرول میں اہم کردار ادا کیا۔ صنعتی انقلاب میں دریا نہ صرف مال برداری کے لیے استعمال ہونے لگے بلکہ ان کے پانی کو صنعتی عمل (جیسے ٹیکسٹائل ملز) میں استعمال کیا جانے لگا۔ بجلی پیدا کرنے کے لیے Hydroelectric Power کے منصوبوں نے دریا کو توانائی کا ایک اہم ذریعہ بنا دیا۔ · آبی انجینئرنگ: جدید دور میں بڑے ڈیموں، بیراجوں، نہروں اور سیلاب سے بچاؤ کے منصوبوں نے دریاؤں کے بہاؤ پر انسانی کنٹرول کو بے حد بڑھا دیا ہے۔ یہ ترقی اپنے ساتھ ماحولیاتی اور معاشرتی مسائل بھی لے کر آئی
جدید "ترقی" کے نام پر دریاوں کے ساتھ جو سلوک روا رکھا گیا ہے، وہ تشویشناک ہے۔ دریائی تہذیبیں وقت کے ساتھ بحران کا شکار ہوتی چلی گئیں۔
صنعتی اور domestic فضلے کا بے دریغ اخراج، کھادوں اور کیڑے مار ادویات کا بہاؤ، دریاؤں کے پانی کو زہریلا بنا رہا ہے۔ یہ آلودگی نہ صرف آبی حیات کے لیے تباہ کن ہے بلکہ انسانی صحت کے لیے بھی ایک بہت بڑا خطرہ ہے۔ آبادی میں اضافے اور غیرمنصوبہ بند استعمال کی وجہ سے دریاؤں کا پانی خشک ہو رہا ہے۔ دریائے سندھ سمیت دنیا کے بیشتر دریا اپنی معاون ندیاں کھو چکے ہیں۔ پانی کی قلت نے بین الاقوامی اور بین الصوبائی تنازعات (جیسے ہندوستان، پاکستان یا صوبوں کے درمیان پانی کی تقسیم کے جھگڑے) کو جنم دیا ہے۔ بڑے ڈیموں نے نہ صرف مقامی آبادیوں کو بے گھر کیا ہے بلکہ دریائی بہاؤ میں رکاوٹ نے ڈیلٹا کے علاقوں کو تباہ کر دیا ہے۔ دریائی مچھلیوں کی نقل و حرکت رک گئی ہے، زمینی کٹاؤ بڑھ رہا ہے اور زمینوں میں تیزابیت اور salinity بڑھ رہی ہے۔ · سیلاب اور (Climate Change) موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث بارشوں کے پیٹرن میں تبدیلی آئی ہے جس سے دریاؤں میں غیر متوقع اور تباہ کن سیلاب آتے ہیں۔ شہری منصوبہ بندی کی کمی کے باعث یہ سیلاب زیادہ تباہی پھیلا رہے ہیں۔
پائیدار ترقی اور دریا

اس بحران سے نکلنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم دریا اور تہذیب کے رشتے کو ازسرنو متعارف کروائیں،

دریاؤں کے پانی کی منصفانہ اور معقول تقسیم کے لیے مضبوط معاہدے اور باہمی اعتماد کو بحال رکھنا ہو گا ۔ نئے ڈیم بنا کر پانی کو محفوظ کرنا ہو گا۔ پانی کو جنگ کا ہتھیار بنانے کے بجائے امن کا ذریعہ بنانا ہوگا۔
صنعتوں اور میونسپل کارپوریشنز کے لیے سخت قوانین نافذ کرنا ہوں گے کہ وہ گندے پانی کو ٹریٹمنٹ کے بغیر دریا میں نہ چھوڑیں۔ عوامی سطح پر آلودگی کے خلاف آگاہی مہم چلانی ہوگی۔
جدید اور محتاط آبپاشی کے طریقے (جیسے ڈرپ ایریگیشن) اپنانے ہوں گے۔ شہری علاقوں میں پانی کے ضیاع کو روکنا ہوگا۔
یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ دریا کو زندہ رہنے کے لیے ایک خاص مقدار میں پانی درکار ہوتا ہے۔ ڈیموں سے پانی چھوڑتے وقت اس بات کا خیال رکھا جائے کہ دریا کے نیچے کی طرف ماحولیاتی نظام برقرار رہے۔
مقامی آبادیوں کے پاس دریاؤں کے انتظام کا روایتی علم ہوتا ہے۔ جدید سائنس اور اس روایتی علم کو ملا کر بہتر نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں۔
دریا اور تہذیب کا رشتہ انسانی تاریخ کا سب سے پرانا اور مضبوط رشتہ ہے۔ دریا محض جغرافیائی خطے نہیں تھے بلکہ وہ تہذیبوں کے دھڑکتے دل تھے جنہوں نے معیشت، سیاست، مذہب اور ثقافت کو شکل دی۔ انہوں نے انسان کو اجتماعی زندگی کی تربیت دی اور اسے ترقی کی بلندیوں تک پہنچایا۔ تاہم، جدید دور میں ہم نے اس رشتے کو یکطرفہ بنادیا ہے۔ ہم دریا سے لے تو رہے ہیں لیکن اس کی حفاظت اور احترام کرنا بھول گئے ہیں۔ ہماری "ترقی" دریا کی قیمت پر حاصل کی گئی ہے، جو کہ ایک انتہائی غیر پائیدار اور خطرناک عمل ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری تہذیب زندہ رہے تو ہمیں دریا کے ساتھ اپنا رشتہ ازسرنو استوار کرنا ہوگا۔ ہمیں دریا کو ایک وسائل (Resource) سے زیادہ ایک جاندار وجود (Entity) سمجھنا ہوگا جس کے بغیر نہ ہماری معیشت چل سکتی ہے، نہ ثقافت اور نہ ہی خود زندگی۔

 

Dr Saif Wallahray
About the Author: Dr Saif Wallahray Read More Articles by Dr Saif Wallahray: 4 Articles with 483 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.