محمد عرفان جونیئر کی بال ٹیمپرنگ — ایک واقعہ یا پاکستانی کرکٹ کا پرانا زخم؟

کرکٹ کے کھیل میں ایمانداری اور تکنیک کو سب سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ مگر جب بھی کوئی کھلاڑی "بال ٹیمپرنگ" کے الزام میں پکڑا جاتا ہے تو سوال صرف اس فرد پر نہیں بلکہ پورے نظام پر اٹھتے ہیں۔ حال ہی میں آسٹریلیا میں کھیلنے والے پاکستانی فرسٹ کلاس کرکٹر محمد عرفان جونیئر پر بال ٹیمپرنگ کا الزام ثابت ہونے کے بعد پانچ میچز کی پابندی عائد کی گئی ہے۔ یہ سزا انہیں کرکٹ وکٹوریا ٹریبونل نے دی، جو وہاں کے وکٹورین پریمیئر کرکٹ نظام کے تحت کام کرتا ہے۔

عرفان جونیئر، جو ماضی میں واپڈا کی نمائندگی کر چکے ہیں اور مختلف پاکستان سپر لیگ (PSL) فرنچائزز کے لیے بھی کھیل چکے ہیں، اب آسٹریلیا میں مقامی سطح پر کرکٹ کھیل رہے تھے۔ ان پر الزام ہے کہ ایک میچ کے دوران انہوں نے گیند کی حالت جان بوجھ کر خراب کی تاکہ سوئنگ میں مدد ملے — یعنی وہ عمل جسے کرکٹ قوانین میں Level-3 offence کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔

آسٹریلیا کے وکٹورین پریمیئر شپ میچ میں امپائرز نے گیند کی غیر معمولی حالت پر نوٹس لیا۔ بعد ازاں تحقیقات میں محمد عرفان جونیئر کے خلاف ثبوت سامنے آئے کہ انہوں نے گیند کی سطح پر غیر قانونی چھیڑ چھاڑ کی۔ اس الزام کے ثابت ہونے پر انہیں پانچ میچوں کی معطلی دی گئی۔یہ بات اہم ہے کہ اس پابندی کا دائرہ صرف آسٹریلیا کی ڈومیسٹک سطح تک محدود ہے، تاہم اثرات اس سے کہیں زیادہ گہرے ہیں۔ ایک کھلاڑی کے لیے "بال ٹیمپرنگ" کا داغ اس کی ساکھ پر مستقل اثر ڈالتا ہے۔ عرفان جونیئر نے اپنی صفائی میں کہا ہے کہ انہوں نے جان بوجھ کر ایسا کوئی عمل نہیں کیا، لیکن ٹریبونل نے ویڈیو اور میچ رپورٹ کی بنیاد پر جرم ثابت قرار دیا۔

بال ٹیمپرنگ کوئی نیا معاملہ نہیں۔ یہ جرم تقریباً ہر دور میں سامنے آیا ہے — چاہے وہ 1990 کی دہائی میں وسیم اکرم اور وقار یونس پر الزامات ہوں یا 2018 میں آسٹریلیا کے اسٹیو اسمتھ، ڈیوڈ وارنر، اور کیمرون بینکرافٹ کا مشہور واقعہ۔عرفان جونیئر کا کیس ہمیں ایک بنیادی سوال کی طرف واپس لے جاتا ہے کیا بال ٹیمپرنگ کرکٹرز کے لیے “دباو کا نتیجہ” ہے یا “ایمانداری کی کمی”؟

ایک طرف کھلاڑیوں پر کارکردگی دکھانے کا شدید دباوہوتا ہے، دوسری طرف گیند کے معیار اور پچ کی حالت اکثر غیر متوازن ہوتی ہے، خاص طور پر آسٹریلیا میں جہاں فاسٹ بولرز کے لیے سوئنگ حاصل کرنا آسان نہیں۔ مگر اس دباو کے باوجود قانون تو قانون ہے — اور اس کے توڑنے کی کوئی گنجائش نہیں۔پاکستانی کرکٹرز کی تاریخ میں ڈسپلن کے مسائل بدقسمتی سے بار بار سامنے آتے رہے ہیں۔ فکسنگ، مشتبہ بولنگ ایکشنز، اور اب بیرون ملک بال ٹیمپرنگ جیسے واقعات — یہ سب پاکستانی کرکٹ کے تاثر کو نقصان پہنچاتے ہیں۔

عرفان جونیئر کے واقعے سے ایک بار پھر وہی پرانا خدشہ زندہ ہو گیا ہے کہ پاکستانی کھلاڑی بین الاقوامی معیار کے مطابق کھیل کے آداب پر عمل نہیں کرتے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان نے ماضی میں کئی ایسے بولرز پیدا کیے جنہوں نے سوئنگ کے فن کو بغیر کسی غیرقانونی حربے کے دنیا کے سامنے پیش کیا — وسیم اکرم، وقار یونس، محمد آصف، اور محمد عامر کے ابتدائی دنوں کی مثالیں واضح ہیں۔لیکن جب کوئی کھلاڑی بیرون ملک جا کر قانون شکنی کرتا ہے، تو وہ صرف اپنی نہیں بلکہ ملک کی ساکھ بھی داو پر لگا دیتا ہے۔

کرکٹ آسٹریلیا اور کرکٹ وکٹوریا کے ضابطے بہت سخت ہیں۔ Ball Tampering کو وہاں Level 3 Offence مانا جاتا ہے، جس کے لیے کم از کم چار سے چھ میچز کی معطلی دی جا سکتی ہے۔اخلاقی لحاظ سے بھی یہ جرم “unsporting behaviour” میں آتا ہے۔ یعنی ایسا عمل جو کھیل کی روح کے خلاف ہو۔ بال ٹیمپرنگ کا مطلب صرف گیند کو چھیلنا نہیں بلکہ کھیل کے توازن کو بگاڑنا ہے — کیونکہ بولر کو غیر قانونی فائدہ ملتا ہے۔عرفان جونیئر کا یہ عمل شاید فوری جیت کے لیے ہو، مگر اس کے طویل المدت نتائج بہت نقصان دہ ہیں۔

پاکستانی میڈیا نے اس خبر کو مختصر انداز میں چلایا، لیکن بین الاقوامی میڈیا نے اسے “Another Pakistani caught tampering” جیسے جملوں سے پیش کیا۔ یہ لسانی تعصب نہیں بلکہ ہمارے نظامی کمزوریوں کی نشاندہی ہے۔ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کرکٹ صرف کھیل نہیں بلکہ ایک برانڈ ہے — اور کھلاڑی اس برانڈ کے سفیر۔ جب ایک کھلاڑی بیرون ملک اس طرح کا جرم کرتا ہے تو وہ پوری قومی شناخت پر داغ لگا دیتا ہے۔

یہ واقعہ صرف ایک کھلاڑی کی غلطی نہیں بلکہ تربیتی نظام کی ناکامی بھی ہے۔ پاکستان میں کرکٹرز کو اکثر صرف تکنیکی تربیت دی جاتی ہے، مگر اخلاقی اور پیشہ ورانہ تربیت کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔اگر کسی کھلاڑی کو بچپن سے یہ سمجھایا جائے کہ ٹیمپرنگ یا کسی بھی غیرقانونی عمل کے نتائج کتنے سخت ہوتے ہیں، تو شاید وہ میدان میں ایسی حرکت نہ کرے۔پاکستان کرکٹ بورڈ (PCB) اور اس کی اکیڈمیز کو چاہیے کہ وہ “Ethics & Professionalism Workshops” کو لازمی بنائیں۔ صرف فٹنس یا نیٹ پریکٹس کافی نہیں — اخلاقی تربیت بھی اتنی ہی ضروری ہے۔

اگرچہ یہ پابندی آسٹریلیا کی ڈومیسٹک لیگ تک محدود ہے، لیکن مستقبل میں کسی بھی فرنچائز یا غیر ملکی ٹیم کے لیے یہ ریکارڈ اہم ہو گا۔ کوئی بھی ٹیم ایسے کھلاڑی کو سائن کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس کرے گی جس پر "Team Spirit Violation" کا داغ لگا ہو۔عرفان جونیئر اگر اس پابندی کے بعد میدان میں واپس آنا چاہتے ہیں تو انہیں عوامی معافی، کردار کی بحالی، اور “Clean Cricket Commitment” جیسے اقدامات کرنے ہوں گے۔یہ واقعہ صرف عرفان جونیئر کے لیے نہیں بلکہ ہر پاکستانی کھلاڑی کے لیے سبق ہے۔ کھیل میں ایمانداری سب سے بڑی حکمت ہے۔‘ غیر ملکی میدان میں تم صرف خود نہیں بلکہ پاکستان کی نمائندگی کرتے ہو۔ دباو کو بہانے کے طور پر استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ قوانین کی پابندی کھیل کی عزت کا تقاضا ہے۔

محمد عرفان جونیئر کا بال ٹیمپرنگ کیس وقتی خبر نہیں بلکہ ایک علامت ہے — اس بات کی کہ پاکستانی کرکٹ کو اب اپنے رویوں، نظام اور تربیت پر سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا۔اگر ہم اب بھی ایسے واقعات کو “چھوٹا معاملہ” سمجھ کر گزر جائیں، تو کل کوئی اور نام، کسی اور ملک میں، اسی طرح پاکستان کی بدنامی کا باعث بنے گا۔ بال ٹیمپرنگ صرف ایک گیند کی خراش نہیں — یہ اخلاقی خراش ہے جو پورے کھیل کے جسم پر نشان چھوڑ دیتی ہے۔
#kikxnow #digitalcreator #sports #cricket #games #bowling

Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 843 Articles with 690714 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More