جدید ٹیکنالوجی کے تعلم پر اثرات

جدید ٹیکنالوجی کے تعلم پر اثرات

تعلیم انسان کی زندگی میں سب سے اہم چیز ہے۔ یہ انسان کو علم، شعور اور سمجھ دیتی ہے۔ ماضی میں تعلیم کے طریقے بہت سادہ تھے۔ استاد تختہ تحریر، چاک اور کتابوں سے پڑھاتے تھے۔ طلبہ صرف نوٹس لکھتے اور یاد کرتے تھے۔ لیکن اب نیا دور ہے اور اس کے تقاضے بھی بدل گئے ہیں۔ جدید ٹیکنالوجی نے سیکھنے سیکھانے کے عمل کو بھی بدل دیا ہے۔

آج کے دور میں تعلیم میں ٹیکنالوجی کا کردار بہت بڑھ گیا ہے۔ کمپیوٹر، موبائل فون، اور انٹرنیٹ نے سیکھنے کا طریقہ آسان بنا دیا ہے۔ اب تعلیم صرف کلاس روم تک محدود نہیں رہی۔ دنیا کے کسی بھی حصے میں بیٹھا طالب علم آن لائن سیکھ سکتا ہے۔

سچ تو یہ ہے کہ کمپیوٹر نے تعلیم میں انقلاب برپا کیا ہے۔ طلبہ کمپیوٹر کے ذریعے تحقیق کرتے ہیں، لکھتے ہیں، اور سیکھتے ہیں۔ استاد بھی کمپیوٹر سے پریزنٹیشنز تیار کرتے ہیں۔ پاور پوائنٹ، ورڈ، اور ایکسل جیسے پروگراموں نے پڑھانے اور سیکھنے کو آسان بنا دیا ہے۔

انٹرنیٹ نے علم کے دروازے سب کے لیے کھول دیے ہیں۔ اب کوئی بھی طالب علم چند لمحوں میں کسی بھی موضوع پر معلومات حاصل کر سکتا ہے۔ آن لائن ویڈیوز، لیکچرز، اور مضامین نے تعلیم کو مزید دلچسپ اور مؤثر بنا دیا ہے۔ استاد اپنے لیکچر اور نوٹس آن لائن شیئر کر سکتے ہیں۔ یہ وقت اور محنت دونوں بچاتا ہے۔

آن لائن کلاسز تعلیم کا نیا انداز ہیں۔ کورونا وبا کے دوران اسکول بند ہوئے تو تعلیم آن لائن جاری رہی۔ طلبہ نے زوم، گوگل میٹ، اور دیگر پلیٹ فارمز پر کلاسیں لیں۔ اس سے ثابت ہوا کہ ٹیکنالوجی مشکل حالات میں بھی تعلیم کو جاری رکھ سکتی ہے۔

ڈیجیٹل لائبریریاں بھی جدید تعلیم کا اہم حصہ ہیں۔ پہلے طلبہ کو کتابوں کے لیے گھنٹوں لائبریری میں بیٹھنا پڑتا تھا۔ اب ہزاروں کتابیں، تحقیقی مقالے اور جرائد آن لائن دستیاب ہیں۔ اس سے وقت بچتا ہے اور علم حاصل کرنا آسان ہو گیا ہے۔

سمارٹ کلاس رومز بھی اب عام ہو رہے ہیں۔ ان میں ڈیجیٹل بورڈز، پروجیکٹرز، اور آڈیو سسٹم استعمال ہوتے ہیں۔ استاد ویڈیوز، تصاویر، اور اینیمیشن کے ذریعے سبق سمجھاتے ہیں۔ اس طرح طلبہ بہتر طور پر سمجھ پاتے ہیں۔ سبق اب صرف الفاظ تک محدود نہیں رہا بلکہ تصویری شکل میں سامنے آتا ہے۔

موبائل لرننگ بھی ایک نیا رجحان ہے۔ طلبہ اپنے موبائل فون سے کہیں بھی اور کسی بھی وقت پڑھ سکتے ہیں۔ تعلیمی ایپس انہیں سبق دہرانے، مشق کرنے، اور سوالات حل کرنے میں مدد دیتی ہیں۔ اس سے خود مطالعہ آسان ہو جاتا ہے۔

اب تو مصنوعی ذہانت بھی تعلیم میں شامل ہو چکی ہے۔ یہ نظام طلبہ کی کارکردگی کا تجزیہ کرتا ہے اور ان کے لیے ذاتی مطالعے کے منصوبے بناتا ہے۔ کچھ ایپس طلبہ کو فوری فیڈبیک دیتی ہیں اور بتاتی ہیں کہ کہاں بہتری کی ضرورت ہے۔

فاصلاتی تعلیم بھی ٹیکنالوجی کا بڑا فائدہ ہے۔ دور دراز علاقوں کے طلبہ اب آن لائن تعلیم حاصل کر سکتے ہیں۔ یونیورسٹیاں آن لائن کورسز اور ڈگریاں دے رہی ہیں جو دنیا بھر میں تسلیم کی جاتی ہیں۔ اس سے تعلیم عام لوگوں کی پہنچ میں آ گئی ہے۔

اساتذہ کو بھی ٹیکنالوجی سے بہت فائدہ ہوا ہے۔ وہ ڈیجیٹل اوزاروں سے سبق تیار کرتے ہیں، طلبہ کی کارکردگی پر نظر رکھتے ہیں، اور والدین سے رابطہ کرتے ہیں۔ وہ خود بھی آن لائن تربیتی کورسز میں حصہ لے سکتے ہیں۔ اس سے تعلیم کا معیار بہتر ہوتا ہے۔

تاہم، ٹیکنالوجی کے کچھ نقصانات بھی ہیں۔ ہر طالب علم کے پاس کمپیوٹر یا انٹرنیٹ کی سہولت نہیں ہوتی۔ اس سے امیر اور غریب طلبہ کے درمیان فرق بڑھتا ہے۔ زیادہ وقت اسکرین کے سامنے بیٹھنے سے آنکھوں اور صحت پر بھی اثر پڑتا ہے۔ بعض طلبہ سوشل میڈیا اور گیمز میں وقت ضائع کر دیتے ہیں۔

ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ طلبہ ٹیکنالوجی پر بہت زیادہ انحصار کرنے لگے ہیں۔ وہ خود سوچنے اور لکھنے کی عادت کم کر دیتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ بنیادی مطالعہ اور کتاب بینی کو بھی برقرار رکھا جائے۔

آخر میں، یہ کہا جا سکتا ہے کہ جدید ٹیکنالوجی تعلیم کے لیے ایک نعمت ہے۔ اس نے علم حاصل کرنے کے طریقے بدل دیے ہیں۔ اگر اسے صحیح طریقے سے استعمال کیا جائے تو یہ تعلیم کو زیادہ مؤثر، دلچسپ، اور سب کے لیے آسان بنا سکتی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ توازن بھی ضروری ہے تاکہ نئی نسل ٹیکنالوجی کی غلام نہ بن جائے بلکہ اسے علم اور ترقی کا ذریعہ بنائے۔

 

Dr-Muhammad Saleem Afaqi
About the Author: Dr-Muhammad Saleem Afaqi Read More Articles by Dr-Muhammad Saleem Afaqi: 51 Articles with 58902 views
Dr. Muhammad Saleem Afaqi is a prominent columnist and scholar from Nasar Pur, GT Road, Peshawar. He earned his Ph.D. in Education from Sarhad Unive
.. View More