چین میں آبی وسائل کا پائیدار انتظام

چین میں آبی وسائل کا پائیدار انتظام
تحریر: شاہد افراز خان ،بیجنگ

گزشتہ ایک دہائی کے دوران چین نے پانی کے انتظام کے شعبے میں قابلِ ذکر کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ پائیدار اقتصادی ترقی کے عمل میں چین نے پانی کے مستحکم اور متوازن استعمال کو یقینی بنایا ہے۔ چینی حکومت نے پانی کے تحفظ سے متعلق بنیادی ڈھانچے کی تعمیرِ نو اور توسیع کو ترجیح دی ہے، جس کے نتیجے میں سرمایہ کاری میں نمایاں اضافہ ہوا ہے اور متعدد تعمیراتی منصوبے کامیابی سے مکمل کیے گئے ہیں۔

چین نے حالیہ برسوں کے دوران دنیا کا سب سے بڑا اور جامع آبی انفراسٹرکچر نیٹ ورک تعمیر کیا ہے جو آبادی کے سب سے بڑے حصے کو فائدہ پہنچاتا ہے۔اعداد و شمار کے مطابق، 2022 میں "مادر ریور ریجووینیشن" ایکشن پلان کے آغاز کے بعد سے رواں سال ستمبر کے آخر تک 88 دریاؤں کی بحالی کی جا چکی ہے، جن میں سے 79 دریاؤں کو ملک کے ریور نیٹ ورک سے مکمل طور پر دوبارہ جوڑ دیا گیا ہے۔

یہ امر قابل ذکر ہے کہ 30 ایسے دریاؤں میں دوبارہ پانی بہنے لگا ہے جو پہلے سوکھ چکے تھے اور 102 چشموں کو بحال کیا گیا ہے، جس سے نہروں کے خشک ہونے اور پانیوں کے آلودہ ہونے کے طویل عرصے سے جاری رجحان کو پلٹ دیا گیا ہے۔

2021 سے 2025 کے درمیان، چین نے لگاتار تین سال تک آبی منصوبوں پر ایک ٹریلین یوآن (تقریباً 140 ارب امریکی ڈالر) سے زیادہ کی تاریخی ریکارڈ توڑ سرمایہ کاری کی۔ اس سرمایہ کاری نے پانی کے نئے ذرائع، ڈائیورژن (پانی کی منتقلی)، اور آبپاشی کے منصوبوں کو فروغ دیا، جس سے ملک کی کل پانی کی فراہمی کی صلاحیت 900 ارب کیوبک میٹر تک پہنچ گئی۔

چین کے جنوب سے شمال پانی کی منتقلی کے منصوبے کے مشرقی اور درمیانی راستوں کا پہلا مرحلہ، جو ملک کے بڑے آبی نیٹ ورک کی ریڑھ کی ہڈی اور شہ رگ ہے، نے کل 83 ارب کیوبک میٹر سے زیادہ پانی کی ترسیل کی ہے، جس سے تقریباً 195 ملین افراد مستفید ہوئے ہیں۔ متوقع ہے کہ 2025 کے آخر تک آبی نیٹ ورک کے احاطے کی شرح 80.3 فیصد تک پہنچ جائے گی۔

چینی حکام کے مطابق ، چودہویں پنج سالہ منصوبہ کے آغاز کے بعد سے، اعلیٰ معیاری ترقی اور چین کی آبی سلامتی کو یقینی بنانے پر توجہ مرکوز رہی ہے تاکہ آبی انفراسٹرکچر کی تعمیر کو جامع طور پر آگے بڑھایا جا سکے، جس سے آبادی کے سب سے بڑے حصے کو فائدہ پہنچانے والا دنیا کا سب سے بڑا اور سب سے زیادہ فعال آبی انفراسٹرکچر نظام تشکیل دینے میں مدد ملی ہے۔

2021 سے 2025 تک، چین نے 95,000 آبی ذخائر تعمیر کیے ہیں جن کی کل گنجائش ایک ٹریلین کیوبک میٹر سے زیادہ ہے۔ ہائی ڈیمز کی تعداد اور اقسام کی تعداد کے لحاظ سے ملک اب عالمی سطح پر پہلے نمبر پر ہے۔

اس کے علاوہ، چودہویں پنج سالہ منصوبہ کے دوران، چین بھر میں آبپاش قابل کاشت زمین کا رقبہ 1.09 بلین مو (تقریباً 72.7 ملین ہیکٹر) تک پھیل گیا ہے، جس نے 2024 میں 700 ملین ٹن سے زیادہ ریکارڈ اناج کی پیداوار کو سہارا دینے میں نمایاں مدد فراہم کی ہے۔

مزید برآں، چین نے دیہی علاقوں میں پانی کی فراہمی کا دنیا کا سب سے بڑا مرکوز نظام قائم کیا ہے، جس کے تحت متوقع ہے کہ 2025 کے آخر تک 96 فیصد دیہی آبادی کو نلکے کے پانی تک رسائی حاصل ہو جائے گی۔

چینی حکام کے نزدیک پانی سے متعلق مسائل کی جڑ آبی وسائل کے کناروں اور ساحلی علاقوں کے ماحولیاتی نظام میں پوشیدہ ہے۔ ان مسائل کے حل کے لیے منظم طرزِ حکمرانی، بحالی اور تحفظ کے مؤثر اقدامات ناگزیر سمجھے جاتے ہیں۔ اسی مقصد کے تحت دریاؤں سے متصل علاقوں میں سیوریج پائپ لائن نیٹ ورکس کی تزئین و آرائش کے منصوبے شروع کیے گئے ہیں، جب کہ آبی ماحول کو بہتر بنانے کے لیے جامع منصوبہ بندی پر عمل درآمد جاری ہے۔ کئی علاقوں میں سیوریج کے جمع اور اس کے مؤثر ٹریٹمنٹ کی شرح تقریباً 100 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ملک کے بڑے دریاؤں اور آبی گزرگاہوں کے تحفظ کو جامع ماحولیاتی نظم و نسق کے ذریعے مضبوط کیا جا رہا ہے تاکہ دریاؤں میں بہنے والے پانی کو صاف اور محفوظ رکھا جا سکے۔

وسیع تناظر میں دیکھا جائے تو چین نے عہدِ حاضر کے تقاضوں کو بروقت سمجھتے ہوئے آبی وسائل کے انتظام اور تقسیم کے نظام میں نمایاں بہتری حاصل کی ہے، جس کا نتیجہ حالیہ برسوں میں سیلاب اور خشک سالی کی روک تھام، آبی وسائل کے مؤثر استعمال، اور دریاؤں و جھیلوں کے تحفظ و حکمرانی کی صلاحیت میں تاریخی پیش رفت کی صورت میں برآمد ہوا ہے۔

 

Shahid Afraz Khan
About the Author: Shahid Afraz Khan Read More Articles by Shahid Afraz Khan: 1663 Articles with 952727 views Working as a Broadcast Journalist with China Media Group , Beijing .. View More