بحرین میں نوجوان کھلاڑیوں کی محنت، مگر حساب کون دے گا؟

بحرین میں ہونے والے تیسرے ایشیائی یوتھ گیمز 2025 میں پاکستان کی کارکردگی ایک بار پھر محدود رہی۔ نوجوان کھلاڑیوں نے بھرپور کوشش کے باوجود صرف تین تمغے جیتے — ایک چاندی اور دو کانسی — لیکن حکومتی اخراجات کا کوئی واضح حساب سامنے نہیں آیا۔

پاکستان نے اس بار آٹھ کھیلوں میں حصہ لیا: ایتھلیٹکس، بیڈمنٹن، جوجِتسو، کبڈی، تیراکی، تائیکوانڈو، والی بال اور ریسلنگ۔ والی بال ٹیم نے شاندار کھیل پیش کرتے ہوئے سلور میڈل حاصل کیا مگر فائنل میں ایران سے شکست کھائی۔ کبڈی ٹیم نے برونز میڈل جیتا جبکہ ریسلر حسن علی نے 70 کلوگرام کیٹیگری میں کانسی کا تمغہ حاصل کیا۔ ان تین کامیابیوں کے بعد پاکستان مجموعی طور پر 29ویں نمبر پر رہا۔ اگرچہ پچھلے ایڈیشن کے مقابلے میں یہ معمولی بہتری ہے، لیکن کارکردگی اب بھی کمزور اور مایوس کن سمجھی جا رہی ہے۔

یہ تمغے ان نوجوان کھلاڑیوں کی انتھک محنت کا نتیجہ ہیں جنہیں وسائل کی کمی، ناقص تربیت، اور ادارہ جاتی غفلت کا سامنا رہتا ہے۔ لیکن اصل سوال یہ ہے کہ ان کی کامیابیوں کے پیچھے چھپے مالی حسابات کہاں ہیں؟ بحرین مشن پر کتنے اخراجات ہوئے؟ کتنے کھلاڑی اور کتنے افسران وفد میں شامل تھے؟ اور سب سے اہم، عوام کا پیسہ کہاں اور کس طرح خرچ ہوا؟

پاکستان اسپورٹس بورڈ کے مطابق بحرین جانے والے پاکستانی دستے میں 53 افراد شامل تھے جن میں کھلاڑی، کوچز، آفیشلز اور مینیجرز شامل تھے۔ اگرچہ پاکستان اسپورٹس بورڈ نے بحرین مشن کے تمام انتظامات کی ذمہ داری لی تھی، لیکن اب تک یہ واضح نہیں کہ سرکاری طور پر کتنا خرچ ہوا اور کس مد میں گیا۔ حیرت انگیز طور پر کچھ کھلاڑیوں نے تصدیق کی ہے کہ انہوں نے اپنے ہوائی ٹکٹ اور سفری اخراجات خود برداشت کیے۔ یہ وہ اخراجات ہیں جو دراصل پی ایس بی یا متعلقہ فیڈریشنز کی ذمہ داری بنتے تھے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ فنڈز کے استعمال میں شفافیت کا شدید فقدان ہے اور ممکن ہے کہ تمام بجٹ کھلاڑیوں تک پہنچا ہی نہ ہو۔

اب سوال یہ ہے کہ جب کھلاڑی پسینے بہا رہے تھے، تو پسِ پردہ جانے والے سرکاری افسران کیا کر رہے تھے؟ کیا واقعی وفد میں صرف ضروری افراد شامل تھے؟ کیا فنڈز کھلاڑیوں کی تربیت اور سہولتوں پر لگے یا کسی اور سمت چلے گئے؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کے جواب حکومت، پاکستان اسپورٹس بورڈ اور نیشنل اولمپک کمیٹی کو دینا ہوں گے۔ایسے ایونٹس کا بنیادی مقصد نوجوانوں کو بین الاقوامی سطح پر موقع دینا ہوتا ہے، مگر غیر شفاف نظام نے ان کی کارکردگی پر سوال اٹھا دیے ہیں۔ کھلاڑیوں کا کہنا ہے کہ انہیں مناسب تربیت، خوراک اور سازوسامان میسر نہیں آیا، جبکہ غیر ضروری سرکاری اہلکاروں نے وفد کا حصہ بن کر فنڈز کا بڑا حصہ استعمال کیا۔

کھیلوں کے ماہرین کے مطابق: “جب کروڑوں روپے سے صرف تین تمغے حاصل ہوں تو ہمیں اپنی ترجیحات بدلنی چاہئیں۔ یہ کھیلوں کی ترقی نہیں، بلکہ سرکاری نمائشی مہمات ہیں۔” اگر پاکستان کو واقعی کھیلوں میں شفافیت لانی ہے تو ہر بین الاقوامی ایونٹ کے بعد اسپورٹس بورڈ اور اولمپک کمیٹی کو مکمل مالی رپورٹ عوام کے سامنے رکھنی چاہیے۔ قومی اسمبلی کی کھیلوں کی قائمہ کمیٹی کو یہ اختیار استعمال کرنا ہوگا کہ وہ ان اخراجات کی جانچ کرے اور ذمہ داروں کو جواب دہ بنائے۔

بحرین یوتھ گیمز میں نوجوان کھلاڑیوں نے اپنی بھرپور کوشش کی، مگر نظام نے انہیں مایوس کیا۔ جب تک کھیلوں کے بجٹ، اخراجات اور انتخابی عمل میں شفافیت نہیں آئے گی، نتائج میں بہتری محض اعلانات تک محدود رہے گی۔ کھیل کی اصل ترقی میدان میں نہیں بلکہ ایمانداری، جوابدہی اور شفاف طرزِ حکمرانی سے ہوتی ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ ہم کھیل کے نظام کو “اختیارات اور مفادات” سے نکال کر “صلاحیت اور خدمت” کی بنیاد پر کھڑا کریں — ورنہ آئندہ بھی پسینہ کھلاڑی بہائیں گے، اور فائدہ کوئی اور اٹھائے گا۔

#AsianYouthGames #Bahrain2025 #PakistanSports #PSB #NOCPakistan #TransparencyInSports #YouthAthletes #KikxnowInvestigates #SportsFunds #PakistanVolleyball #PakistanKabaddi #PakistanWrestling #MusarratUllahJan
Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 841 Articles with 689635 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More