تعلیمی بورڈزاصلاح احوال کی ضرورت

بھلاکون کافر کمپیوٹر کی افادیت کامنکر ہوسکتا ہے، اس کی اہمیت و ضرورت مسلمہ ہے، موجودہ زمانے میں کمپیوٹر کے بغیر کاروبارِ حیات ادھورا ہے۔ لیکن جہاں حساب کتاب کی بات ہو اور جہاں بہت سے کوائف کو جمع کرنا ہو، وہاں کمپیوٹر لازم وملزوم کی حیثیت اختیار کرجاتا ہے۔ خادم پنجاب نے بجا طور پر پنجاب کے تعلیمی بورڈوں کے امتحانی نظام میں مزید جدت لانے کے لئے کمپیوٹر کی مدد سے امتحان لینے اور ان کا نتیجہ تیار کرنے کا حکم صادر کیا ۔ ان کے مزاج کو سمجھنے والے کسی سمجھدارنے انہیں بریف کیا کہ کس طرح کمپیوٹر کے ذریعے سارے امتحانی نظام کو شفاف بنایا جاسکتا ہے۔ اس کی بریفنگ کارگر ثابت ہوئی اور بورڈوں کو عمل کرنے کا پابند کردیا گیا۔

انٹر کے امتحان میں جو ہنگامہ ہوا ، وہ نہم کے امتحان میں بھی ہوسکتا تھا، کیونکہ بچوں کا نتیجہ اسی قسم کا تھاجیسا کہ اب آیا ہے ، کسی بورڈ کا نتیجہ 26فیصد سے اوپر نہ گیا ، مگر بچے ابھی بچے تھے ، احتجاج کا خیال نہ آیا،اگر آیا بھی تو ان کے لئے اس در جہ اہتمام سے اکٹھے ہونا آسان نہ تھا۔ حتیٰ کہ اس بڑے پیمانے پر ری چیکنگ کا رجحان بھی پیدا نہ ہوا، اگر کسی نے ہمت کی بھی تو 750روپے فی پرچہ فیس بھری اور دوسروں کے گناہ کی سزا اپنے سر لی، یعنی غلطی کسی اور کی اور خرچہ کسی اور کا۔ لیکن یہ منزل بھی کسی کسی نے سر کی۔ اب اگر انٹر والوں نے ہمت کرکے احتجاج کیا ہے تو حکومت کو خود سوچنا چاہیئے کہ نہم والوں کا مستقبل کس جرم کی پاداش میں خراب کیا گیا ہے؟

فطرت کی روایت یہی ہے کہ زینہ زینہ چڑھ کر چھت تک پہنچاجائے ، ایک ہی جست میں ایسا ممکن نہیں ہوتا، چند ماہ کا بچہ یکایک چلنے اور بھاگنے نہیں لگتا، ہر کام کے لئے کچھ وقت درکار ہوتا ہے، ریاضت اور محنت سے کامیابی کی منزلیں خود ہی قریب ہوجاتی ہیں، ہمارے ہاں مسئلہ یہ ہے کہ اپنے خادم ِ پنجاب جو منصوبہ بھی بنا لیں ان کی خواہش ہوتی ہے کہ ایک سال کا کام ایک ماہ میں ہوجائے، دانش سکول ہوں یا لاہور کا فلائی اوور یا کوئی ماڈل بازار،ہر کام کو وہ فوری مکمل کرواناچاہتے ہیں، جس کے نتیجے میں تعمیر کا معیار قائم نہیں رہ سکتا، پوری انتظامیہ بوکھلاہٹ کا شکار ہوتی ہے، اور ہنگامی بنیادوں پر کام کرنے سے اخراجات میں بے حساب اضافہ بھی ہوجاتا ہے۔

بورڈوں کی اس بڑی ناکامی میں کرپشن کے پہلو کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ، بورڈوں کے کرتا دھرتاؤں نے ناقص کاغذ خریدا ، جہاں بچوں کی طرف سے لگائے گئے دائرے کی روشنائی کو کمپیوٹر نے اٹھایا ہی نہیں ، کیونکہ ان کاغذوں پر سیاہی پھیل گئی جسے اٹھانے سے کمپیوٹر نے انکار کردیا، سستے داموں کاغذ خریدنے والے معاملے پر بھی تمام بورڈوں میں کرپشن کی تحقیق ہونی چاہیے۔پیپروں کے بعد والی محنت میں میڈیا کے ہتھے بہاول پور بورڈ کا ایک ملازم چڑھ گیا، جو ایک سینٹر میں بیٹھ کر پیپر چیک کررہا تھا، اس کی خبریں آنے کے باوجود اس نے کوئی خطرہ محسوس نہیں کیا،نہ ہی اسے کچھ کہا گیا۔ بورڈوں کی فیس میں بھی سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں کے بچوں میں سگی اور سوتیلی کا سافرق روا رکھا جاتا ہے، کیا پرائیویٹ سکولوں کے بچے پنجاب کے باسی نہیں ، کیا وہ تمام کے تمام ہی کھاتے پیتے گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں اور کیا سرکاری سکولوں کے تمام بچے غریب ہی ہوتے ہیں؟

ہوتایہ کہ پہلے بورڈز میں کمپیوٹر جاننے والے بھرتی کئے جاتے ، پھر سٹوڈنٹس کو فارم آن لائن دیئے جاتے ،پاؤں پاؤں چلتے بچے دو تین امتحانوںمیں پورے نظام سے آگاہ ہوجاتے ، جو کمی رہ جاتی ساتھ ساتھ دور ہوتی جاتی، مینول نتیجہ بھی تیار ہوتا، ہر بورڈ کو آزادی دی جاتی کہ وہ اپنا رزلٹ بناکر لاہور بھیج دیتا، جس سے کام تقسیم بھی ہوجاتا اور ذمہ داری کا احساس بھی رہ جاتا، مگر انقلابی سوچ کے حامل جذباتی لوگوں کا کیاکیجئے کہ جذباتی فیصلے کرنے کے عادی لوگ اکثر غلطیاں کرجاتے ہیں۔ اب جن صاحب کی وجہ سے اس سال انٹر کے ہی نہیں نہم کے رزلٹ بھی خراب ہوئے ہیں، اور وہ شخص کروڑوں روپے کما کر گھر جاچکا ہے ، کیا اس کی چھٹی کردینا ہی اس کی کافی سزا ہے، کیا لاکھوں سٹوڈنٹس کا مستقبل تاریک کرکے اپنی تجوریاں بھرنے والے سے بچوں سے اکٹھا کیا گیا روپیہ واپس نہیں لیا جانا چاہیئے؟کیا خادم پنجاب کو اس بہت بڑے واقعے کے بعد راتوں رات تبدیلی لانے کی روش تبدیل نہیں کرنی چاہیئے؟
muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 472701 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.