کھیلوں کا تماشہ: ڈی ایس اوز، پی آر اوز اور کمپیوٹر کے بھوت


ہمارے پیارے خیبرپختونخواہ کے ڈسٹرکٹ اسپورٹس آفیسرز (DSOs) کھیلوں کے فروغ میں اتنے مصروف ہیں کہ لگتا ہے انہوں نے کھیل کو کسی اور لغت میں دوبارہ تعریف کر ڈالا ہے۔ کھیل ان کے ہاں وہ ہوتا ہے جو کاغذ پر کھیل لیا جائے۔ جیسے بچپن میں ہم سب کرکٹ کھیلنے کے بجائے اپنی کاپیاں بھر کر سکور بورڈ بنایا کرتے تھے، بالکل ویسے ہی یہ DSOs پورے زور و شور سے کھیل رہے ہیں۔ فرق بس اتنا ہے کہ ہم کھلونے کے بیٹ سے کھیلتے تھے، یہ کروڑوں کے بجٹ سے کھیل رہے ہیں۔

ایک سال پہلے ہم نے بڑے ادب اور احترام کے ساتھ نوشہرہ، چارسدہ، پشاور، صوابی، تورغر، لوئر دیر، ملاکنڈ اور ٹانک کے DSOs کو خط لکھا۔ سوال صرف اتنا تھا کہ حضور، 2023-24 اور 2024-25 میں کھیلوں کے نام پر آپ نے کیا تیر مارا؟ جواب آیا… "خاموشی"۔یہ خاموشی اتنی گہری تھی کہ گمان ہوا شاید RTI قانون کے ساتھ ساتھ ہمارا سوال بھی قبر میں جا سویا۔ اور تو اور، PIO صاحب نے تو کمال ہی کر دیا۔ وہ ہر درخواست کو ایسے نمٹاتے ہیں جیسے عید پر ہم پرانے کپڑے نمٹاتے ہیں۔ جواب؟ "بھائی، درخواست تو ختم ہوگئی۔" کیا ملا؟ کچھ بھی نہیں۔

ضلع خیبر کے ڈی ایس او نے خاص کر ہمیں چکرا دیا۔ کمال اعتماد کے ساتھ لکھا: چار سرگرمیاں ہوئیں۔ ہم خوش ہو گئے، واہ! ترقی آ رہی ہے۔ جب جا کر دیکھا تو پتہ چلا کہ چار میں سے تین سرگرمیاں ہوا میں ہوئیں، بس ایک زمین پر۔ باقی تین شاید خلا نوردوں کے ساتھ کہیں کھیلی گئی ہوں، یا پھر ان کا ایونٹ بس فائل کے ساتھ فائلوں کے کھیل میں جیت گیا ہو۔

اب آتے ہیں اصل کھیل پر۔ کچھ افسر ایسے بھی ہیں جو صرف آفیسر نہیں بلکہ "ٹھیکیدار" بھی ہیں۔ ان کے پاس دو ہی شوق ہیں کمپیوٹرز اور سامان خریدنا، وہ بھی ایسے کہ لگے گویا NASA کے مشن کی تیاری ہو رہی ہے۔ لیکن افسوس، وہ کمپیوٹر آخر کہاں گئے؟ شاید اب کسی کے گھروں میں "کھیلوں کے فروغ" کے نام پر بچوں کے کارٹون دکھانے کا کام کر رہے ہیں۔

ہماری کھیلوں کی دنیا اب کچھ یوں ہے ایونٹ ہوتا ہے، مگر صرف رپورٹ میں۔ سامان خریدا جاتا ہے، مگر صرف بل پر۔ درخواست کی جاتی ہے، مگر جواب ملتا ہے "اللہ مالک ہے"۔ فنڈ آتا ہے، مگر راستے میں غائب ہو جاتا ہے جیسے پانی ریت میں۔ یہ سب دیکھ کر لگتا ہے کہ DSOs کو جادو کا سرٹیفکیٹ بھی دینا چاہیے۔ "سامنے کچھ اور، پیچھے کچھ اور۔"DSOs کی تنخواہیں، ان کے سفر خرچے، ان کے روزگار کے ڈرامے — سب کچھ عوام کے ٹیکس سے چل رہا ہے۔ لیکن کھیلوں کی اصل حالت دیکھی جائے تو گراونڈ ویران، کوچز دفتر کے کلرک بنے ہوئے، اور نوجوان صرف یہ دعا کر رہے ہیں کہ کبھی کوئی سچا ایونٹ بھی ہو۔

DSOs اتنے مصروف ہیں کہ شاید ان کا اصل کھیل "درخواستیں نظر انداز کرنا" ہے۔ PIO صاحب تو "سب سے تیز رنر" نکلے۔ درخواست آتی ہے، اور وہ فوراً فنش لائن کراس کر کے کہتے ہیں: "ہو گیا نمٹا دیا۔" کمپیوٹرز کی خریداری کا حال یہ ہے کہ اگر واقعی یہ سب کمپیوٹرز آ گئے ہوتے تو آج خیبر پختونخوا کا ہر گراونڈ Wi-Fi زون بن چکا ہوتا۔

سوال یہ ہے کہ اب کیا ہوگا؟ سچ کہوں تو کچھ نہیں۔ اگلے سال پھر کوئی رپورٹ آئے گی کہ "2025-26 میں 10 سرگرمیاں ہوئیں"۔ ہم خوش ہو جائیں گے۔ جب جا کر دیکھیں گے تو پتہ چلے گا کہ دس میں سے نو بس "روحانی سرگرمیاں" تھیں، جو نظر نہیں آتیں۔ کھیلوں کے نام پر یہ جو جگ ہنسائی ہو رہی ہے، وہ ایک طرف، مگر اصل نقصان نوجوانوں کا ہے جنہیں کھیلوں کے میدان چاہئیں، مقابلے چاہئیں اور موقعے چاہئیں۔ بدقسمتی سے ان کے حصے میں صرف "کاغذی کھیل" آتے ہیں۔

یہ DSOs اگر واقعی کھیل کھیلنا چاہتے ہیں تو بہتر ہے کہ وہ ایک نئی گیم ایجاد کر لیں "RTI ہاکی" — جہاں گیند عوام پھینکے، اور اسٹک سے افسران اسے گول کے باہر نکال دیں۔یا پھر "فنڈز کرکٹ" — جہاں ہر گیند کے ساتھ بجٹ ہڑپ کیا جائے اور آخر میں کہا جائے: "میچ کامیاب رہا۔" آخر میں دعا یہی ہے کہ کبھی محکمہ سپورٹس کے DSOs کھیلوں کو کھیل سمجھ کر کھیلیں بھی، ورنہ فی الحال تو وہ کھیل کو کھلواڑ بنا کر ہنس بھی رہے ہیں اور ہمیں رلا بھی رہے ہیں۔

#kikxnow #digitalcreator #sportnews #mojo #mojosports #kpk #kp #pakistan #sportissue #gamesonhay


Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 802 Articles with 670121 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More