محترم مشیر کھیل خیبرپختونخواہ کی خدمت میں عرض داشت
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
السلام علیکم،
سب سے پہلے آپ کو وزارتِ کھیل و امورِ نوجوانان کا قلمدان سنبھالنے پر مبارکباد۔ آپ کی آمد سے ایک نئی ا±مید پیدا ہوئی ہے کہ شاید اب وہ تبدیلی ممکن ہو سکے جس کی کھلاڑیوں، کوچز اور اس محکمے کے ایماندار ملازمین کو طویل عرصے سے ضرورت ہے۔ لیکن ساتھ ہی عرض ہے کہ یہ وزارت جتنی خوبصورت نظر آتی ہے، اتنی ہی پیچیدہ، بگڑی ہوئی اور سیاست و ذاتی مفادات میں گِھری ہوئی بھی ہے۔
آپ کے سامنے وہ چہرے بھی آئیں گے جو شاید زندگی میں کبھی اس ڈائریکٹوریٹ کے قریب نہیں پھٹکے، لیکن اب چاپلوسی کے ہنر سے اپنے کام نکالنے کے لیے صف باندھ کر آئیں گے۔ یہ روایت اس محکمے میں پرانی ہے، اور آپ کے سامنے کھڑے کئی ایسے لوگ ہوں گے جن کے چہروں پر مسکراہٹ مگر دل میں مفاد چھپا ہوگا۔ آپ کے لیے اصل چیلنج یہی ہے کہ اصلی اور نقلی کے بیچ فرق کریں۔
اس وزارت کا ایک مخصوص مزاج ہے جو برسوں سے بدلنے کے بجائے اور بگڑتا گیا ہے۔ کئی ترقیاتی منصوبے کاغذوں سے باہر نہیں نکلے، اور جو نکلے وہ کرپشن کے بوجھ تلے دب گئے۔ بعض منصوبے اتنے پرانے ہوچکے ہیں کہ ان پر آج تک اتنی فنڈنگ ہوچکی ہے کہ کئی افسران، جو کبھی موٹر سائیکل پر دفتر آتے تھے، آج کروڑوں کے مالک بن چکے ہیں۔ اگر کوئی شک ہے تو دس سال کے اندرونی و ذاتی اثاثے پبلک کردیں — دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔ہم جانتے ہیں، سچ کڑوا ہوتا ہے۔ اس سچ کی وجہ سے ہمیں کبھی جھوٹے افسران کی گالیاں سننی پڑتی ہیں، کبھی جعلی ایسوسی ایشنز کی سازشیں برداشت کرنی پڑتی ہیں، لیکن سچ وہی رہے گا۔ کیونکہ اوپر ایک ایسا انصاف کرنے والا موجود ہے جو سب دیکھ رہا ہے۔
محکمے کی بنیادی ذمہ داری کھلاڑیوں کو سہولیات دینا ہے۔ لیکن کھیل اوپر سے نہیں، نچلی سطح سے پروان چڑھتے ہیں۔ اگر آپ حقیقی تبدیلی چاہتے ہیں تو آغاز نرسری سطح سے کریں۔ سکولوں میں کھیلوں کا سامان مہیا کیا جائے، جہاں بچوں کے لیے فنڈز نہ ہونے کے باعث کھیل کا تصور ہی ختم ہوچکا ہے۔ اگر سکولوں میں کھیلوں کی بنیاد مضبوط ہو گئی تو وہی بچے آگے چل کر صوبے اور ملک کا نام روشن کر سکتے ہیں۔پشاور میں اس وقت سب سے زیادہ سرگرمی اسکواش میں دکھائی دیتی ہے۔ روزانہ تین سو کے قریب کھلاڑی ڈائریکٹوریٹ آتے ہیں، مگر ان میں سے کتنے واقعی پیشہ ور ہیں؟ کتنے صوبے یا ملک کی نمائندگی کر رہے ہیں؟ اور کتنے صرف اس لیے کھیلتے ہیں کہ بیرون ملک جانے کے چانسز زیادہ ہیں؟ اگر آپ چاہیں تو پچھلے دس سالوں کا ڈیٹا منگوائیں، آپ کے سامنے سب کچھ واضح ہو جائے گا۔
اسی طرح کرکٹ، آرچری، ٹیبل ٹینس، بیڈمنٹن، ٹیگ بال، ٹینس، مارشل آرٹس، ہاکی، ویٹ لفٹنگ اور ایتھلیٹکس کے شعبے بھی موجود ہیں، مگر افسوس یہ ہے کہ جنہیں ”کھیلوں کی ماں“ کہا جاتا ہے، یعنی ایتھلیٹکس، ان کا حال بدترین ہے۔ پشاور سپورٹس کمپلیکس میں پانچ سال سے ٹارٹن ٹریک نہیں لگ سکی۔ ٹھیکہ 38 کروڑ کا تھا جو بڑھتے بڑھتے 68 کروڑ تک جا پہنچا، اور اب کہا جارہا ہے کہ اسے مزید بڑھانے کی تیاریاں ہیں۔یہ منصوبہ اگست 2024 میں مکمل ہونا تھا۔ نہ صرف تاخیر ہوئی بلکہ ٹھیکیدار پر ایک روپیہ جرمانہ بھی نہیں لگایا گیا۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں ادارہ خاموش ہے کیونکہ ”سب کے پیٹ لگے ہیں“ اور کوئی مٹی نہیں کھاتا۔
ہاکی، جو پاکستان کا قومی کھیل ہے،جس کے کھلاڑی اب صوبے میں گھٹتے جارہے ہیں جس میں بہت سارے عوامل کا کردار ہے پاکستان اسپورٹس بورڈ نے پشاور کے لالہ ایوب ہاکی سٹیڈیم میں بارہ کروڑ روپے سے زیادہ خرچ کیے مگر جو ٹرف لگائی گئی وہ ناقص ترین نکلی۔ ایک سال بھی مکمل نہیں ہوا اور فوارے، مشینیں، بیس سے لیکر دیگر ایکوپمنٹ سب ناکارہ ہوچکے ہیں۔صوبائی خاتون ڈائریکٹریس رشیدہ غزنوی نے اس پر باقاعدہ رپورٹ دی تھی، اور ہاکی ایسوسی ایشن کے خدشات بھی ریکارڈ پر ہیں۔ مگر سب کچھ دبا دیا گیا۔ راقم نے اس حوالے سے متعدد "رائٹ ٹو انفارمیشن" درخواستیں دائر کی ہیں جو اب تک زیرِ التوا ہیں۔ اس سے بڑی شفافیت کی ناکامی کی مثال شاید ہی ملے۔
سال 2021 میں ڈائریکٹوریٹ نے تین لاکھ روپے فی کمپیوٹر کے حساب سے دس کمپیوٹر خریدے۔ سوال یہ ہے کہ وہ کمپیوٹر کہاں ہیں؟ آج بھی افسران ذاتی لیپ ٹاپ میں سرکاری ڈیٹا سنبھال رہے ہیں، جو کہ قانوناً جرم ہے۔ اس پر کوئی پوچھنے والا نہیں۔اسی طرح 21 گاڑیاں اعلیٰ افسران اپنے ساتھ لے گئے ہیں۔ کمیٹی پر کمیٹی بن رہی ہے مگر کوئی افسر ان گاڑیوں کو واپس نہیں لا سکا۔ کچھ گاڑیاں ”دوستی“ کے نام پر دوسرے محکموں میں چل رہی ہیں۔بیڈمنٹن، ٹیبل ٹینس اور ٹینس کے لیے مشینیں لاکھوں روپے میں خریدی گئیں مگر پانچ سال سے استعمال میں نہیں آئیں۔ کہا جاتا ہے کہ ”کوچز کو چلانا نہیں آتا“ یا ”فنڈ نہیں“۔ تو پھر یہ خریداری کیوں کی گئی؟ عوامی ٹیکس کا پیسہ ضائع ہوا اور کوئی جواب دہ نہیں۔
ایک اور افسوسناک رجحان یہ ہے کہ کچھ لوگ بیرونِ ملک صرف سیلفیاں لینے جاتے ہیں۔ وہ پاکستانی جھنڈا لپیٹ کر تصاویر بناتے ہیں، مگر وہاں کوئی مقابلہ نہیں کھیلتے۔ واپس آ کر سپورٹس ڈائریکٹوریٹ سے فنڈز لے لیتے ہیں۔ ان میں سے کئی ایسے ہیں جو صوبے کے عام کھلاڑی سے بھی کمزور ہیں۔ ان کے لیے باقاعدہ پالیسی بنانا ضروری ہے — کہ فنڈ فیڈریشن یا ایسوسی ایشن کو دیے جائیں، افراد کو نہیں۔یہ ڈائریکٹوریٹ اب کھیل سے زیادہ ”ویزہ فیکٹری“ کے طور پر مشہور ہو رہی ہے۔ چند سالوں میں کئی ایسے کیس سامنے آئے جن میں جعلی کھلاڑیوں کے نام پر لوگوں کو بیرونِ ملک بھیجا گیا۔ اس معاملے کی تحقیقات بھی ہوئیں مگر کسی کو سزا نہیں ملی۔ یہی وہ بدنامی ہے جو خیبر پختونخوا کے اصل کھلاڑیوں کے چہرے پر داغ بن کر لگی ہوئی ہے۔ اس پر فوری اور سخت ایکشن ضروری ہے۔
پچھلے پانچ سالوں سے کسی بھی سپورٹس ایسوسی ایشن کو گرانٹ اینڈ ایڈ کی مد میں ایک روپیہ بھی نہیں ملا۔ نتیجہ یہ کہ بیشتر ایسوسی ایشنز بند یا غیر فعال ہو چکی ہیں۔ ان کی بحالی کے بغیر کھیلوں کا نظام دوبارہ زندہ نہیں ہوسکتا۔سب سے افسوسناک صورتحال ڈیلی ویجز ملازمین اور کوچز کی ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو صبح شام گراو¿نڈز میں پسینہ بہاتے ہیں، مگر انہیں مہینوں تنخواہیں نہیں ملتیں۔ ان کی نوکری غیر یقینی ہے، ان کا روزگار عدم تحفظ کا شکار ہے۔ وہی ادارہ جو نوجوانوں کے خوابوں کی بات کرتا ہے، اپنے ہی ملازمین کو بنیادی حق دینے سے قاصر ہے۔
مشیر صاحب، آپ کے پاس ایک تاریخی موقع ہے۔ یہ وزارت اگر دیانت، شفافیت اور میرٹ سے چلائی جائے تو صوبے کے نوجوانوں کے لیے نئی راہیں کھل سکتی ہیں۔ لیکن اگر وہی پرانی روش رہی تو چند خوشامدی چہرے فائدہ اٹھائیں گے اور کھلاڑی پھر محروم رہیں گے۔آپ وزیراعلیٰ کو یہ باور کرائیں کہ یہ صرف ”کھیلوں“ کی وزارت نہیں، بلکہ ”نوجوانوں کے مستقبل“ کی وزارت ہے۔ آپ چاہیں تو اگلے دو سال میں ایسے فیصلے کرسکتے ہیں جو آنے والی نسلیں یاد رکھیں۔
ہم جیسے لوگ، جو برسوں سے کھیلوں کے شعبے پر لکھ رہے ہیں، آپ کو حقائق بتاتے رہیں گے۔ عمل آپ نے کرنا ہے۔ اللہ نے آپ کو موقع دیا ہے، تو دعا ہے کہ آپ اس حق کو امانت سمجھ کر نبھائیں۔ختم کرتے ہوئے ایک بار پھر عرض ہے کہ اگر صوبے کے نوجوانوں کو صحیح سمت دی جائے، تو یہی لوگ کل پاکستان کا فخر بن سکتے ہیں۔ مگر اس کے لیے پہلے اس محکمے کو اندر سے صاف کرنا ہوگا — کرپشن، اقربا پروری، اور خوشامد سے۔
اللہ آپ کو ہمت دے کہ آپ یہ کام کر سکیں۔
والسلام، ایک عام شہری اور کھیلوں کا مشاہدہ کرنے والا (جو اب بھی یقین رکھتا ہے کہ تبدیلی ممکن ہے اگر نیت صاف ہو)
|