حج کا موسم عجیب موسم ہوتا ہے ۔اس
موسم میں تمام اہل ایمان اور اہل محبت کے دل قیدی پرندوں کی طرح پھڑپھڑانے
لگتے ہیں ۔ جب بھی حرمین شریفین کا کوئی مسافر اپنے مبارک سفر پر روانہ
ہونے لگتا ہے تو من کی دنیا میں ایک عجیب سا طلاطم برپا ہو جاتا ہے.... جی
چاہتا ہے آدمی اڑ کر حرم شریف پہنچ جائے ....حرمین شریفین کی محبت اور اس
بابرکت دیس کی حاضری کے جذبات کا جوار بھاٹا انسان پر وہ کیفیت طاری کرتا
ہے جو ناقابل بیان ہے ۔اس سال جب حج کے لیے روانہ ہو نے لگا تو جو بھی ملا
اس کی کیفیت عجیب تھی ۔ہر کوئی سوالی ،ہر کوئی رشک ومحبت سے معمور ،ہر کسی
کو تڑپتے پایا لیکن چند لوگوں کی کیفیات کبھی نہیں بھول پائیں گی ۔بابا
بشیر صاحب برسوں سے دینی مدارس کے طلبا ءکی خدمت کررہے ہیں ان کی پوری
زندگی اسی کارِ خیر میں بیت گئی ان سے الوداعی سلام کے لیے مطبخ میں حاضر
ہوا تو وہ گلے لگے کر یوں دھاڑیں مارمار کر روئے کہ بتا نہیں سکتا اور جب
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام نامی اسم گرامی لیا تو ان کی بے کلی
دیکھی نہ جاتی تھی ....شعبہ حفظ کے ایک کمسن طالبعلم حمزہ کی آنکھوں سے چھم
چھم برستے آنسو اب بھی نگاہوں کے سامنے ہیں ....ننھے حنظلہ نے دوہفتے تک اس
کثرت اور معصومیت سے حرمین شریفین حاضری کی رَٹ لگائی کہ اس پر بے طرح پیار
آنے لگتا ۔گاہے یوں محسوس ہوتا کہ اگر اس کو پیشگی ذہنی طور پر تیار نہ کیا
گیا تو کہیں کوئی بڑ احادثہ نہ ہو جائے مگر اس کی حالت یہ کہ جب بھی اسے
سمجھانے بیٹھتے توہر دلیل کا توڑ اس کے پاس موجود تھا ۔ایک دن اس سے کہا
کہ”بچوں کو تو حج کے لیے جانے ہی نہیں دیتے “چہک کر بولا ”میں جبہ پہن کر
چلا جاؤں گا وہ شلوار قمیص والے بچے کو نہیں جانے دیتے ہوں گے “آخری دن تو
اس کی کیفیت ہی عجیب تھی ۔توتلی زبان سے جب وہ درود شریف پڑھتا اورتلبیہ کے
تین لفظ لبیک اللہم لبیک بار بار دھراتاتو ہر سننے والے کی آنکھیں بھیگ
جاتیں ۔میری والدہ محترمہ تین ماہ قبل تشریف لائی تھیں اور گزشتہ سال اہلیہ
بھی میرے ساتھ حج کے لیے آئی تھیں اس سال تیاری کے دوران، کپڑے استری کرتے
ہوئے، سامان کی پیکنگ کرتے ہوئے والدہ محترمہ اور اہلیہ اپنے سفر حرمین کو
یاد کرتی اور روتی رہیں ۔میرے ایک محسن اور مربی نے جب یہ کہا کہ ”اللہ نے
سب کچھ دے دیا بس اب صرف ایمان پر خاتمے کی دعا کرنااور میرے پیارے نبی
فداہ ابی وامی صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں سلام پیش کرنا “ تو ان کی
عجیب کیفیت تھی ۔میرے ایک اور استاذ محترم کمال شفقت سے الوداعی ملاقات کے
تشریف لائے ،ان کے سفر حج کی ترتیب بنتے بنتے نہ بن پائی تھی ،ان کی کیفیت
ہی عجیب تھی ۔گزشتہ سال حرم شریف میں انہوں نے عجیب جملہ ارشاد فرمایا تھا
”جو یہاں نہیں آتا وہ ترستا رہتا ہے اور جو آجاتا ہے پھر وہ تڑپتا رہتا ہے
“اس سال ا ن کی اپنی کیفیت یہی تھی ۔مجھے چند ریال عطا فرمائے مجھے یوں لگا
جیسے کو ئی خزانہ ہاتھ آگیا ہو ۔یہ تو صرف ایک بوڑھے ،دو بچوں ،ایک عورت
اور دو علماءکی بات ہے ورنہ ہر دل مچل رہا تھا ،ہر آنکھ اشکبار تھی اور ہر
جذبہ بے تاب تھا۔سوچتا ہوں اللہ کی ذات ،نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی
غلامی ،قرآن کریم کی نعمت کے ساتھ ساتھ حرمین شریفین اللہ کی کتنی بڑی نعمت
ہیں ....ایسی نعمت جو سب دلوں کے لیے مقناطیس کی مانند ہیں ....اخوت ومحبت
اور اہل اسلام کی عظمت وشوکت کا مظہر....یہی وجہ ہے کہ دشمن کی ہمیشہ حرمین
شریفین پر نظریں لگی رہیں اور وہ حرمین شریفین کی مرکزیت کو ختم کرنے اور
یہاں کے امن وامان کو تہہ وبالا کرنے کے درپے رہا ان دنوں بھی اسی قسم کی
کوششیں مختلف انداز سے جاری ہیں ۔اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ حرمین
شریفین کی عزت وعظمت اور رونق وسکون میں مزید اضافہ فرمائیں اور اہل اسلام
کو حرمین شریفین کا بھرپور دفاع کرنے کی توفیق مرحمت فرمائیں اور اشرار اور
فتنہ پروروں کی ہر سازش وشرارت کو ناکام ونامراد بنائیں ۔آمین
بہت سے دوست احباب ،تلامذہ ،متعلقین ،اعزہ واقربا ءنے حرمین شریفین حاضری
کے لیے جس بے تابی اور اشتیاق کا اظہار کیا یہاں حجاز مقدس میں وہ سب ایک
ایک کر کے یاد بھی آرہے ہیں اور ان کے لیے دل کی اتھاہ گہرائیوں سے دعائیں
بھی نکل رہی ہیں ۔بلکہ گزشتہ سال میں نے یہ محسو س کیا کہ مکہ مکرمہ میں
کوئی اخلاص اور خلوص والا ات مدینہ منورہ میں کوئی عقید ت ومحبت والا کبھی
محروم نہیں رہتا ۔آدمی اگر کسی خلوص اور محبت والے کو بھلانا بھی چاہے تو
وہ دل ودماغ میں آکر ڈیرے ڈال لیتا ہے اور جب تک اس کے لیے کچھ مانگ نہ لیا
جائے وہ دل ودماغ کے کسی گوشے میں ضرور موجود رہتا ہے ....سو اس مبارک سفر
میں ڈھیر ساری دعاؤں کی تمناؤں،آرزؤں،پیغامات ،سوالات ،درود وسلام کے
نذرانوں اورجذبات واحساسات کے تاثرات لیے ایک مرتبہ پھر اللہ کا یہ بندہ
آوارہ اپنی نادانیوں ،خطاؤں ،لغزشوں اور کمزوریوں کا بوجھ اٹھائے اپنے رب
کے در پر حاضر ہے اس کی رحمت کی امید لیے ،اس کے کرم کا طلبگار بنے ،اس کے
فضل کا امیدوار ہو کرکیونکہ یہی وہ در ہے جہاں سے سب امیروں فقیروں کو سب
کچھ ملتا ہے ،اگر اس در پر فقیرانہ صدا نہ لگائی جائے تو اور کہاں لگائی
جائے ؟اگر اس بارگاہ سے فضل وکرم کی امیدیں وابستہ نہ کی جائیں تو اور کہاں
سے کی جائیں ؟
یہاں آکر عجیب کیفیت ہوتی ہے ۔ایک طرف اشتیاق ایسا کہ انسان کو بے تاب کیے
دیتا ہے اور جی چاہتا ہے کہ دوڑ کر بیت اللہ شریف سے لپٹ جائے ،غلاف کعبہ
سے چمٹ جائے اور دوسری طرف شرمندگی ،ندامت اور رعب کا وہ عالم کہ حاضری کی
ہمت نہیں ہوتی ....دیر تک ایک عجیب کشمکش برپا رہتی ہے ....کبھی شوق
کھینچتا ہے اور کبھی ندامت آڑے آجاتی ہے ....کبھی عقیدت ومحبت کا غلبہ ہو
جاتا ہے اور کبھی رعب ودبدبہ سے انسان لرزہ برندام ہو جاتا ہے.... لیکن جب
ایک مرتبہ انسان بیت اللہ شریف کے سامنے جا پہنچتا ہے تو پھر یوں لگتا ہے
جیسے کسی بچے کو اس کی ماں نے اپنی آغوش میں لے لیا ہو اور ماں کی ٹھنڈی
میٹھی ممتا جیسے انسان کے سینے میں ٹھنڈ ڈال دیتی ہے ویسے ہی حرم شریف کی
چھاؤں میں جا کر انسان کو ایک عجیب سا اطمینان نصیب ہوتا ہے ۔بیت اللہ شریف
پر پہلی نظر پڑتے ہی یوں محسو س ہوتا جیسے آدمی ساری دنیا سے بے خبر ہو گیا
ہو ،آدمی کو سمجھ نہیں آتی کہ وہ اپنے حواس پر قابو پائے یااپنے دل کی
دھڑکنوں کو کنٹرول کرے؟اپنی بے ترتیب ہوتی سانسوں کو سنبھالے یااپنے آنسوؤں
کو پونچھے ؟اپنے رب سے اس کی رحمت مانگے یا اپنی نادانیوں پر روتا چلا جائے
....دیر تک انسان ساکت وجامد کھڑا رہتا ہے ....جیسے کسی لق ودق صحرا پر
موسلا دھار بارش برس گئی ہو ....جیسے کسی پیاسے کو مدتوں بعد پانی نصیب ہوا
ہو ....جیسے برسوں سے اپنے ماں باپ سے بچھڑا ہوا بچہ واپس اپنے باپ کی شفقت
کے سائے اور اپنی ماں کی ممتا کی مٹھاس کو پا لے ....پتہ نہیں کیا ہوتا ہے؟....شاید
اس کیفیت کو کوئی بیان نہیں کر سکے گا ....سنگ دل سے سنگ دل شخص جس کی
آنکھوں سے کبھی کوئی آنسو نہ ٹپکا ہو وہ بھی یہاں زار وقطار رونے پر مجبور
ہوجاتا ہے ....پہلے تو لفظ نہیں سوجھتے ....لفظ سوجھیں تو معانی بغاوت کر
جاتے ہیں ....سارے لفظ آنسو بن جاتے ہیں ....ساری بے بسی آنکھوں سے امڈنے
لگتی ہے ....ندامت کے داغ دھلنے لگتے ہیں ....حرم کے مرکزی دروازے سے ایک
عادی مجرم کی طرح سر جھکائے انسان اندر داخل ہوتا ہے تو بے ساختہ نظریں
اوپر اٹھ کر بیت اللہ شریف سے لپٹ جانا چاہتی ہیں لیکن بڑی مشکل سے انہیں
کنٹرول کرنا پڑتا ہے
حضر ت نفیس شاہ جی مرقد پر اللہ کروڑوں رحمتیں برسائے ....انہوں نے کیا خوب
کہاہے
شکر ہے تیرا خدایا میں تو اس قابل نہ تھا
تو نے اپنے گھر بلایا میں تو اس قابل نہ تھا
مدتوں کی پیاس کو سیراب تو نے کر دیا
گرد کے کعبے کے پھرایا میں تو اس قابل نہ تھا
ڈال دی ٹھنڈک مرے سینے میں تو نے ساقیا !
جام زم زم کاپلایامیںتواس قابل نہ تھا |