اولیاءکرام کے واقعات میں
تحریرہے کہ حضرت شیخ محکم الدین صاحب اویسی ؒ کئی سفر کرتے ہوئے ایک شہر
میں تشریف لائے وہاں ایک ایسا شخص رہتاتھا جو بہت غریب تھا اور اس کے گھر
اس کی جوان بیٹیاں غربت کی وجہ سے بن بیاہی بیٹھی تھیں اور وہ غربت کی وجہ
سے انہیں رخصت کرنے سے معذور تھا کسی نے اس غریب آدمی کو حضرت صاحب کے بارے
میں بتایا کہ یہ اللہ کے بڑے نیک ولی ہیں ان سے جاکر ملو وہ شخص آپ کی خدمت
میں حاضر ہوا اور اپنی ساری کہانی انہیں سنائی او رآخر میں عرض کی کہ حضور
اگر آپ مجھے پانچ سو درہم عنایت فرما دیں تو میں اپنی بچیوں کے فرض سے فارغ
ہوجاﺅں گا آپ اس وقت بڑے خوشگوار موڈ میں تھے آپ نے اپنا عصا اپنے خادم کے
ہاتھ سے لیا اور زمین پر اس کی نوک گاڑتے ہوئے فرمایا یہاں سے کھود کر پانچ
سو درہم کی ایک تھیلی نکال لو آپ کے فرمان کے مطابق زمین کھود کر تھیلی
نکالی گئی اور اس شخص کے حوالے کردی گئی وہ شخص تھیلی لے کر چلا گیا اسے یہ
غلط فہمی ہوگئی کہ اس جگہ بہت سا مال دبایا گیا ہے اس نے سوچا جب حضرت محکم
الدین ؒ یہاں سے تشریف لے جائیں گے تو اس جگہ کو کھود کر وہ باقی دولت بھی
نکال لے گا یہ سوچ رکھ کر اس نے ملنے والی رقم بے دریغ خرچ کرڈالی کچھ دنوں
بعد جب حضرت صاحب ؒ اس مقام سے آگے روانہ ہوگئے تو وہ شخص فوراً اس جگہ پر
پہنچا اور کھدائی شروع کی اور جب کچھ نہ نکلا تو مایوس ہوگیا اب چونکہ وہ
پہلے والی رقم بھی ختم کرچکاتھا اور مزید بھی کچھ نہ ملا تو مایوسی کے عالم
میں اس نے روتے ہوئے خود کو لعن طعن کی کہ خواہ مخواہ لالچ بھی کیا ،ہاتھ
آئی دولت بھی ضائع کی اور بچیاں بھی گھر بیٹھی رہ گئیں پھر اس کے دل میں
اچانک کیا خیال آیا کہ وہ حضرت صاحب ؒ کے پیچھے بھاگا او ران تک پہنچ کر ان
کے قدموں میں گر کر رونے لگا آپ نے پوچھا اب کیا ہوا کیوں روتے ہو اس پر اس
نے بتایا کہ اس نے لالچ میں آکر ساری رقم خرچ کرکے ضائع کردی ہے اور باقی
قصہ بھی سنایا آپ کو اس پر ترس آیا تو آپ نے اپنا عصا ایک مرتبہ پھر زمین
پر مارا اور خادم سے کہا کہ زمین کھود کر پانچ سود رہم کی ایک اور تھیلی
نکالو خادم نے حکم کی تعمیل کی اوررقم اس شخص کے حوالے کردی آپ نے آئندہ اس
شخص کو لالچ سے بچنے کی نصیحت کی اور اپنے سفر پر روانہ ہوگئے ۔
قارئین آج کی اس طویل حکایت کو آپ کے سامنے نقل کرنے کا مقصد یقینا آپ سمجھ
چکے ہوں گے نکاح مسنون ہے اور جہیز کی رسم شائد ہم نے برصغیر میں یہاں کے
رسوم ورواج کے مطابق اپنائی ہے پاکستان اور آزادکشمیر میں نئے اعدادو شمار
کے مطابق 54فیصد آبادی صنف نازک پر مشتمل ہے نوجوان طبقے میں ایک بہت بڑا
رجحان گزشتہ بیس سالوں کے دوران تیزی سے بڑھا ہے اور وہ یہ ہے کہ 18سال سے
زائد عمر کے نوجوان لڑکے روزگار اور بہتر مستقبل کی تلاش میں وطن چھوڑ کر
یورپ ،امریکہ ،انگلینڈ ،مشرق وسطیٰ سمیت پوری دنیا میں جہاں کہیں سینگ
سماتے ہیں جانے کی کوشش کرتے ہیں اور ان قانونی اور غیر قانونی کوششوں کے
دوران جہاں انسانی جان کے ضیاع کی درد ناک کہانیاں بھی سامنے آتی ہیں وہاں
چھپی ہوئی کہانیوں میں سے ایک کہانی یہ بھی ہے کہ وطن میں ایسی بچیوں کی
تعداد گزشتہ بیس سالوں کے دوران انتہائی تیز ی سے بڑھی ہے کہ جو غربت ،نامناسب
رشتوں اور جہیز نہ ہونے کی وجہ سے شادی کے مقدس رشتے میں نہ بندھ سکیں اس
وجہ سے معاشرے میں کس عدم توازن نے جنم لیا ہے اس کا اندازہ کوئی بھی زی
شعور انسان بڑی آسانی سے لگا سکتاہے ۔
قارئین آج ہم نے ایک ایسی تقریب میں شرکت کی کہ جہاں ہونے والی رفائے عامہ
کی عملی کارروائی دیکھ کر دل خوشی سے باغ باغ ہوگیا چوہدری کرم الہیٰ
میموریل ویلفیئر ٹرسٹ جاتلاں کے زیر اہتمام وسائل نہ ہونے کی وجہ سے رخصتی
سے معذور بچیوں کو نقد رقم فراہم کرنے کی یہ تقریب بنگیال میرج ہال میرپور
میں منعقد ہوئی میرج ہال کے مالک چوہدری اسلام نے ہال اور ریفریشمنٹ مفت
فراہم کی ڈپٹی کمشنر ضلع میرپور چوہدری محمد طیب تقریب کے مہمان خصوصی تھے
اس تقریب کی تجویز اور پورے منصوبے کو سوشل ویلفیئر آفیسر صائمہ مشتاق اور
چیئرمین ٹرسٹ چوہدری ایوب نے عملی جامہ پہنایا اس تقریب میں 15بچیوں کو دس
،دس ہزار روپے نقد رقم اور شادی کے لیے کپڑوں کے دو دو جوڑے تقسیم کیے گئے
اس کے لیے مالی معاونت چوہدری حکم داد ،حاجی بشیر ،چوہدری علی شان ،فاضل
انصاری اور دیگر نے فراہم کی اگرچہ آج کے اس مہنگائی کے دور میں یہ رقم
اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر ہے لیکن کم از کم یہ دیکھ کر جی خوش ہوا کہ
کم از کم بارش کا پہلا قطرہ تو برسا ہے تقریب میں صحافی برادری کی شرکت
بھرپور تھی سنٹرل یونین آف جرنلسٹس کے مرکزی صدر رمضان چغتائی ،سینئر صحافی
راجہ حبیب اللہ خان ،کشمیر پریس کلب کے سیکرٹری جنرل خالد چوہدری ،نائب صدر
سردار عابد حسین ،ممتا ز خاکسار ،بلال رفیق ،شبیر راجوروی ،تاجدار سبحانی
سمیت میڈیا کے سینئر او رنوجوان نمائندگان نے بھر پور شرکت کی اس موقع پر
رمضان چغتائی نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ مناسب جہیز کسی بھی لڑکی کے
لیے نئے گھر میں ملکیت اور تحفظ کا احساس لے کر نفسیاتی طور پر ایک اچھی
چیز ہے اور اس کے لیے معاشرے میں موجود غلط رسوم ورواج کو اپنا یاگیا ہے
والدین کے لیے زیادہ اہم یہ ہے کہ وہ بچیوں کو اسلامی تعلیمات کے مطابق
جائیداد میں پورا حصہ دیا کریں یہ رسم سراسر غلط ہے کہ جہیز دے کر بچیوں کو
جائیداد میں سے حصہ نہیں دیا جاتا ڈپٹی کمشنر چوہدری محمد طیب نے چوہدری
ایوب چیئرمین ٹرسٹ کی طرف سے اس نئے قدم کو خوش آئندقرار دیا اور بتایا کہ
پاکستان اور آزادکشمیر بھر میں ریٹائرڈ سرکاری ملازمین جوبھی این جی او ز
چلا رہے ہیں ان کی کارکردگی بہت بہتر ہے ڈپٹی کمشنر چوہدری طیب نے اپنی طرف
سے مالی امداد کا اعلان بھی کیا ۔
قارئین ہمیں اسلام یہ درس دیتاہے کہ اللہ اور رسول پر ایمان کے بعد ارکان
اسلام پر عمل کرتے ہوئے ”خرچ “کریں اور یہ خرچ کس پر کریں اور کتنا کریں تو
اس بارے میں بھی قرآن واحادیث میں واضح احکامات موجودہیں حتیٰ کہ یہاں تک
کہہ دیا گیا کہ تمہاری ضرورت سے زائد جو بھی ہے اسے خرچ کردو اور اپنے
بھائی کی مدد کرو ۔
آج ہمارے معاشرے میں ایک سو بیس خاندانوں اور 18کروڑ عوام کے درمیان ایک
وسیع خلیج موجودہے جو بڑھتی جارہی ہے اور اگر دولت کا یہ ارتکاز جاری رہا
تو آنے والے چند سال خونی انقلاب کا پیغام لے کر آسکتے ہیں اس وقت سے ڈریے
اور اپنا اپنا حصہ معاشرے کی فلاح کے لیے اداکیجئے
ہمارے حکمرانوں نے ستر ارب ڈالر کا قرض پاکستان کے غریب عوام کے کندھوں پر
لاددیا ہے اورکرپشن اور بدمعاشی سے لوٹا گیا ایک سو ارب سے زائد سرمایہ
انہی بدعنوان سیاستدانوں او ربیوروکریٹس سوئٹزلینڈ کے بینکوں میں موجود ہے
اور کشکول لے کر 18کروڑ عوام کے نام پر یہ لوگ بھیک در بھیک مانگتے جارہے
ہیں اور لوٹتے جارہے ہیں آئیے تبدیلی کی کوشش کریں خاموشی ترک کرناہوگی ۔
آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے
ایک صحافی ایک بھکاری کا انٹرویو کررہاتھا اس نے بھکاری سے پوچھا بھیک
مانگنے کے اہم ترین اصول کیا ہیں
بھکاری نے انتہائی سنجیدگی سے جواب دیا
”ہمارے تین اصول ہیں پہلا یہ کہ ہر شخص سے مانگو ،ہر چیز مانگو اور ہروقت
مانگو “
قارئین یہ ظالم حکمران 18کروڑ عوام کے وسائل پر قابض ہیں اور دنیا کے ہر
ملک سے ہر وقت ہر چیز مانگتے پھر رہے ہیں یا ان کی عادتیں بدلیں اور یا پھر
اپنی قیادت تبدیل کریں ۔۔ |