اردو ادب میں جرمیاتی کلچر

اردو ادب میں جرمیاتی کلچر "جرمیاتی کلچر" (Criminal Culture) ایک نہایت اہم اور حساس موضوع ہے، جو ادبیات میں جرم، مجرم، اور معاشرتی بگاڑ کے عکاس کرداروں، حالات اور رویوں کا جائزہ لیتا ہے
انسانی معاشرے کے ارتقائی سفر میں ادب ہمیشہ ایک آئینہ رہا ہے جو فرد اور معاشرے کے رویوں، اقدار، اور انحرافات کو نہ صرف عکس بند کرتا ہے بلکہ اس پر تنقیدی روشنی بھی ڈالتا ہے۔ ہر دور کے ادب نے اپنے زمانے کے جرائم، مجرمانہ ذہنیت، اور ان کے محرکات کو کسی نہ کسی صورت میں پیش کیا ہے۔ اردو ادب بھی اس سے مستثنیٰ نہیں۔

جرم صرف قانونی یا اخلاقی خلاف ورزی نہیں، بلکہ یہ ایک سماجی، نفسیاتی اور تہذیبی بحران کی علامت ہوتا ہے۔ اردو کے افسانہ نگار، ناول نویس، ڈرامہ نگار اور بعض اوقات شاعر بھی ان مظاہر کی تصویر کشی کرتے دیکھائی دیتے ہیں۔ "جرمیاتی کلچر" سے مراد وہ ادبی اور سماجی رجحان ہے جو جرائم، ان کے اسباب، کرداروں اور نتائج کو کسی نہ کسی زاویے سے نمایاں کرتا ہے
جرمیاتی کلچر (Criminal Culture) ایک ایسا تصور ہے جو ادبیات میں ان رجحانات کو بیان کرتا ہے جو جرم، بدعنوانی، پرتشدد ذہنیت، جنسی انحراف، ظلم و استحصال، قانون شکنی، اور سماجی ناانصافی کو ظاہر کرتے ہیں۔ یہ اصطلاح جرم کے فردی پہلو سے نکل کر اجتماعی، نفسیاتی، معاشرتی اور تہذیبی سطح پر جرم کے قبول یا رد کیے جانے والے رویوں کو بیان کرتی ہے۔
ادب میں جرمیاتی کلچر کی نمائندگی اس وقت خاص اہمیت اختیار کر لیتی ہے جب
جرم کو معاشرتی پس منظر میں بیان کیا جائے؛
مجرم کی نفسیات کو گہرائی سے پیش کیا جائے؛
جرم کو صرف سنسنی نہیں بلکہ سماجی سوال کے طور پر دکھایا جائے؛
جرم کو احتجاج، مزاحمت یا انقلاب کے استعارے کے طور پر پیش کیا جائے؛
قانون، پولیس، جیل، عدالت، اور دیگر اداروں پر ادبی تنقید کی جائے۔
تحقیقی اعتبار سے یہ موضوع اردو ادب کے سماجی حقیقت پسندانہ رجحان (social realism) کے جائزے کے لیے اہم ہے۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اردو ادب صرف جمالیاتی لطف کا ذریعہ نہیں بلکہ ایک سماجی شعور اور مزاحمتی بیانیہ بھی ہے۔
اردو ادب کی ایک اہم اور طاقتور جہت "سماجی حقیقت پسندی" (Social Realism) ہے۔ بیسویں صدی کی ابتدا سے، بالخصوص ترقی پسند تحریک کے بعد اردو ادیبوں نے معاشرے کے ان پہلوؤں کو موضوع بنایا جو اس سے قبل ممنوع یا نظر انداز سمجھے جاتے تھے۔ غربت، ظلم، ناانصافی، جنسی استحصال، طبقاتی تقسیم، مذہبی شدت پسندی اور سب سے بڑھ کر "جرم اور اس کی وجوہات" اردو ادب کا اہم موضوع بننے لگے۔
ترقی پسند تحریک کے زیرِ اثر اردو ادب میں ایک واضح رجحان سامنے آیا کہ جرم کو صرف فرد کی خرابی کے طور پر نہیں دیکھا گیا بلکہ معاشرتی ناہمواری، طبقاتی تفریق، معاشی جبر، اور سماجی استحصال کا نتیجہ قرار دیا گیا۔
مثال کے طور پر
اگر کوئی نوجوان چوری کرتا ہے، تو اس کے پیچھے غربت اور بے روزگاری کا بیان ہوتا ہے۔
اگر کوئی عورت جسم فروشی پر مجبور ہوتی ہے، تو اس کی جڑیں سماجی نظام میں تلاش کی جاسکتی ہیں۔
اردو کے افسانہ نگاروں اور ناول نویسوں نے ایسے کردار تخلیق کیے جو مکمل مجرم ہیں، نہ مکمل معصوم۔ وہ حالات کے مارے ہوئے، مجبور، یا نفسیاتی تضاد کا شکار لوگ ہوتے ہیں۔
یہ حقیقت نگاری جرم کو ایک انسانی المیہ کے طور پر پیش کرتی ہے۔

منٹو کے "ٹھنڈا گوشت" یا "بو" جیسے افسانے جنسی جرائم کے نفسیاتی اور تہذیبی پس منظر کو ظاہر کرتے ہیں۔
عصمت چغتائی کا "لحاف" ایک ممنوع موضوع کو اس انداز میں پیش کرتا ہے کہ جرم کا تصور بھی قاری کی سماجی تربیت پر سوال اٹھاتا ہے۔عبداللہ حسین کے ناولوں میں مجرم کے نفسیاتی پہلو اور جرمیاتی کلچر کی کیفیات کی منظر کشی کی گئی ہے۔
اردو ادب صرف جرم کی منظر کشی نہیں کرتا بلکہ وہ
جرم کی وجوہات کو بے نقاب بھی کرتا ہے۔
مجرم کو انسانی سطح پر دکھاتا ہے؛
معاشرتی اداروں پر تنقیدی سوال اٹھاتا ہے؛
اور
بسا اوقات ادب خود احتجاج بن جاتا ہے۔
یہی وہ مقام ہے جہاں جرمیاتی کلچر اور ادبی حقیقت نگاری ایک دوسرے سے جُڑتے ہیں، اور یوں اردو ادب اپنے قاری کو محض تفریح نہیں، بلکہ شعور اور فہم بھی عطا کرتا ہے۔




 
Dr Saif Wallahray
About the Author: Dr Saif Wallahray Read More Articles by Dr Saif Wallahray: 10 Articles with 3391 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.