آجکل یہ مسئلہ عام ہوچکا ہے کہ شادی کے دو تین ماہ بعد ہی میاں بیوی میں مسائل پیدا ہونا شروع ہو جاتے ہیں ۔ اکثر مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ لڑکا کماتا نہیں ہے۔باپ بھائیوں کی کمائی پہ تھا۔ جب تک کنوارا ہوتا ہے باپ بھائی کھلادیتے ہیں۔جیسے ہی بیوی آتی ہے ہاتھ کھینچ لیتے ہیں پھر وہ لڑکا ان کو ہڈ حرام لگتا ہے ۔اوراپنے بیٹے کے نکمے پن کا طعنہ اس کی بیوی کو دیتے ہیں ۔
سنیں۔
کسی نکمے کو یہ سوچ کر بپٹی مت دیں کہ یہ سدھر جائے گا۔ دوسری بات جب بچی پہلی بار مسئلہ لیکر میکے آئے تو سنجیدگی سے حل کریں۔بیٹی کو یہ کہہ کر دوبارہ مت بھیجو کہ ناک کٹے گی۔ یا وہاں سے مر کے نکلو ۔
بچے پیدا کرلو۔ تب وہ سدھرے گا۔ وغیرہ یا کسی رشتے دار محلے دار خاتون کی مثالیں دی جاتی ہیں فلاں نے مزدوری کرکے گھر چلایا ۔فلاں نے اتنی مار کھائی فلاں نے سسرال کی خدمت کی فلاں نے شوہر کے گند دھوئے وغیرہ ۔
یہ جن کی مثالیں دے رہے ہوتے ہیں۔پہلے یہ پوچھیں کہ اس فلاں کو کتنے تمغے دئیے تم لوگوں نے ؟ اس کی قبر پہ کتنے چراغ جلادئیے۔؟ تم لوگ بے شرم بن کر اس پہ ظلمات کا تماشہ دیکھتے رہے؟ اس کی کتنی مدد کی؟ بعض جگہ تو شوہر کی مار سسرال کہ خدمت اور سسرال کے ہاتھوں موت کو ثواب کا نام ہی دے دیا جاتا ہے۔ اور کہتے ہیں اگلے جہاں اس پہ جنت ملے گی ۔
خدارا یہ کوئی ثواب نہیں ہے نہ جنت ملے گی ۔بلکہ خود پہ ظلم گناہ ہے۔ جہنم ملے گی ۔ اس جہاں لوگوں نے زندگی جہنم بنادی تو اگلے جہاں یہ جو چپ کرکے جبر سہا اس پہ گناہ ہوگا ۔ اللہ تعالیٰ نے تو دوسروں کے لیے حکم دیا ہے کہ ظلم ہوتا دیکھو تو روکو۔ احتجاج کرو۔ ورنہ گناہ گار ہوگے
تو خود پہ ہونے والے ظلم پہ چپ رہنے پہ کتنا گناہ ہوگا ؟؟ ۔۔۔۔۔۔ سنو لڑکیو ۔۔۔ تم خود اپنی حفاظت کرو۔ ماں باپ کی مرضی سے شادی ضرور کرو مگر خود کو قتل ہونے کی اجازت ہرگز مت دو۔اپنے حق میں کھڑی ہوجاؤ۔
اگر یہ سوچ ہے کہ مردوں کے لیے عورتیں بہت ہیں ۔تو دنیا سے مرد بھی ختم نہیں ہو گئے ۔ ایک اینٹ اٹھاؤ چار نکلتے ہیں ۔ |