کھیلوں کا محکمہ یا سفید ہاتھی؟ — نئی سہ ماہی اور پرانی بے حسی کی کہانی


الحمد للّٰہ، ایک اور سہ ماہی شروع ہو چکی ہے۔ کاغذوں میں ترقی، رپورٹوں میں کامیابی، اور حقیقت میں وہی پرانی فائلوں کی گرد۔ سال 2025–26 کی پہلی سہ ماہی جولائی، اگست اور ستمبر پر مشتمل تھی، اور اب اکتوبر اور نومبر کے مہینے نئے مالی دور کی شروعات کے گواہ بننے جا رہے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ پچھلی سہ ماہی میں ہوا کیا؟ کیا واقعی کھیلوں کی دنیا میں کوئی بہتری آئی، یا صرف کاغذوں میں “سرگرمیاں” بڑھائی گئیں؟

کھیلوں کی وزارت اور اس کے ماتحت اداروں کو اب اپنی کارکردگی پر ایک سنجیدہ نظر ڈالنے کی ضرورت ہے۔ چار ماہ گزر چکے، مگر زمینی حقائق یہ بتاتے ہیں کہ خیبرپختونخوا کے بیشتر اضلاع میں کھیلوں کا پہیہ یا تو رکا ہوا ہے یا کسی اور سمت میں گھمایا جا رہا ہے۔ سب سے پہلے سوال یہ بنتا ہے کہ کتنے اضلاع میں اسسٹنٹ ڈسٹرکٹ سپورٹس آفیسرز (ADSO) حقیقت میں اپنی ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں؟ کتنے اضلاع میں ڈسٹرکٹ سپورٹس آفیسرز (DSO) اپنی اصل پوسٹنگ پر ہیں، اور کتنے ایسے ہیں جو “عارضی طور پر” کسی اور عہدے پر تعینات ہیں، جہاں “ڈیوٹی” کم اور “موقع” زیادہ ہوتا ہے؟

یہ وہ بنیادی سوالات ہیں جن کا جواب اگر دیانت داری سے دیا جائے تو محکمہ کھیل کی اصل کارکردگی کا چہرہ سامنے آ جائے گا۔ کاغذوں میں مقابلے، میدان میں خاموشی چھائی ہوئی ہے گزشتہ چار ماہ میں کتنے کھیلوں کے مقابلے اضلاع کی سطح پر کروائے گئے؟ اگر ڈی جی اسپورٹس خیبرپختونخوا واقعی چاہیں تو ایک سادہ سا نوٹیفکیشن جاری کریں اور تمام DSO سے تفصیلی رپورٹ طلب کریں کہ “آپ کے ضلع میں جولائی تا ستمبر کتنے کھیلوں کے مقابلے ہوئے؟ کون سا ایونٹ آپ کے دفتر کے تحت منظم کیا گیا؟ کتنے فنڈز استعمال ہوئے؟ اور کتنے کھلاڑیوں نے شرکت کی؟”

یقیناً اگر یہ سوالات پوچھ لیے جائیں تو کئی “کاغذی سپورٹس آفیسرز” کی نیندیں اڑ جائیں گی۔ کیونکہ بہت سے اضلاع میں “کھیلوں کی سرگرمیاں” صرف تصاویر اور بینرز تک محدود ہیں۔ ایک عام حربہ یہ ہے کہ کسی پرائیویٹ یا مقامی تنظیم کے ٹورنامنٹ میں جا کر اپنی موجودگی دکھائی جاتی ہے، تصویریں لی جاتی ہیں، اور پھر سوشل میڈیا پر لکھ دیا جاتا ہے کہ “یہ ایونٹ ڈسٹرکٹ سپورٹس آفس کے تعاون سے منعقد ہوا۔”
بس یوں ایک اور “کارکردگی رپورٹ” مکمل ہو جاتی ہے۔

صوبائی وزارت کھیل کو چاہئے کہ وہ پچھلی سہ ماہی کے حسابات پر غور کرے۔ پینتیس اضلاع میں کتنے ملازمین تنخواہیں لے رہے ہیں، کتنے دفاتر فعال ہیں، اور ان چار مہینوں میں کھیلوں کی مد میں کتنی رقم خرچ ہوئی؟یہ وہ تفصیلات ہیں جو کبھی عوام کے سامنے نہیں لائی جاتیں۔ اسی طرح، سپورٹس کمپلیکسز کی آمدنی اور اخراجات بھی ایک راز بن چکے ہیں۔ اگر اعداد و شمار سامنے لائے جائیں کہ کس کمپلیکس نے کتنی آمدنی پیدا کی اور وہ کہاں خرچ ہوئی، تو حقیقت واضح ہو جائے گی کہ “کون کتنے پانی میں ہے۔”

اکثر کمپلیکسز میں بجلی کے بلوں اور عملے کی تنخواہوں پر اتنا خرچ ہوتا ہے کہ کھیلوں کے فروغ کے لیے کچھ بچتا ہی نہیں۔ ایسے میں جب عوام دیکھتی ہے کہ اربوں کے بجٹ کے باوجود نوجوانوں کے پاس کھیلنے کے لیے نہ میدان ہیں، نہ کوچز، تو سوال بجا ہے —یہ تمام فنڈز آخر جا کہاں رہے ہیں؟ اگر خلوصِ نیت سے جائزہ لیا جائے تو محکمہ کھیل ایک سفید ہاتھی بن چکا ہے۔ دیکھنے میں شاندار، مگر عملی طور پر بوجھ۔ نہ نیا ٹیلنٹ ابھر رہا ہے، نہ ضلعی سطح پر کوئی مستقل اسٹرکچر موجود ہے۔ کھیلوں کی ترقی کا ذکر صرف رپورٹوں میں ملتا ہے، حقیقت میں نہیں۔

پچھلی سہ ماہی میں کتنے اضلاع میں کھلاڑیوں کو سہولیات دی گئیں؟ کتنے کوچز کی تربیت ہوئی؟ کتنے نوجوانوں کو کھیلوں کے ذریعے آگے بڑھنے کا موقع دیا گیا؟ یہ سوالات اگر کسی اجلاس میں پوچھ لیے جائیں، تو شاید کئی کرسیوں پر بیٹھے لوگ زمین دیکھنے لگیں۔کھیلوں کا بجٹ ہر سال بڑھتا ہے۔ کاغذوں میں نئے منصوبے شامل ہوتے ہیں، لیکن زمینی حقیقت برعکس ہے۔ کئی ضلعی دفاتر میں نہ بنیادی سہولتیں ہیں، نہ اسٹاف۔ کہیں DSO دوسرے ضلع میں بیٹھے ہیں، کہیں اسسٹنٹ سپورٹس آفیسرز “عارضی انچارج” بن کر فائلیں سنبھالے ہوئے ہیں۔ میدان سنسان ہیں، لیکن رپورٹس میں گہما گہمی ہے۔

اگر وزارت کھیل واقعی سنجیدہ ہے تو اسے دو کام فوری کرنے چاہئیں تمام DSOs کی سہ ماہی کارکردگی رپورٹ عوامی طور پر جاری کی جائے۔ ہر ضلع میں کھیلوں کے لیے استعمال ہونے والے فنڈز اور اخراجات کا مکمل ریکارڈ ویب سائٹ پر اپلوڈ کیا جائے۔ یہ شفافیت نہ صرف محکمہ کی ساکھ بہتر کرے گی بلکہ عوام کا اعتماد بھی بحال کرے گی۔

یہ سب باتیں صرف تنقید کے لیے نہیں، بلکہ اصلاح کے لیے ہیں۔ کھیل کسی بھی معاشرے کی صحت، نظم و ضبط اور ترقی کی علامت ہوتے ہیں۔اگر ہم نے کھیلوں کے نظام کو اسی طرح لاپرواہی کے حوالے رکھا تو نوجوان نسل میدان کے بجائے سڑکوں پر وقت گزارے گی۔یہ لمحہ فکریہ ہے کہ کھیلوں کے نام پر قائم ایک مکمل وزارت اپنے وجود کا جواز کھو رہی ہے۔ جب کارکردگی نہ ہو، جوابدہی نہ ہو، اور فنڈز کا استعمال مشکوک ہو، تو پھر سوال بنتا ہے — کیا واقعی ہمیں ایسے سفید ہاتھی کی ضرورت ہے؟

کھیلوں کے افسران کو اب سمجھنا ہوگا کہ صرف فیس بک پر تصویریں پوسٹ کرنے سے کھیل نہیں پروان چڑھتے۔ یہ وقت ہے کہ وزارت کھیل اپنے ڈھانچے کو دوبارہ دیکھے، بے کار افسران کو ہٹائے، فعال افسران کو حوصلہ دے، اور اصل کھیلوں کی سرگرمیوں کو ترجیح دے۔ ورنہ اگلی سہ ماہی میں بھی یہی خبر ہوگی کہ “الحمد للّٰہ، نئی سہ ماہی شروع ہوگئی ہے” —اور میدان بدستور خالی۔

#KhyberPakhtunkhwa #SportsDirectorate #DSOAccountability #SportsBudget #KPYouth #SportsCorruption #PublicFunds #Kikxnow #MusarratUllahJan #SportsReform #QuarterlyReview

Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 831 Articles with 687342 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More