چین کی مضبوط ماحولیاتی گورننس
(Shahid Afraz Khan, Beijing)
|
چین کی مضبوط ماحولیاتی گورننس تحریر: شاہد افراز خان ،بیجنگ
بین الاقوامی ماحولیاتی تحفظ اور عالمی ذمہ داریوں کے تناظر میں ترقی یافتہ
ممالک کے کردار کی اہمیت مسلمہ ہے۔ اس سلسلے میں چین نے قومی سطح پر
ماحولیاتی تہذیب کی تعمیر کو خصوصی اہمیت دی ہے، جہاں معاشرے کے تمام طبقات
نے روزمرہ زندگی کے معمولی اقدامات سے آغاز کرتے ہوئے توانائی کی بچت اور
ماحولیات کے تحفظ کی عادات کو اپنایا ہے۔ سبز اور کم کاربن والی طرز زندگی
کو فروغ دینے کی یہ کوششیں اب عوامی حلقوں میں مقبولیت حاصل کررہی ہیں۔ چین
کے نقطہ نظر کے مطابق عوام اور ادارے ہی ماحولیاتی تہذیب کی وہ بنیادی
اکائیاں ہیں جو پائیدار ترقی کے تمام ڈھانچے کی اساس ہیں۔
انہی
کوششوں کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے ابھی حال ہی میں چینی حکومت نے ماحولیاتی
نگرانی سے متعلق ضابطہ جاری کیا ہے ۔یہ نیا ضابطہ، جو یکم جنوری 2026 سے
نافذ ہوگا، 7 ابواب اور 49 دفعات پر مشتمل ہے۔ اس کا مقصد ماحولیاتی نگرانی
کے کاموں کو معیاری بنانا، نگرانی کی صلاحیتوں کو بہتر بنانا اور متعلقہ
ڈیٹا کے معیار کو یقینی بنانا ہے۔
ضابطے میں ایک جدید ماحولیاتی
نگرانی کے نظام کی تعمیر کو تیز کرنے پر زور دیا گیا ہے، جس کا مرکز
ماحولیاتی نگرانی کی آٹومیشن، ڈیجیٹائزیشن اور ذہین صلاحیتوں کو جامع طور
پر بہتر بنانا ہے۔اس میں معقول تعینِ مقام، جامع فعالیت، درجہ بندی اور
مشترکہ ترقی کے اصولوں پر مبنی ماحولیاتی نگرانی نیٹ ورک قائم کرکے عوامی
نگرانی کو بہتر بنانے پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
ضابطے میں مختلف
آلودگی کے ذرائع کی نگرانی اور مانیٹرنگ کو مضبوط بنانے کے ساتھ ساتھ
ماحولیاتی خطرات کے لیے نگرانی اور ابتدائی انتباہ پر زور دیا گیا ہے۔ مزید
برآں، یہ اچانک رونما ہونے والے ماحولیاتی واقعات کے لیے ایک مضبوط
مانیٹرنگ اور انتظامی نظام قائم کرنے کی ہدایت کرتا ہے۔
تکنیکی
خدماتی اداروں کے حوالے سے، ضابطےمیں کہا گیا ہے کہ ایسے اداروں کے پاس
ضروری سامان، تکنیکی صلاحیتیں، پیشہ ورانہ عملہ اور انتظامی صلاحیت ہونی
چاہیے، اور انہیں ماحولیاتی حکام کے ساتھ رجسٹر ہونا ضروری ہے۔مزید برآں،
ضابطہ نگرانی کو بہتر بنانے اور احتساب کے سخت اقدامات پر بھی زور دیتا ہے۔
تحفظ ماحول کے حوالے سے چین کی جدوجہد کو دیکھا جائے تو حالیہ برسوں میں
خوبصورت چین کے قیام کی مہم کے تحت عوامی کوششوں کے نتیجے میں جنگلات کے
رقبے میں مسلسل اضافہ ہوا ہے، شہری و دیہی رہائشی ماحول میں قابل ذکر بہتری
آئی ہے، اور معیشت کو زیادہ پائیدار خطوط پر استوار کیا گیا ہے۔ چین نے
بطور ترقی پذیر ملک اقوام متحدہ کے 2030 پائیدار ترقی کے ایجنڈے کو اپنی
وسط المدتی اور طویل المدتی ترقیاتی حکمت عملیوں کے ساتھ ہم آہنگ کیا ہے۔
حکومتی اقدامات کے نتیجے میں معاشی، سیاسی، سماجی، ثقافتی اور ماحولیاتی
شعبوں میں متوازن ترقی کے راستے ہموار ہوئے ہیں۔
چین نے اختراعی
نقطہ نظر اپناتے ہوئے پائیدار ترقی کے حصول کے لیے متعدد اہم شعبوں پر توجہ
مرکوز کی ہے، جن میں ماحولیاتی تہذیب کی تعمیر، مشترکہ خوشحالی کا حصول اور
موسمیاتی تبدیلیوں کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے پائیدار حل کی تخلیق شامل
ہیں۔ ماحولیاتی تہذیب کے ڈھانچے کے تحت ادارہ جاتی اصلاحات کے میدان میں
چین کی کارکردگی قابل ذکر رہی ہے۔ ملک نے ماحولیاتی تحفظ کے لیے ایک جامع
قانونی نظام تشکیل دیا ہے جس میں 30 سے زائد قومی قوانین، 100 سے زیادہ
انتظامی ضوابط اور 1000 سے زیادہ مقامی قوانین شامل ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ
ماحولیاتی قوانین کی خلاف ورزیوں کے خلاف کارروائی میں بھی مضبوطی برتی گئی
ہے۔
بین الاقوامی سطح پر چین کا کردار ماحولیاتی تحفظ کے شعبے
میں ایک شراکت دار سے رہنما کی طرف تبدیل ہوا ہے۔ چین نے چالیس سے زائد
ترقی پذیر ممالک کے ساتھ موسمیاتی تبدیلی کے شعبے میں پچاس سے زائد
جنوب۔جنوب تعاون کے معاہدوں پر دستخط کیے ہیں، 300 سے زائد صلاحیت سازی
ورکشاپس کا انعقاد کیا ہے، اور 120 سے زیادہ ترقی پذیر ممالک و خطوں کے
شرکاء کو 10,000 سے زیادہ تربیتی مواقع فراہم کیے ہیں۔چین نے بیلٹ اینڈ روڈ
انرجی پارٹنرشپ قائم کی ہے، اور بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو انٹرنیشنل گرین
ڈویلپمنٹ کولیشن تشکیل دی ہے جس میں 40 سے زائد ممالک کے 170 سے زیادہ
شراکت دار شامل ہیں۔
آج چین کا ماحولیاتی تہذیب کے فروغ کے لیے
عزم بین الاقوامی برادری میں سراہا جاتا ہے۔ مقامی و عالمی سطح پر کیے گئے
اہم فیصلے اور اقدامات چین کو بین الاقوامی تعاون کا قابل اعتماد شراکت دار
بنانے میں اہم کردار ادا کررہے ہیں، جبکہ یہ کوششیں عالمی ماحولیاتی ایجنڈے
کو تشکیل دینے میں کلیدی حیثیت رکھتی ہیں۔ |