صاف توانائی میں چین کی مسلسل نمایاں پیش رفت
(Shahid Afraz Khan, Beijing)
|
صاف توانائی میں چین کی مسلسل نمایاں پیش رفت تحریر: شاہد افراز خان ،بیجنگ
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ شفاف توانائی کی اہمیت میں دنیا بھر میں اضافہ ہو رہا ہے۔ عالمی سطح پر اس بات پر اتفاق پایا جاتا ہے کہ انسانی بقا کے لیے ضروری ہے کہ کم کاربن پر مبنی ترقی کے حصول کی کوشش کی جائے اور فطرت کے ساتھ ہم آہنگ ترقی کے راستے اپنائے جائیں۔ درحقیقت، انسانیت کا اس بات پر متفقہ نظریہ ہے کہ ماحول کو نقصان پہنچا کر حاصل کی جانے والی ترقی ہماری آنے والی نسلوں کے لیے تباہی کا باعث بنے گی۔
رکی ماؤنٹین انسٹی ٹیوٹ، جو کئی دہائیوں سے دنیا بھر میں فوسل فیول کی حوصلہ شکنی میں سرگرم ایک معروف ادارہ ہے، کا کہنا ہے کہ روایتی ایندھن سے صاف توانائی کی طرف منتقلی پر آنے والا خرچہ تخمینہ سے کم ہوگا اور اس عمل کو حکومتوں، کاروباری اداروں اور تجزیہ کاروں کی توقعات سے کہیں زیادہ تیزی سے آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔
حالیہ برسوں میں چین جیسے بڑے ملک کی جانب سے اس خیال کو پوری طرح سے ثابت کیا گیا ہے، اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نئی ٹیکنالوجی کے استعمال سے صاف توانائی پر آنے والے اخراجات میں مزید کمی واقع ہو رہی ہے، جس کے نتیجے میں تیز رفتار صاف توانائی کی منتقلی اب سستا متبادل بن چکی ہے۔
صاف توانائی میں چین کی عملی کوششوں کو دیکھا جائے تو چائنا الیکٹریسٹی کونسل کی جاری کردہ تازہ رپورٹ کے مطابق، چین نے ہوا سے بجلی پیدا کرنے کی تنصیبی صلاحیت کے حوالے سے مسلسل پندرہویں سال بھی دنیا میں پہلی پوزیشن حاصل کی ہے۔یہ کامیابی ہوا کی توانائی کے شعبے میں تیز اور مستحکم ترقی کے حوالے سے چین کے عزم کی غماز ہے، جہاں سالانہ اضافے کی اوسط دس کروڑ کلوواٹ سے تجاوز کر گئی ہے۔
چینی حکام پرامید ہیں کہ، 2035 تک ملک کی کل توانائی کی کھپت میں غیر فوسل ایندھن کا حصہ 30 فیصد سے تجاوز کرنے کی توقع ہے، جبکہ ہوا اور شمسی توانائی کی کل نصب شدہ صلاحیت 2020 کے مقابلے میں چھ گنا سے زیادہ ہو کر 3.6 ارب کلوواٹ سے تجاوز کر جائے گی۔
چین کے ہوا سے بجلی پیدا کرنے کے آلات کے ادارے اپنی عالمی توسیعی کوششوں میں بھی تیزی لارہے ہیں۔ انہوں نے چھ براعظموں کے 57 ممالک کو اپنے مصنوعات برآمد کی ہیں، جبکہ سات کمپنیاں بیرون ملک فیکٹریاں قائم کرچکی ہیں یا ایسا کرنے کے منصوبے پر عمل پیرا ہیں۔
چین نے ہوا سے بجلی کی پیداوار کے حوالے سے معقول اہداف بھی طے کیے ہیں: پندرہویں پانچ سالہ منصوبے (2026-2030) کے دوران سالانہ کم از کم 12 کروڑ کلوواٹ نئی صلاحیت شامل کی جائے گی، تاکہ 2030 تک ہوا سے بجلی کی کل نصب شدہ صلاحیت 1.3 ارب کلوواٹ اور 2060 تک 5 ارب کلوواٹ تک پہنچ سکے، جس سے توانائی کے شعبے کو "کاربن نیوٹرل" حاصل کرنے میں مدد ملے گی۔
اس شعبے میں مزید اختراعات کا تذکرہ کیا جائے تو چین نے حال ہی میں شنگھائی میں دنیا کا پہلا زیر آب ڈیٹا سینٹر مکمل کر لیا ہے جو ہوا کی توانائی سے چلے گا، جس سے کمپیوٹنگ انفراسٹرکچر کی ماحول دوست ترقی کے لیے ایک معیار قائم ہوا ہے۔اس منصوبے میں 1.6 ارب یوآن (تقریباً 22.6 کروڑ ڈالر) کی سرمایہ کاری کی گئی ہے اور اس کی کل بجلی کی صلاحیت 24 میگاواٹ ہے۔
روایتی زمینی ڈیٹا سینٹرز کے مقابلے میں، اس منصوبے کو 95 فیصد سے زائد ماحول دوست بجلی استعمال کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے، جس سے بجلی کی کھپت میں 22.8 فیصد کمی واقع ہوگی، جبکہ پانی اور زمین کے استعمال میں بالترتیب 100 فیصد اور 90 فیصد سے زائد کمی آئے گی۔
اس منصوبے کی تکمیل زیر آب ڈیٹا سینٹرز اور آف شور قابل تجدید توانائی کے مربوط فروغ میں ایک اہم پیشرفت ہے۔ یہ کمپیوٹنگ انفراسٹرکچر کی ماحول دوست اور کم کاربن والی ترقی اور آف شور ہوا کی توانائی کی مقامی سطح پر کھپت کے لیے ایک مثال فراہم کرتا ہے۔
چین نے ویسے بھی مجموعی طور پر حالیہ سالوں کے دوران ماحولیاتی تحفظ کو مضبوط کیا ہے اور سبز اور کم کاربن ترقی کو آگے بڑھایا ہے۔چین نے یہ عزم بھی ظاہر کیا ہے کہ "صاف پانی اور سرسبز پہاڑ انمول اثاثے ہیں" کے تصور پر مضبوطی سے قائم رہتے ہوئے ماحولیاتی تحفظ کے نظام کو مسلسل بہتر بنایا جائے گا اور سبز اور کم کاربن ترقیاتی ماڈل کی جانب منتقلی میں تیزی لائی جائے گی ، جس میں صاف توانائی کلیدی عنصر ہے۔
|
|