"چرس، تاش اور تقدیر کا کھیل"
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
یہ وہی مقام ہے جہاں سے پاکستان میں چرس کی سپلائی ہوتی ہے۔ اب یہ کوئی خفیہ بات نہیں، اتنی مشہور ہے کہ اگر کبھی اقوام متحدہ والے کسی روز "منشیات کا ورلڈ کپ" کرائیں تو ہمارا یہ علاقہ بغیر کوالیفائنگ راو¿نڈ کے سیدھا فائنل میں پہنچ جائے۔ یہاں کی مٹی میں اگر گندم بھی بو دو تو بیچ میں سے پتے نکل آتے ہیں جنہیں دیکھ کر لوگ خود کو "قدرت کا عاشق" کہنے لگتے ہیں۔یہاں کا منظر بڑا دلچسپ ہے۔ کسی کے گھر جائیں تو باورچی خانے میں دیگ نہیں، "چرس کے گٹ" سوکھ رہے ہوتے ہیں۔ بزرگ لوگ نصیحت دیتے ہیں کہ "بیٹا رزقِ حلال میں برکت ہے"، اور ساتھ ہی بیٹے کو کہتے ہیں، "فصل کی رکھوالی اچھی طرح کرنا، کل خریدار آ رہا ہے۔" رزقِ حلال کی تعریف بھی مقامی حالات کے حساب سے ایڈجسٹ کر لی گئی ہے۔
اب مسئلہ یہ ہے کہ جب فوجی آپریشن کی بات ہوتی ہے تو سب سے زیادہ شور یہی سے اٹھتا ہے۔ اور وہ بھی اس لیے نہیں کہ علاقے کی امن و امان کی فکر ہے، بلکہ اس لیے کہ "کاروبار" خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ ایک دوست نے تو کہا، "اگر آپریشن ہو گیا تو ہماری فصلیں جل جائیں گی!" میں نے پوچھا، "کون سی فصل؟ گندم یا مکئی؟" بولا، "نہیں جی، وہی جو سکون دیتی ہے!" یعنی چرس۔ میں نے کہا، "واہ بھائی، تمہاری تو نیت بھی خوشبودار ہے!"
80 فیصد مقامی آبادی کا روزگار اسی دھندے سے جڑا ہے۔ لوگ صبح ا±ٹھتے ہیں، وضو کرتے ہیں، نماز پڑھتے ہیں، اور پھر سیدھے کھیت میں جا کر "منشیات کی فصل" کو پانی دیتے ہیں۔ کوئی پوچھے کہ بھائی، یہ تضاد کیوں؟ تو جواب ملتا ہے، "اصل بات نیت کی ہے، ہم کسی کو نقصان نہیں پہنچاتے۔" جیسے کہ ہیروئن پینے والے کو کوئی فائدہ ہو رہا ہے۔
اسی لئے یہاں دہشتگردوں کی حمایت بھی بزنس پوائنٹ آف ویو سے کی جاتی ہے۔ نہ کوئی مذہبی جوش، نہ کوئی سیاسی غصہ۔ بس بات اتنی ہے کہ "اپنا دھندہ محفوظ رہنا چاہیے۔" آپریشن ہو گا تو خریداروں کا راستہ بند ہو جائے گا، بارڈر پر سختی ہو گی، اور پھر "پراڈکٹ" سٹاک میں پھنس جائے گی۔ بندہ کیا کرے؟ ملک کے مفاد میں نقصان اٹھائے یا اپنے کاروبار کے مفاد میں ملک کو نقصان پہنچائے؟ سوال بڑا سادہ ہے:کیا ہم نے اپنا مستقبل بچانا ہے، یا حرام روزگار؟
یہی سوال میں نے ایک دن اپنے ایک پرانے دوست سے پوچھا جو تیراہ میں رہتا ہے۔ کہنے لگا، "جناب ہم تو قسمت کے کھلاڑی ہیں۔" میں نے کہا، "کیا مطلب؟" بولا، "ہم تاش کھیلتے ہوئے قسمت آزماتے ہیں، اور کھیتوں میں چرس بو کر رزق آزماتے ہیں۔" میں نے کہا، "واہ، تمہارے پاس تو دونوں جہانوں کے کھیل موجود ہیں۔"ایک دن وہی دوست بتانے لگا کہ ہم تیراہ میں بیٹھے تاش کھیل رہے تھے، سب کے ہاتھ میں پتے تھے، کوئی جیتنے والا، کوئی ہارنے والا۔ اتنے میں ایک بزرگ قسم کے بندے نے کہا، "بھائیو یہ حرام ہے۔" سب کے چہرے سنجیدہ ہو گئے۔ پھر وہ دوست ہنسا اور بولا، "چاچا جی، اگر تاش حرام ہے تو کھیتوں میں جو افیون بو رہے ہیں وہ حلال ہے؟" اس کے بعد محفل میں ایسی خاموشی چھا گئی جیسے کسی نے سپیکر سے بجلی کھینچ لی ہو۔
بات یہ ہے کہ ہم نے مذہب، اخلاقیات اور قانون کو اپنی سہولت کے مطابق فٹ کر لیا ہے۔ جس چیز سے فائدہ ملتا ہے وہ "ثقافتی روایت" بن جاتی ہے، اور جس سے نقصان ہوتا ہے وہ "حرام" قرار پاتی ہے۔ مثال کے طور پر، تاش کھیلنا گناہ ہے، لیکن چرس کاشت کرنا "مجبوری" ہے۔ بندہ سوچتا ہے کہ اگر یہی منطق دنیا کے باقی حصوں میں چلی تو پھر ڈاکو بھی کہیں گے، "ہم تو بے روزگاری کے خلاف جہاد کر رہے ہیں۔"
چرس یہاں صرف نشہ نہیں، ایک مکمل معاشی نظام ہے۔ اس کا پروڈکشن، سپلائی چین، برآمدات، مارکیٹنگ، سب کچھ منظم ہے۔ بس فرق اتنا ہے کہ یہ سب غیر قانونی ہے۔ لیکن مقامی لوگ اسے "کاروبارِ سبز" کہتے ہیں، جیسے کوئی ماحول دوست چیز ہو۔ ان کے مطابق چرس فطری پیداوار ہے، یعنی "اللہ کی بنائی ہوئی چیز"۔ میں نے ایک سے پوچھا، "تو زہر بھی اللہ نے ہی بنایا ہے، کھا لو؟" بولا، "وہ نقصان دہ ہے۔" میں نے کہا، "تو چرس فائدہ مند ہے؟" بولا، "جی، جب تک پولیس نہ پکڑے۔"
یہی وہ جگہ ہے جہاں لوگ قانون کو "قانونِ فطرت" سمجھ کر اپنے حق میں ڈھال لیتے ہیں۔ اگر پکڑے جائیں تو کہتے ہیں، "ہمیں روزگار چاہیے تھا۔" اگر نہ پکڑے جائیں تو کہتے ہیں، "اللہ کا کرم ہے۔" اور جب کبھی ریاست ایکشن لے تو شور مچ جاتا ہے کہ "ہمیں دیوار سے لگایا جا رہا ہے۔" حالانکہ دیوار تو وہ خود چرس کی اینٹوں سے بنا چکے ہیں۔ہم سب کو یہ سوچنا ہو گا کہ کب تک یہ کھیل چلے گا۔ چرس کی خوشبو وقتی سکون دے سکتی ہے، لیکن مستقبل کو دھوئیں میں بدل دیتی ہے۔ ان علاقوں کے بچوں کے پاس دو ہی راستے ہیں: یا تو کتاب پکڑیں، یا پتی۔ اور افسوس یہ ہے کہ زیادہ تر کے ہاتھ میں کتاب نہیں، پتی ہی ہوتی ہے۔
ایک بزرگ نے ایک دن کہا، "بیٹا، تمہارے والد بھی یہی کام کرتے تھے۔" میں نے پوچھا، "پھر آپ کو احساس نہیں ہوا کہ یہ غلط ہے؟" بولا، "احساس ہوا تھا، لیکن کاروبار چل رہا تھا۔" یعنی ضمیر جاگتا ہے مگر اگلی فصل کے ساتھ دوبارہ سو جاتا ہے۔یہ کالم لکھتے ہوئے مجھے خیال آیا کہ شاید ہم سب کسی نہ کسی سطح پر یہی کھیل کھیل رہے ہیں۔ کوئی قلم سے جھوٹ بیچتا ہے، کوئی طاقت سے خوف، اور کوئی پتے سے قسمت۔ فرق صرف اتنا ہے کہ کچھ کو قانون پکڑ لیتا ہے اور کچھ کو قسمت چھوڑ دیتی ہے۔
آخر میں بس اتنا کہوں گا چرس کا دھندہ ہو یا تاش کا کھیل، دونوں وقتی مزہ دیتے ہیں مگر نتیجہ تباہی ہے۔ جنہیں آج "سکون" لگتا ہے، وہ کل اس دھندے کے بوجھ تلے دب جائیں گے۔ اور جو کہتے ہیں "ہمیں بھی جینے دو"، ان سے کہنا ہے کہ جی لیں، مگر حرام کے دھوئیں میں سانس نہ لیں۔ کیونکہ جو دھواں آج آسمان کو چھو رہا ہے، وہ کل تمہارے مستقبل کو جلا دے گا۔
|