پاکستان کی عوام کے مسائل — ایک فکری جائزہ

پاکستان کی عوام آج مہنگائی، بیروزگاری، غربت، ناانصافی اور بدعنوانی جیسے سنگین مسائل میں گھری ہوئی ہے۔
زندگی کی بنیادی ضروریات — روٹی، تعلیم، علاج اور انصاف — عام آدمی کی پہنچ سے دور ہو چکی ہیں۔
مہنگائی نے گھر اجاڑ دیے، بیروزگاری نے نوجوانوں کے خواب توڑ دیے،
اور کرپشن نے عوام کا اعتماد ختم کر دیا۔
ان مسائل کا حل صرف حکومت کے ہاتھ میں نہیں،
بلکہ پوری قوم کی بیداری، اتحاد اور دیانت میں پوشیدہ ہے۔
جب عوام اپنے حق کے لیے باشعور ہو کر کھڑی ہوگی،
تب ہی پاکستان ترقی، انصاف اور خوشحالی کی راہ پر گامزن ہو سکے گا۔
پاکستان کی عوام کے مسائل — ایک فکری جائزہ

پاکستان ایک خوبصورت خواب کی تعبیر ہے —
ایسی سرزمین جو قربانیوں کے لہو سے سینچی گئی،
جہاں انصاف، برابری، اور فلاح کا وعدہ کیا گیا۔
مگر آج پچھتر برس گزرنے کے بعد بھی
پاکستان کی عوام ان وعدوں کی تعبیر کے انتظار میں ہے۔
ملک نے ایٹمی طاقت بننے، شاہراہوں کے جال بچھانے،
اور بلند عمارتیں کھڑی کرنے میں ترقی کی ہے،
لیکن انسان کی زندگی آسان نہیں ہوئی۔
یہی سب سے بڑا المیہ ہے۔
مہنگائی — عوام کی روزمرہ جنگ

پاکستانی عوام کا سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی ہے۔
ہر روز بڑھتی ہوئی قیمتیں لوگوں کے صبر کا امتحان لے رہی ہیں۔
روٹی، دال، چینی، تیل — یہ وہ بنیادی چیزیں ہیں
جو اب متوسط طبقے کی پہنچ سے بھی باہر ہو گئی ہیں۔
عام آدمی کے لیے زندگی اب ایک مسلسل جدوجہد بن چکی ہے۔
جہاں کبھی تنخواہ سے مہینہ چلتا تھا،
اب مہینہ تنخواہ سے بڑا ہو گیا ہے۔
یہ صورتحال صرف مالی نہیں بلکہ نفسیاتی بحران بھی پیدا کر رہی ہے —
انسان کے چہرے سے مسکراہٹ، گھروں سے سکون،
اور معاشرے سے اعتماد ختم ہو رہا ہے۔
بیروزگاری — خوابوں کا زوال

نوجوان کسی بھی قوم کا سرمایہ ہوتے ہیں،
مگر پاکستان میں یہی طبقہ سب سے زیادہ مایوسی کا شکار ہے۔
ڈگریاں ہاتھ میں ہیں مگر روزگار نایاب۔
ہر سال لاکھوں نوجوان تعلیم مکمل کرتے ہیں،
مگر نوکریاں چند ہاتھوں تک محدود رہتی ہیں۔
بیروزگاری نے نا صرف معاشی تباہی لائی ہے
بلکہ جرائم، منشیات اور ذہنی دباؤ میں بھی اضافہ کیا ہے۔
جب صلاحیتوں کو مواقع نہ ملیں،
تو معاشرہ خود اپنی بنیادیں کھو دیتا ہے۔

غربت — عزتِ نفس کی موت

غربت ایک ایسی لعنت ہے جو انسان کی روح کو کھا جاتی ہے۔
یہ محض خالی پیٹ کا نام نہیں،
بلکہ وہ احساسِ محرومی ہے جو انسان سے اُس کی خودداری چھین لیتا ہے۔
پاکستان میں کروڑوں لوگ آج بھی ایسی زندگی گزار رہے ہیں
جہاں دو وقت کی روٹی ایک خواب ہے۔
دیہاتوں میں بچے تعلیم سے محروم ہیں،
شہروں میں لوگ بیماری کا علاج نہیں کرا سکتے۔
غربت نے خاندانی نظام کو کمزور کر دیا ہے،
اور لوگوں کو ایسے فیصلے کرنے پر مجبور کر دیا ہے
جو کبھی انہوں نے سوچے بھی نہ تھے۔

بدعنوانی اور ناانصافی

بدقسمتی سے پاکستان کا نظام انصاف کمزور اور
انتظامیہ اکثر مفادات کے تابع نظر آتی ہے۔
کرپشن نے ہر ادارے کی جڑوں میں زہر گھول دیا ہے۔
طاقتور کے لیے قانون نرم،
اور غریب کے لیے سخت ہو چکا ہے۔
سفارش، رشوت، اور اقربا پروری نے عوام کے اعتماد کو تباہ کر دیا ہے۔
ایک عام آدمی کو نہ روزگار میں انصاف ملتا ہے،
نہ عدالتوں میں، نہ ہسپتالوں میں،
اور نہ ہی تعلیم کے دروازے سب کے لیے برابر کھلے ہیں۔

تعلیم اور صحت — نظر انداز شدہ ستون

تعلیم کسی بھی قوم کی ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہے،
مگر پاکستان میں تعلیمی نظام دو طبقات میں بٹا ہوا ہے —
ایک نظام امراء کے لیے، دوسرا غریب کے لیے۔
نتیجہ یہ کہ معاشرہ علم کے بجائے تفاوت پیدا کر رہا ہے۔
اسی طرح صحت کا شعبہ بھی بحران کا شکار ہے —
سرکاری ہسپتالوں میں سہولتوں کی کمی،
اور پرائیویٹ اسپتالوں میں علاج کی ناقابلِ برداشت قیمتیں
عام آدمی کو مزید پریشان کر دیتی ہیں۔

عوامی شعور اور امید کی ضرورت

ان تمام مسائل کی جڑ عوامی بے حسی اور
حکمرانوں کی بدنیتی میں پوشیدہ ہے۔
ہم نے نظام بدلنے کی بات تو کی،
مگر خود کو بدلنے کی کوشش نہیں کی۔
عوام اگر اپنے حق کا مطالبہ شعور کے ساتھ کریں،
اگر ووٹ صرف نعرے پر نہیں بلکہ کارکردگی پر دیں،
تو یہی عوام ملک کو نیا راستہ دکھا سکتی ہے۔

پاکستان کی عوام عظیم ہے،
صرف اسے یقین دلانے کی ضرورت ہے کہ
یہ ملک صرف حکمرانوں کا نہیں، ان کا اپنا ہے۔
اگر عوام خود کو منظم، باشعور اور پرعزم کر لیں،
تو یہی مسائل طاقت بن سکتے ہیں —
اور یہی قوم پھر سے امید کی روشنی جلا سکتی ہے۔

اختتامیہ:
پاکستان کے عوام کے مسائل حل کرنا صرف حکومت کا کام نہیں —
یہ ایک اجتماعی جدوجہد ہے۔
جب تک ہم خود کو اس مٹی کا ذمہ دار شہری نہیں سمجھیں گے،
غربت، مہنگائی اور ناانصافی کے یہ اندھیرے قائم رہیں گے۔
وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنے حال کو بدلنے کا فیصلہ خود کریں،
تاکہ آنے والی نسلوں کو ایک روشن پاکستان ملے —
جہاں عوام کے چہروں پر سکون،
اور دلوں میں امید ہو۔

 

shahzad ahmed
About the Author: shahzad ahmed Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.