صارفی کلچر اور انسان کی معنویت : اردو ادب کا فکری ردِعمل

صارفی کلچر اور انسان کی معنویت : اردو ادب کا فکری ردِعمل
------------------------------------------------------
جدید دنیا میں انسانی
معاشرت کا مطالعہ اب محض سیاسی یا سماجی زاویوں سے ممکن نہیں رہا۔ بیسویں اور اکیسویں صدی کی تہذیبی تشکیل میں معاشی و نفسیاتی عناصر کو مرکزی حیثیت حاصل ہو گئی ہے۔ آج انسان کا طرزِ زندگی، اس کی شناخت، تعلقات اور حتیٰ کہ اس کی اقدار کا نظام بھی اس کے صارفانہ رویوں سے جڑا ہوا ہے۔ اس لیے معاصر معاشرہ بجا طور پر "صارفی کلچر" کے زیرِ اثر معاشرہ کہلایا جا سکتا ہے۔ یہ ایک ایسا مظہر ہے جس میں خرید و فروخت، استعمال، اور مادی اشیاء کے گرد گھومتی ہوئی انسانی سرگرمیاں ثقافت، اخلاق اور سماجی شعور کو متعین کرتی ہیں۔
معاشرتی علوم کے مطابق کلچر ہمیشہ تغیر پذیر ہوتا ہے۔ ریمونڈ ولیمز نے کہا تھا کہ "کلچر ایک زندہ مظہر ہے جو انسان کے روزمرہ اعمال میں رچا بسا ہوتا ہے۔ اس نظریے کے تناظر میں صارفیت محض اقتصادی سرگرمی نہیں بلکہ ایک علامتی نظام بھی ہے۔ اس میں اشیاء اور برانڈز انسانی رشتوں، شناخت اور وقار کے پیمانے بن جاتے ہیں۔ جدید انسان کی نفسیاتی ساخت " یعنی "میں استعمال کرتا ہوں، اس لیے میں ہوں" کے فلسفے کے گرد گھومنے لگی ہے، جو ایک مفکر کی تعبیر ہے۔
صارفی کلچر کی تشکیل کا تاریخی پس منظر صنعتی انقلاب سے جڑا ہے۔ جب مشینوں نے پیداوار میں بے پناہ اضافہ کیا تو منڈیوں کو نئی طلب درکار ہوئی۔ اس طلب کو مصنوعی طور پر پیدا کرنے کے لیے اشتہار بازی اور مارکیٹنگ کے سائنسی اصول متعارف ہوئے۔ ایڈورڈ برنیز ، نے نفسیات کے اصولوں کو اشتہارات میں استعمال کیا تاکہ عوام کے لاشعور کو خریداری پر آمادہ کیا جا سکے۔ یوں صارفیت نفسیاتی منڈی کا روپ دھار گئی جہاں خواہشات خود مصنوعات کی تخلیق سے پہلے وجود میں لائی جاتی ہیں۔
پاکستانی سیاق و تناظر میں صارفی کلچر کا ظہور 1980ء سے قبل ہوا جب ملٹی نیشنل کمپنیوں، الیکٹرانک میڈیا اور اشتہارات نے شہری طبقات کے سماجی توازن کو بدل دیا۔ اشتہارات نے نہ صرف مصنوعات بیچیں بلکہ ایک نیا طرزِ زندگی متعارف کرایا۔ کوکا کولا، نیسلے، لیویز اور نائیک جیسے برانڈز محض اشیاء نہیں رہے بلکہ سماجی حیثیت کی علامت بن گئے۔ اس رجحان کو ماہرِ سماجیات زیگمنٹ بومن نے "Liquid Modernity" کہا، جس میں انسان مسلسل تبدیلی اور خواہش کی حالت میں جیتا ہے۔
نفسیاتی طور پر صارفی کلچر " ڈوپامین اکنامی" کے اصول پر کام کرتا ہے۔ جدید سائنسی تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ خریداری کے عمل میں انسانی دماغ میں "ڈوپامین" نامی کیمیکل خارج ہوتا ہے جو وقتی خوشی اور تسکین کا احساس دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ غیر ضروری اشیاء خرید کر وقتی اطمینان حاصل کرتے ہیں، لیکن کچھ ہی دیر بعد یہ تسکین ختم ہو جاتی ہے، اور وہ دوبارہ خریداری کی طرف مائل ہو جاتے ہیں۔ یہی عمل صارفیت کا نفسیاتی چکر ہے جو سرمایہ دارانہ نظام کو مسلسل رواں رکھتا ہے۔
ڈیجیٹل عہد میں صارفیت نے ایک نئی صورت اختیار کر لی ہے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز جیسے انسٹاگرام، یوٹیوب اور ٹک ٹاک نے "ڈیجیٹل انفلوئنسرز" کو ایک نئی منڈی میں بدل دیا ہے۔ اب اشتہارات براہِ راست انسانی زندگی میں گھل مل گئے ہیں۔ کسی معروف شخصیت کے ہاتھ میں موجود برانڈ کی تصویر ایک لطیف نفسیاتی تجویز کے طور پر صارف کے ذہن پر اثر ڈالتی ہے۔ سائنسی بنیادوں پر کیے گئے مطالعات کے مطابق، ڈیجیٹل اشتہارات بہ نسبت روایتی اشتہارات کے۔ انسانی فیصلوں پر 60%سے زیادہ اثر انداز ہوتے ہیں
معاشی اعتبار سے صارفی کلچر سرمایہ دارانہ معیشت کی بنیاد ہے۔ سرمایہ داری اپنے وجود کے لیے مسلسل کھپت کی متقاضی ہے، اور اس مقصد کے لیے یہ خواہشات کو اشیاء میں ڈھالتی ہے۔ کارل مارکس نے اس رجحان کو "اجناس فیٹشزم" کہا تھا، یعنی اشیاء کو اس درجہ تقدس حاصل ہو جانا کہ وہ انسانی رشتوں کی جگہ لے لیں۔ یہی تصور آج کے صارف معاشرے میں برانڈز کے ذریعے عملی شکل اختیار کر چکا ہے۔
سماجی سطح پر اس کلچر کے اثرات پیچیدہ ہیں۔ صارفیت نے ایک طرف معیشت کو ترقی دی، روزگار کے مواقع پیدا کیے، اور جدت کو فروغ دیا، مگر دوسری جانب اس نے طبقاتی تفاوت، حسد، مصنوعی کامیابی کے تصورات، اور نفسیاتی دباؤ کو بڑھایا ہے۔ متوسط طبقہ اپنی حیثیت سے بڑھ کر برانڈیڈ اشیاء خریدنے کی دوڑ میں قرض، ذہنی دباؤ اور عدم اطمینان کا شکار ہے۔ خواتین کو اشتہارات میں اکثر "صارفانہ علامت" کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، جس سے سماجی رویوں میں جنس پرستی اور سطحیت کو فروغ ملا ہے۔
اسلامی نقطۂ نظر سے صارفیت ایک اخلاقی اور روحانی بحران ہے۔ اسلام قناعت، سادگی، اور میانہ روی کی تعلیم دیتا ہے۔ قرآن میں ارشاد ہے: "اور اپنے ہاتھ کو اپنی گردن سے بندھا ہوا نہ رکھ اور نہ ہی بالکل کھول دے کہ ملامت زدہ اور تھکا ہوا بیٹھ جائے" ۔ یہ آیت معاشی توازن اور ذمہ دار خرچ کے تصور کو واضح کرتی ہے۔ جدید مسلم مفکرین نے بھی معاشی ترقی کو اخلاقی حدود میں رکھنے پر زور دیا ہے تاکہ مادیت روحانیت پر غالب نہ آ جائے۔
سائنسی ، سماجی اور ادبی تحقیق کے مطابق، صارفیت کے اثرات صرف معیشت تک محدود نہیں بلکہ انسانی ذہن اور سماجی رشتوں تک پھیلے ہوئے ہیں۔
اردو ادب ہمیشہ انسانی معاشرت، ثقافت اور تہذیب کے بدلتے ہوئے رنگوں کا آئینہ دار رہا ہے۔ ہر دور میں ادب نے اپنے عہد کی فکری، معاشی اور سماجی صورتِ حال کو نہ صرف محسوس کیا بلکہ اس پر تنقیدی ردِعمل بھی ظاہر کیا۔ ترقی پسند تحریک کے زمانے میں ادب نے سرمایہ دارانہ نظام کی ناہمواریوں، طبقاتی تفاوت اور استحصالی ڈھانچے پر شدید تنقید کی، مگر جب دنیا سرمایہ داری کے بعد صارفیت کے دور میں داخل ہوئی تو اردو ادب میں بھی اس کے اثرات واضح ہونے لگے۔ یہ وہ مرحلہ تھا جب انسانی اقدار، تعلقات اور شناخت بازار کے اصولوں کے تابع ہونے لگیں، اور ادب کو اس نئے انسانی المیے کو فکری اور جمالیاتی طور پر برتنے کی ضرورت پیش آئی۔
صارفیت نے انسانی وجود کو مادی اشیاء کے ذریعے متعین کر دیا۔ اب انسان کی پہچان اس کے خیالات یا کردار سے نہیں بلکہ اس کی ملکیت، برانڈ، لباس، گاڑی اور طرزِ زندگی سے وابستہ ہو گئی۔ یہی تبدیلی اردو ناول اور افسانے کے کرداروں میں بھی دکھائی دیتی ہے۔عبداللہ حسین ،شوکت صدیقی مستنصر حسین تارڑ، انتظار حسین، بانو قدسیہ اور چند ہم عصر ادیبوں نے شہری متوسط طبقے کے ایسے کردار تخلیق کیے جو اپنی داخلی بےچینی، احساسِ کمتری اور روحانی خلا کو مادی آسائشوں کے ذریعے پُر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کے افسانوی مناظر میں خرید و فروخت، شہرت، ظاہری کامیابی اور مسابقت جیسے رویے انسانی تعلقات کی بنیاد بنتے ہیں۔ محبت، خلوص اور قربانی جیسے اقدار اب جذبات نہیں بلکہ سماجی “سرمایہ” بن گئے ہیں جنہیں لوگ اپنے مفاد کے مطابق استعمال کرتے ہیں۔
ادبی صارفیت نے عورت کے کردار کو بھی نئے زاویے سے متعارف کرایا ہے۔ ماضی میں عورت معاشرتی اور اخلاقی اقدار کی علامت سمجھی جاتی تھی، لیکن موجودہ عہد میں وہ اشتہارات، فیشن اور میڈیا کے ذریعے ایک "مارکیٹ شبیہ" کے طور پر سامنے آتی ہے۔ جدید اردو افسانے اور ناول میں عورت کی شناخت اب اس کے لباس، خوبصورتی اور نمود و نمائش سے وابستہ دکھائی دیتی ہے۔ تاہم نسائی ادب نے اس مصنوعی تشکیل پر تنقیدی نگاہ ڈالی ہے۔
الطاف فاطمہ، بانو قدسیہ، جمیلہ ہاشمی، حجاب امتیاز علی، جیلانی بانو اور نورالہدیٰ شاہ، نیلم احمد بشیر اور فہمیدہ ریاض نے عورت کی اس “برانڈیڈ شناخت” کو رد کرتے ہوئے یہ دکھایا ہے کہ صارفیت نے عورت کو نہ صرف جنسِ بازار بنایا بلکہ اس کی داخلی شخصیت کو بھی تجارتی منطق میں جکڑ دیا ہے۔
شاعری جو ہمیشہ انسانی احساسات کی لطیف ترین ترجمان رہی ہے، وہ بھی صارفیت کے دباؤ سے محفوظ نہ رہ سکی۔ جدید نظم، نثری شاعری اور بعد از جدید رجحانات میں انسان کی تنہائی، وجودی خلا اور مصنوعی مسرتوں کی جھلک نمایاں ہے۔ احمد فراز، کشور ناہید، زاہدہ حنا، افتخار عارف اور فہمیدہ ریاض کی شاعری میں شہر، روشنی، اشتہار، اور شور کی علامتوں کےاستعمال سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ انسان اپنی روحانی اور اخلاقی قدروں سے کٹ کر مادی حصول کے دائرے میں قید ہو چکا ہے۔ شاعر کے لیے یہ دنیا ایک ایسی “خوبصورت قید” بن چکی ہے جہاں ہر چیز دستیاب ہے مگر معنویت ناپید ہے۔
ادبی صارفیت کے اس دور میں محض ایک عکاس نہیں بلکہ ایک نقاد کے طور پر سامنے آیا ہے۔ اس نے بازار کے اس دباؤ کے خلاف ایک فکری مزاحمت پیدا کی ہے جو انسان کو چیزوں میں بدل دینے کی کوشش کرتا ہے۔ ادب نے اپنے کرداروں، مناظر، علامتوں اور زبان کے ذریعے یہ ثابت کیا ہے کہ انسان کی اصل پہچان اس کی روحانی و فکری آزادی میں ہے، نہ کہ مادی اشیاء کے انبار میں۔ یہی تنقیدی شعور اردو ادب کو آج بھی عصری معنویت بخشتا ہے، اور یہی اسے صرف تفریح نہیں بلکہ انسان کے فکری ارتقاء کا آئینہ بنا دیتا ہے۔
صارفی کلچر محض خرید و فروخت کا نہیں بلکہ فکری، نفسیاتی اور ثقافتی بحران کا مظہر ہے۔ جب تک انسان اشیاء کے غلام رہیں گے، روحانی سکون اور سماجی انصاف ممکن نہیں۔ لہٰذا ضروری ہے کہ ہم صارفیت کو تنقیدی، سائنسی، ادبی اور اخلاقی سطح پر سمجھیں تاکہ ترقی کے ساتھ توازن، شعور اور انسانیت کا وقار بھی باقی رہے۔

 

Dr Saif Wallahray
About the Author: Dr Saif Wallahray Read More Articles by Dr Saif Wallahray: 16 Articles with 4565 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.