کبڈی، قومی وقار اور ادارہ جاتی ناکامی: ایک کھلاڑی نہیں، پورا نظام کٹہرے میں
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
قومی کبڈی کھلاڑی کا بھارتی ٹیم کی نمائندگی کرنا محض ایک جذباتی یا جذبات بھڑکانے والا واقعہ نہیں۔ یہ خبر اگر سطحی طور پر دیکھی جائے تو معاملہ ایک شرٹ، ایک جھنڈے اور ایک تصویر تک محدود لگتا ہے، مگر ذرا گہرائی میں جائیں تو یہ واقعہ پاکستان کے اسپورٹس گورننس، فیڈریشنز کی ساکھ، اور کھلاڑیوں کے ساتھ ریاستی رویے پر ایک سنجیدہ سوالیہ نشان ہے۔پاکستان کبڈی فیڈریشن کی جانب سے ہنگامی جنرل کونسل اجلاس بلانا بظاہر ایک بروقت قدم لگتا ہے، لیکن اصل سوال یہ ہے کہ کیا یہ اجلاس محض ایک ردعمل ہے یا واقعی خود احتسابی کی شروعات؟ کیونکہ اگر ہم سچ بولیں تو یہ پہلا واقعہ نہیں، اور اگر نظام یہی رہا تو شاید آخری بھی نہیں ہوگا۔
سب سے پہلے واقعے کی نوعیت کو سمجھنا ضروری ہے۔ ایک قومی سطح کا کھلاڑی، جس کا تعلق پاکستان سے ہے، بھارت کی ٹیم کی نمائندگی کرتا ہے، بھارتی جرسی پہنتا ہے اور بھارتی پرچم لہراتا ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں، جہاں کھیل اور سیاست الگ الگ نہیں بلکہ اکثر گڈ مڈ رہتے ہیں، یہ عمل لازماً شدید ردعمل کو جنم دیتا ہے۔ عوامی سطح پر غصہ فطری ہے، لیکن ادارہ جاتی سطح پر ہمیں جذبات کے بجائے حقائق اور وجوہات کو دیکھنا ہوگا۔پاکستان کبڈی فیڈریشن کے سیکریٹری رانا سرور کا یہ مو¿قف کہ بحرین میں شرکت کرنے والی ٹیم قومی ٹیم نہیں تھی اور فیڈریشن کی اجازت کے بغیر گئی، خود ایک بڑا انکشاف ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر اجازت نہیں تھی تو یہ ٹیم گئی کیسے؟ پاسپورٹ، ویزا، ٹورنامنٹ انٹری، اسپانسرشپ، سب کچھ ہوا، اور فیڈریشن کو خبر تک نہ ہوئی؟ یا خبر تھی، مگر خاموشی بہتر سمجھی گئی؟
یہاں سے ادارہ جاتی کمزوری کی کہانی شروع ہوتی ہے۔ پاکستان میں اسپورٹس فیڈریشنز عموماً دو طرح سے کام کرتی ہیں۔ ایک کاغذوں میں، اور دوسری حقیقت میں۔ کاغذوں میں ضابطے سخت، قوانین واضح اور ڈسپلن زیرو ٹالرنس ہوتا ہے۔ حقیقت میں، فیصلے تعلقات، خاموش مفاہمت اور وقتی مصلحت کے تحت ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کھلاڑی خود کو ریاست یا ادارے کے بجائے اپنی ذات کے ساتھ وفادار سمجھنے لگتے ہیں۔یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان میں کبڈی جیسے کھیل کے کھلاڑی معاشی طور پر غیر محفوظ ہیں۔ نہ مستقل کنٹریکٹ، نہ ہی میڈیکل کور، نہ روزگار کی گارنٹی۔ جب کسی کھلاڑی کو بیرون ملک کھیلنے کا موقع ملتا ہے، چاہے وہ کسی بھی پرچم تلے ہو، تو وہ اسے زندگی کا موقع سمجھتا ہے، قومی غیرت کا سبق نہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے اس کھلاڑی کو کبھی یہ احساس دلایا کہ ریاست اس کے ساتھ کھڑی ہے؟
یہاں یہ کہنا بھی ضروری ہے کہ کسی بھی کھلاڑی کا بغیر اجازت کسی دوسرے ملک یا متنازع ٹیم کی نمائندگی کرنا یقیناً غلط ہے، اور اس پر کارروائی ہونی چاہیے۔ لیکن کارروائی صرف کھلاڑی تک محدود رکھنا انصاف نہیں ہوگا۔ اصل ذمہ داری ان منتظمین، ایجنٹس، اور ان غیر رسمی نیٹ ورکس پر بھی عائد ہوتی ہے جو کھلاڑیوں کو استعمال کرتے ہیں اور ضرورت پڑنے پر غائب ہو جاتے ہیں۔پاکستان کبڈی فیڈریشن کے مجوزہ اجلاس میں اگر صرف پابندیوں اور شوکاز نوٹسز کی بات ہوگی تو یہ ایک اور رسمی کارروائی ہوگی۔ اصل سوال یہ ہے کہ کیا فیڈریشن اپنی ناکامی کو تسلیم کرے گی؟ کیا یہ دیکھا جائے گا کہ غیر مجاز ٹیمیں پاکستان کا نام کیسے استعمال کر رہی ہیں؟ کیا بیرون ملک کھیلنے والے کھلاڑیوں کا کوئی ڈیٹا، کوئی مانیٹرنگ سسٹم موجود ہے؟
یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ اگر یہ واقعہ منظر عام پر نہ آتا، اگر تصاویر وائرل نہ ہوتیں، تو کیا اجلاس پھر بھی بلایا جاتا؟ ہماری اسپورٹس تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے جو فائلوں میں دب گئے کیونکہ میڈیا نے سوال نہیں اٹھایا، یا ادارے نے بروقت نوٹس نہیں لیا۔کبڈی جیسے کھیل، جو دیہی ثقافت اور عوامی شناخت سے جڑا ہے، اس کے کھلاڑی اگر خود کو تنہا محسوس کریں گے تو ایسے واقعات ہوتے رہیں گے۔ قومی پرچم صرف جذباتی تقریروں سے نہیں، عملی سرپرستی سے مقدس بنتا ہے۔ جب ریاست کھیل کو سنجیدگی سے نہیں لیتی، تو کھلاڑی بھی ریاست کو ایک آپشن سمجھنے لگتے ہیں، فرض نہیں۔
یہ بھی اہم ہے کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان کھیل ہمیشہ حساس رہا ہے۔ ایسے میں کسی پاکستانی کھلاڑی کا بھارتی شرٹ پہننا صرف اسپورٹس ایشو نہیں رہتا، بلکہ سیاسی اور سماجی مسئلہ بن جاتا ہے۔ فیڈریشن کو یہ سمجھنا ہوگا کہ ایسے معاملات میں تاخیر یا ابہام نقصان کو کئی گنا بڑھا دیتا ہے۔اب سوال یہ ہے کہ آگے کیا ہونا چاہیے؟ سب سے پہلے، ایک شفاف انکوائری، جس میں صرف کھلاڑی نہیں بلکہ ٹیم بنانے والے، فنڈنگ کرنے والے اور سہولت کار بھی شامل ہوں۔ دوسرا، واضح پالیسی کہ کون سا کھلاڑی کہاں، کس اجازت سے کھیل سکتا ہے۔ تیسرا، کھلاڑیوں کی فلاح و بہبود، تاکہ وہ مجبوری میں غلط فیصلے نہ کریں۔
آخر میں، ہمیں یہ ماننا ہوگا کہ یہ معاملہ صرف ایک کھلاڑی کا نہیں، بلکہ پورے اسپورٹس سسٹم کا آئینہ ہے۔ اگر ہم نے اس آئینے کو توڑ دیا تو چہرہ نہیں بدلے گا۔ اگر واقعی اصلاح مقصود ہے تو اجلاس کو علامتی نہیں، فیصلہ کن بنانا ہوگا۔ورنہ چند دن شور مچے گا، ایک دو پابندیاں لگیں گی، اور پھر اگلا واقعہ کسی اور کھیل، کسی اور ملک، اور کسی اور کھلاڑی کے ساتھ ہمارے سامنے ہوگا۔ اور ہم ایک بار پھر حیران ہوں گے کہ یہ سب کیسے ہو گیا۔ #kabbadi #sports #kikxnow #digitalcreator #pakistan #india
|