تحریر: ڈاکٹرافضل رضوی فلسطینی عوام کی آزادی اور ریاست کے قیام کی جدوجہد ایک صدی پر محیط ہے۔ اقوامِ متحدہ کے متعدد قراردادوں اور بین الاقوامی وعدوں کے باوجود یہ مسئلہ دنیا کے سب سے پیچیدہ اور حساس تنازعات میں شامل رہا ہے۔ کئی دہائیوں سے عالمی برادری دو ریاستی حل کو مشرقِ وسطیٰ میں پائیدار امن کے لیے واحد راستہ قرار دیتی رہی ہے، لیکن عملی اقدامات نہ ہونے کے برابر تھے۔ 21 ستمبر 2025 کو آسٹریلیا نے باضابطہ طور پر ریاستِ فلسطین کو تسلیم کرکے نہ صرف اپنی خارجہ پالیسی میں ایک اہم موڑ لیا بلکہ عالمی برادری میں ایک نئی امید کی کرن بھی روشن کی۔ آسٹریلیا کا فیصلہ اور اس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اس سلسلے میں آسٹریلیا کے وزیراعظم انتھونی البانیز ی اور وزیرِ خارجہ پینی وونگ نے مشترکہ بیان میں اعلان کیا کہ آسٹریلیا آزاد اور خودمختار ریاستِ فلسطین کو تسلیم کرتا ہے۔ یہ اقدام کینیڈا اور برطانیہ کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر اٹھایا گیا ہے، جسے ایک مربوط عالمی کوشش کا حصہ قرار دیا جا رہا ہے۔ :بیان میں کہا گیا کہ: "آج آسٹریلیا فلسطینی عوام کی اپنی ریاست قائم کرنے کی جائز اور دیرینہ خواہشات کو تسلیم کرتا ہے۔ یہ فیصلہ صرف سفارتی نہیں بلکہ انسانی وقار اور عالمی انصاف سے وابستہ ایک اخلاقی عہد بھی ہے۔" یہ اقدام اس بات کی علامت ہے کہ آسٹریلیا نہ صرف مشرقِ وسطیٰ میں امن و سلامتی کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہتا ہے بلکہ بین الاقوامی اصولوں کی پاسداری میں بھی سنجیدہ ہے۔ تاہم اس قبولیت میں چند شرائط اور اصلاحات کا تقاضابھی کیاگیا ہے۔آسٹریلیا کی طرف سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ اگرچہ فلسطین کو تسلیم کرنے کا یہ فیصلہ تاریخی ہے، لیکن اس کے ساتھ کچھ شرائط بھی وابستہ ہیں۔ آسٹریلیا اور اس کے اتحادیوں نے واضح کیا ہے کہ: اولاً،فلسطینی اتھارٹی کو اسرائیل کے وجود کے حق کو تسلیم کرنا ہوگا (جس کی یقین دہانی صدر فلسطینی اتھارٹی نے دوبارہ کرائی ہے)۔ ثانیاً ،جمہوری انتخابات منعقد کرنا اور شفاف طرزِ حکمرانی کو فروغ دینا ناگزیر ہے۔ثالثاً، مالیاتی احتساب، تعلیمی اصلاحات اور ادارہ جاتی شفافیت کو یقینی بنانا ہوگا۔رابعاً، حماس جیسی دہشت گرد تنظیموں کو مستقبل کے سیاسی ڈھانچے سے مکمل طور پر باہر رکھا جائے گا۔ یہ شرائط اگرچہ سخت ہیں، لیکن ان کا مقصد ایک پائیدار اور قابلِ اعتماد فلسطینی ریاست کی بنیاد رکھنا ہے۔ اس سلسلے میں بین الاقوامی تناظر اور ردِعمل بہت زیادہ واضح نہیں کیونکہ امریکہ اس فیصلے کو نظرِاستحسان سے نہیں دیکھتا۔ لیکن اس بات سے بھی انکار ممکن نہیں کہ آسٹریلیا کا فیصلہ عالمی سفارتکاری میں ایک نئے مرحلے کی نمائندگی کرتا ہے۔ اس وقت امریکہ، عرب لیگ کے ممالک اور یورپی اتحادی ایک ایسے امن منصوبے پر کام کر رہے ہیں جس کا مقصد: غزہ کی تعمیرِ نو،فلسطینی ریاستی اداروں کی مضبوطی، اور اسرائیل کی سلامتی کو یقینی بنانا ہے۔ یہ اقدام ایک ایسے وقت پر سامنے آیا ہے جب مشرقِ وسطیٰ کئی دہائیوں کی کشمکش کے بعد امن کی تلاش میں ہے۔ عرب دنیا میں اس فیصلے کو مثبت پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے، جبکہ اسرائیل نے اس پر محتاط ردِعمل ظاہر کیا ہے۔ آسٹریلیا نے عندیہ دیا ہے کہ جیسے ہی فلسطینی اتھارٹی اپنی اصلاحات پر عملدرآمد کو یقینی بنائے گی، دونوں ممالک کے درمیان باضابطہ سفارتی تعلقات قائم کیے جائیں گے اور سفارتخانے کھولے جائیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ آسٹریلیا انسانی ہمدردی کی بنیاد پر غزہ میں تعمیرِ نو، تعلیمی پروگرامز اور ثقافتی تبادلوں میں بھی کردار ادا کرے گا۔ آسٹریلیا کا یہ فیصلہ فلسطینی عوام کے لیے ایک بڑی اخلاقی اور سفارتی جیت ہے، لیکن یہ عمل محض ایک آغاز ہے۔ اصل چیلنج ان وعدوں کی تکمیل اور خطے میں پائیدار امن قائم کرنے کا ہے۔ اگر یہ اقدامات کامیابی سے مکمل ہو گئے تو مشرقِ وسطیٰ کے مستقبل میں ایک نئے باب کا آغاز ہوگا۔ یہ فیصلہ اس بات کی علامت ہے کہ عالمی ضمیر اب فلسطینی عوام کی دیرینہ جدوجہد کو نظرانداز نہیں کر سکتا۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ تسلیم شدگی عملی امن کی صورت اختیار کرے گی یا ایک اور سفارتی بیان بن کر رہ جائے گی؟ وقت ہی اس کا فیصلہ کرے گا۔
|