کھیلوں کا محکمہ یا “پرفارمنس لیس ڈائریکٹوریٹ”؟
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
خیبرپختونخوا سپورٹس ڈائریکٹوریٹ کا حال کچھ ایسا ہے جیسے کوئی پرانا فٹبال جس کی ہوا نکل چکی ہو، مگر پھر بھی شوکیس میں سجا ہو، صرف یاد دلانے کے لیے کہ کبھی یہ بھی کسی مقصد کے لیے تھا۔ نام بڑا، کام چھوٹا، اور رویہ اتنا نرالا کہ لگتا ہے کھیلوں سے زیادہ افسران کو “کنٹرول گیم” پسند ہے۔یہ ادارہ کب کا کھیلوں کا فروغ چھوڑ کر “خاموشی کی سیاست” میں مشغول ہے۔ چاہے انسانی سمگلنگ ہو، فنڈز کی خوردبرد، یا ناقص منصوبے — ہر واقعے پر ان کا ردعمل ایک ہی ہے: “ہم معاملہ دیکھ رہے ہیں۔” مگر یہ “دیکھنا” برسوں سے چل رہا ہے، جیسے کوئی فلم ہو جو شروع تو ہو گئی مگر کبھی ختم نہیں ہوتی۔
سب سے پہلے فٹ سال کا کھیل لیجیے۔ بظاہر یہ انڈور گیم ہے، مگر خیبرپختونخوا میں اس نے بین الاقوامی پرواز پکڑ لی۔ کولمبیا سے امریکی سرزمین تک کھلاڑی ایسے گئے جیسے وہ کوئی عالمی ایونٹ کھیلنے جا رہے ہوں، مگر دراصل وہ کھیل “ویزہ مینجمنٹ” کا تھا۔جب ایف آئی اے نے نوٹس لیا، گرفتاریاں ہوئیں، تب پتہ چلا کہ میدان میں گول نہیں، بلکہ پورا ملک “ٹارگٹ” تھا۔ اور سپورٹس ڈائریکٹوریٹ؟ وہ حسبِ روایت خاموش۔ شاید انہیں لگا یہ کوئی ٹورزم ڈیپارٹمنٹ کا منصوبہ ہے — “کھلاڑیوں کو امریکہ دکھاو¿ پراجیکٹ”۔
سکواش پاکستان کا فخر ہوا کرتا تھا۔ جہانگیر خان، جان شیر خان، وہ نام جنہوں نے ملک کا پرچم دنیا بھر میں لہرایا۔ مگر آج وہی کھیل بدعنوانی کے طوفان میں دب چکا ہے۔ جب جعلی اسپانسرشپ لیٹرز کے ذریعے کھلاڑیوں کو بیرونِ ملک بھیجنے کا اسکینڈل سامنے آیا تو امید تھی کہ سپورٹس ڈائریکٹوریٹ جاگے گا۔ مگر انہوں نے جاگنے کے بجائے کمبل سر پر کھینچ لیا۔ الٹا معاملہ دبانے کی کوشش کی گئی۔ افسران کا مو¿قف تھا کہ اگر یہ بات سامنے آگئی تو “ڈیپارٹمنٹ بدنام ہو جائے گا”۔ گویا بدنامی جرم سے بڑی ہے، اس لیے جرم کو چھپا دو تاکہ سکون سے بدنامی سے بچا جا سکے۔
صوابی میں ہاکی کے نام پر جو کچھ ہوا، وہ کھیل نہیں بلکہ “پاسپورٹ پریمیر لیگ” تھی۔ کھلاڑی نہیں، امیدوار تھے؛ کوچ نہیں، ایجنٹ تھے۔ انسانی سمگلنگ کا شور اٹھا، مگر سپورٹس ڈائریکٹوریٹ پھر بھی بے حس رہا۔کبھی کبھی لگتا ہے کہ اس ادارے نے خود کو قانون سے بالاتر سمجھ لیا ہے، یا پھر اتنے طاقتور ہاتھ اوپر ہیں کہ کوئی بھی ان کی کالر نہیں پکڑ سکتا۔اب ذرا سکواش کورٹس کی تعمیر کی کہانی سنیں۔ آٹھ کورٹ، ہر ایک پر ایک کروڑ سے زائد خرچ۔نتیجہ؟ ناقص تعمیر، دیواروں پر دراڑیں، فرش پر نشان، اور دروازے ایسے کہ گیند لگے تو واپس آنے کی بجائے “معافی” مانگ لے۔پوچھنے والا کوئی نہیں۔ ادارہ بھی شاید سمجھتا ہے کہ کھیلوں کے بجائے ٹھیکیداروں کے ریکارڈ ہی اصل کامیابی ہیں۔
لالہ ایوب ہاکی سٹڈیم کی بارہ کروڑ روپے کی ٹرف، مشینیں ناکارہ، فوارے بند، اور “تکنیکی کام” اس حد تک گیا کہ بیس کلو کیلوں سے ٹرف کو ٹھونک دیا گیا۔ کوئی اور ملک ہوتا تو ذمہ دار جیل میں ہوتے، مگر یہاں سب اطمینان سے چائے پی رہے ہیں۔سپورٹس ڈائریکٹوریٹ کا ردعمل؟ “ہم کمیٹی بنا رہے ہیں۔” اور یہ کمیٹیاں اتنی بن چکی ہیں کہ اب خود کمیٹیوں کے لیے کمیٹی بنانی پڑے گی۔کھیلوں کے ایک ہزار منصوبے سمیت صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کی اکیس سے زائد کی گاڑیاں غائب ہیں۔کمیٹی بنی ہے، رپورٹ آنی ہے، لیکن کب — یہ کوئی نہیں جانتا۔ شاید گاڑیاں بھی رپورٹ لکھنے گئی ہوں۔
پشاور اسپورٹس کمپلیکس کے ہاسٹل میں افسران نے قبضہ جما رکھا ہے۔کئی سالوں سے مفت میں رہائش، کرایہ نہیں، مگر ہاو¿س رینٹ الاو¿نس باقاعدگی سے لیتے ہیں۔یعنی سرکاری گھر بھی، الاو¿نس بھی، اور اخلاقیات کہیں نہیں۔یہی وہ “کھیل” ہے جس میں سپورٹس ڈائریکٹوریٹ ہمیشہ چیمپئن رہتا ہے۔پشاور سپورٹس کمپلیکس کا ایتھلیٹکس گراونڈ کئی سالوں سے زیر تعمیر ہے۔ شروع میں 38 کروڑ کا منصوبہ تھا، اب 68 کروڑ پر پہنچ گیا۔ اور افسران شاید پرامید ہیں کہ اگلے سال 100 کروڑ کا ہدف پورا ہو جائے گا۔یہ منصوبہ کھیل نہیں، بلکہ “مالیاتی میراتھن” بن چکا ہے — جس میں لائن فیتہ ہمیشہ دور بھاگتا ہے۔
پاڑہ چنار میں 2022 سے ہاکی ٹرف کا منصوبہ رکا ہوا ہے۔ ہر سال “کام شروع ہونے والا ہے” کی خبر آتی ہے، اور ہر سال “کام ر±کا ہوا ہے” کی تصدیق ہوتی ہے۔ شاید وہاں کے لوگ اب کھیل کے بجائے “اعلان بازی” دیکھنے کے عادی ہو گئے ہیں۔عام کھلاڑیوں کے لیے فنڈز نہیں، تربیتی کیمپ نہیں، کوچنگ نہیں۔ مگر کچھ “خاص کھلاڑی” ایسے ہیں جنہیں ایک سال میں چونسٹھ لاکھ روپے تک دیے گئے۔ وجہ؟ وہ “چمکدار فائلوں” والے کھلاڑی ہیں۔ یعنی جن کے اسپانسر درست، تعلقات مضبوط، اور افسران کے ساتھ سیلفی گیلری مکمل۔
پشاور، چارسدہ، اور نوشہرہ جیسے اضلاع میں سپورٹس دفاتر کے پاس سال 2023-24 اور 2024-25 کا مکمل ریکارڈ ہی نہیں۔ کسی کو معلوم نہیں کہ کتنے ایونٹ ہوئے، کتنے کھلاڑی تیار ہوئے۔ افسران وہی پرانے، پوسٹنگ وہی جگہ، کیونکہ سیاسی سپورٹ مضبوط ہے۔ گریڈ بیس کے افسران تک ان سے پوچھ نہیں سکتے۔ یہ کھیل نہیں، بلکہ سرکاری نوکری کا “سیزن ٹکٹ” ہے۔اگر کوئی ملازم یا ایسوسی ایشن ان بے ضابطگیوں پر بات کرے تو فوراً انتقامی کارروائی شروع ہو جاتی ہے۔ تبادلے، شوکاز، اور دباو۔ افسران کو تنقید برداشت نہیں۔ کھیلوں کی دنیا میں جہاں تنقید سے کارکردگی بہتر بنتی ہے، یہاں تنقید سے نوکری خطرے میں پڑ جاتی ہے۔
یہ تمام صورتحال دیکھ کر صاف لگتا ہے کہ سپورٹس ڈائریکٹوریٹ کا مقصد کھیلوں کا فروغ نہیں بلکہ خاموشی کا تحفظ ہے۔ جن اداروں کو کھلاڑیوں کا مستقبل بنانا تھا، وہ اب فائلوں اور فنڈز کے کھیل میں الجھ گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ صوبے میں کھیل کا میدان خالی ہے، مگر افسروں کے کمروں میں مصروفیت عروج پر ہے۔ کھیلوں کے منصوبے “آفیشل تصاویر” تک محدود ہو گئے ہیں۔ اور جو نوجوان کھلاڑی ہیں، وہ یا تو مایوس ہو کر کھیل چھوڑ دیتے ہیں، یا کسی این جی او کے ٹریننگ کیمپ میں “حقیقی کھیل” سیکھنے چلے جاتے ہیں۔ اگر یہ صورتحال برقرار رہی تو اگلے چند سالوں میں خیبرپختونخوا کے کھیلوں پر شاید یہ بورڈ لگ جائے گا:
“یہ میدان خالی ہے، کھیلوں کا محکمہ مصروف ہے — رپورٹ لکھنے میں۔” خیبرپختونخوا سپورٹس ڈائریکٹوریٹ کو اب یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ کھیلوں کا ادارہ ہے یا سیاسی وفاداریوں کا پناہ گاہ۔جب تک نظام میں شفافیت، جواب دہی اور پیشہ ورانہ رویہ نہیں آتا، تب تک میدانوں میں خاموشی اور دفاتر میں شور جاری رہے گا۔
#kikxnow #digitalcreator #musarratullah #writeup #column #sportsnews #mojo #mojosports #kpsports
|