سیلاب 2025

سیلاب آزمائش یا حکومتی بد انتظامی
سیلاب، آزمائش یا بدانتظامی؟
متاثرین۔کا پیغام

سیلاب کی تباہ کاریاں ایک بار پھر ہمارے دلوں کو زخموں سے بھر گئی ہیں۔ اس زمین پر بسنے والے وہ لوگ جو اپنے خون پسینے سے کھیتوں کو لہلہاتے ہیں، وہ کسان جو صبح سے شام تک ہل جوت کر دوسروں کی روٹی کا سامان کرتے ہیں، آج خود نوالے نوالے کو ترس گئے ہیں۔ وہ مائیں جن کے ہاتھوں کی ہنڈیا کبھی خوشبو سے لبریز ہوتی تھی، آج بچوں کے سامنے خالی برتن رکھ کر آہیں بھر رہی ہیں۔ وہ باپ جو کبھی کھیت سے بھر کر دانہ گھر لاتے تھے، آج ہاتھ پھیلا کر لقمے کے طلبگار ہیں۔
ہمارے گھر پانی میں بہہ گئے، ہماری فصلیں زمین کے اندر دفن ہو گئیں، ہمارے مویشی جنہیں ہم اولاد کی طرح پالتے تھے، موجوں کے ساتھ بہہ گئے، اور سب سے بڑھ کر وہ قیمتی جانیں جنہیں ہم کبھی واپس نہیں لا سکتے۔ یہ سب دکھ صرف ایک گاؤں یا ایک خطے کا نہیں، بلکہ ہر اس علاقے کا ہے جہاں پانی نے بستیاں اجاڑیں۔
آزمائش یا سزا؟
ہم مسلمان ہیں۔ ہمارا ایمان ہے کہ ہر بات اللہ کی مشیت کے بغیر نہیں ہوتی۔ مگر کیا ہر سال کا یہ عذاب محض آسمانی آفت ہے؟ یا پھر ہماری اپنی بے حسی اور حکومتی بدانتظامی کی سزا ہے؟
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ "تمہارے اپنے اعمال تم پر لوٹا دیے جاتے ہیں"۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ ہم سب کی اجتماعی کوتاہی اور ناانصافی کا نتیجہ ہے جو ہمارے سامنے سیلاب کی شکل میں آتا ہے؟
معاشرتی بے حسی
سب سے زیادہ افسوس تو اپنے ہی اپنوں پر ہوتا ہے۔ مشکل کی گھڑی میں کئی دوست احباب محض تماشائی بنے کھڑے رہتے ہیں۔ حال احوال پوچھنے کی بھی زحمت نہیں کرتے۔ کوئی فوٹو کھینچ کر سوشل میڈیا پر پوسٹ کر دیتا ہے، مگر حقیقی مدد کے لیے آگے نہیں بڑھتا۔ یہ رویہ اس بات کی علامت ہے کہ ہمارا معاشرہ سنگدلی کی طرف جا رہا ہے۔ آج اگر کسی کے گھر میں آگ لگ جائے اور ہم صرف تماشا دیکھتے رہیں تو کل وہی آگ ہمارے گھروں تک بھی آ سکتی ہے۔
حکومت کی مجرمانہ غفلت

اصل سوال یہ ہے کہ حکومت کہاں ہے؟
بند باندھنا حکومت کی ذمہ داری ہے، مگر کاغذوں میں منصوبے بنتے ہیں، بجٹ کھایا جاتا ہے اور زمینی حقیقت صفر نکلتی ہے۔
دریاؤں کے کناروں سے ریت اور بجری کی لالچ نے سب کچھ تباہ کیا۔ سالانہ اربوں روپے کی کمائی کر لی جاتی ہے مگر پانی کے قدرتی راستے ختم کر دیے جاتے ہیں۔ جب پانی کو اپنا بہاؤ نہ ملے تو وہ دیواریں توڑ کر بستیاں اجاڑ دیتا ہے۔

ہر سال ایمرجنسی فنڈز نکلتے ہیں، مگر ان فنڈز کے ساتھ افسروں اور حکمرانوں کے جیب بھر جاتے ہیں۔ متاثرین کو صرف فوڈ پیکٹ اور فوٹو سیشن ملتا ہے۔

حکومت کی یہ بے حسی اور کرپشن انسانی جانوں کے قتل کے مترادف ہے۔ کوئی پوچھے کہ یہ اربوں روپے کہاں جا رہے

ہم مانگنے والے نہیں۔ ہم محنت کرنے والے لوگ ہیں۔ مگر جب محنت کے سارے پھل ایک رات کے طوفان میں بہہ جائیں تو کوئی اور سہارا نہیں بچتا۔ ہم ہاتھ پھیلانا نہیں چاہتے، مگر ہم اہل خیر اور اہل دل سے اپیل کرتے ہیں کہ یہ وقت دوسروں کی آزمائش دیکھ کر تماشائی بننے کا نہیں، بلکہ انسانیت کے فرض کو نبھانے کا ہے۔
ہمیں فوری ریلیف چاہیے، مگر ساتھ ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ صرف راشن بانٹ دینے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ ہمیں مستقل حل چاہیے۔
دریاؤں کے راستوں کو کھلا چھوڑا جائے۔
بند باندھنے کے منصوبے سنجیدگی سے مکمل کیے جائیں۔
ریت اور بجری کی لالچ بند کی جائے۔
متاثرہ علاقوں کو مستقل بنیادوں پر محفوظ بنانے کے لیے منصوبہ بندی کی جائے۔
زرعی قرضے معاف کیے جائیں تاکہ کسان دوبارہ اپنے کھیت آباد کر سکیں۔
بے گھر افراد کے لیے مضبوط اور محفوظ رہائش کا انتظام کیا جائے۔

اے حکمرانوں! یاد رکھو کہ فوٹو کھنچوا کر، خالی بیانات دے کر اور چند لاکھ بانٹ کر آپ اپنی ذمہ داریوں سے نہیں بچ سکتے۔ تاریخ کے اوراق آپ کا کچا چٹھا کھولیں گے۔ اور سب سے بڑھ کر قیامت کے دن اللہ تعالیٰ آپ سے یہ سوال ضرور کرے گا کہ ان یتیم بچوں، بے سہارا عورتوں اور تباہ حال کسانوں کا حق کہاں گیا؟

یا اللہ! اس مصیبت کو ہم سب کے گناہوں کا کفارہ بنا دے، ہمیں صبر عطا کر اور ہمارے حکمرانوں کے دلوں میں خوفِ خدا ڈال دے۔ یا اللہ! ہماری بستیاں آباد کر، ہماری کھیتیاں ہری بھری کر اور ہماری نسلوں کو محفوظ بنا۔
#سیلاب  
سیف علی عدیل
About the Author: سیف علی عدیل Read More Articles by سیف علی عدیل: 24 Articles with 30753 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.